جہاد فی سبیل اللہ



جہاد فی سبیل اللہ دینِ اسلام کا سب سے عظیم عمل ہے اور یہی امت مسلمہ کی سربلندی ،عزت اور کامرانی کا واحد راستہ بھی ہے ۔جب کفار نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ جمارکھاہو،جب طاغوت کے اذیت خانے اولیاءاللہ سے بھرے ہوئے ہوں ،جب اللہ کا قانون دنیا کے کسی خطے میں نافذ نہ ہو ،جب براہ راست اسلام پر حملہ کیا گیا ہو تاکہ اس کو جڑسے ہی اکھاڑ دیا جائے ،جب مسلم دنیاکے حکمران مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کاساتھ دے کر اسلام سے ارتداد اختیار کریں،ایسے میں اسلام اورمسلمانوں کے دفاع کے لیے جہاد ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتاہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔ایک روایت میں ہے:کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین پر جم کر لڑتا رہے گا یہ لوگ دشمن پر بھاری رہیں گے ان کے مخالفین ان کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حالت میں ہوں گے ''
دنیا میں کچھ لوگ ہمیشہ کے لیے کسی بات کی علامت اور نشان بن جاتے ہیں یا کوئی خاص چیز ان کی پہچان بن کر رہ جاتی ہے ۔ایسے ہی عظیم مجاہد گوریلا کمانڈر اور صف شکن سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ اپنے کارناموں کی بناپر شجاعت وبہادری ‘غیرت وحمیت اور صلیبیوں پر جہادی وقتالی یلغاروں کی بناپر ہمیشہ کے لیے جہاد وقتال کا نشان بن گئے ۔اب جب بھی کہیں دلاوری بہادری شجاعت اور صلیبیوں کو نکیل ڈالنے کی بات کی جاتی ہے تو فوراً سلطان صلاح الدین کا خیال ذہن میں آتا ہے۔جن لوگوں سے مستقبل میں اللہ کریم نے کوئی بڑا اور عظیم کام لینا ہوتا ہے ان کے بچپن میں ہی ان کی غیر معمولی صلاحتیوں کی کسی نہ کسی قرینے اور کنائے سے نشان دہی فرمادیتے ہیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی جس نے اسلامی تاریخ پراپنی عظمت وشوکت کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں کی اسلام اور مسلمانوں کے لیے غیرت وحمیت کا عالم یہ تھا کہ ابھی نوعمر ہی ہیں ‘عیسائی فوجیں ”رہا“پر قبضہ کرکے مال واسباب لوٹ کر عورتوں کو پکڑ لے جاتی ہیں ۔یہ ظلم دیکھ کر یہ نوعمر صلاح الدین ایک ترکی بوڑھے کو لے کر سلطان عماد الدین زنگی کے پاس پہنچتے ہیں ۔عیسائیوں کے مظالم سے بادشاہ کو آگاہ کرتے ہیں ‘اس کی اسلامی حمیت اور غیرت کو بیدار کرتے ہیں اور رو رو کر مدد کے لیے فریاد کرتے ہیں ۔
نیک دل بادشاہ کو ان حالات کا علم ہوتا ہے تو وہ تمام فوجیں جمع کرتا ہے ۔انہیں ”رہا“کے حالات سناتا اور جہاد پر ابھارتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ”کل صبح میری تلوار رہا کے قلعے پر لہرائے گی ‘تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا ؟“ یہ اعلان سن کرتمام فوجی حیران رہ جاتے ہیں کہ یہاں سے ”رہا“۹۰ میل کی دوری پر ہے ‘راتوں رات وہاں کیسے پہنچاجاسکتا ہے ؟یہ تو کسی طرح ممکن نہیں ۔تمام فوجی ابھی غور ہی کررہے تھے کہ ایک نو عمر لڑکے کی آواز گونجتی ہے ”ہم بادشاہ کا ساتھ دیں گے۔“لوگوں نے سراٹھاکر دیکھا تو ایک نوعمر لڑکا کھڑاتھا‘بعضوں نے فقرے چست کیے کہ ”جاؤ میاں کھیلوکودو!یہ جنگ ہے بچوں کا کھیل نہیں ۔“سلطان نے یہ فقرے سنے تو غصے سے چہرہ سرخ ہوگیا ‘بولا:”یہ بچہ سچ کہتا ہے‘اس کی صور ت بتاتی ہے کہ یہ کل میرا ساتھ دے گا ۔یہی وہ بچہ ہے جو ”رہا“سے میرے پاس فریاد لے کر آیاہے ‘اس کا نام صلاح الدین ہے ۔“ یہ سن کر فوجیوں کو غیرت آتی ہےسب تیار ہوجاتے ہیں اور اگلے روز دوپہر تک رہا پہنچ کر حملہ کردیا ۔گھمسان کی جنگ ہوئی ‘عیسائی سپہ سالاربڑی آن وبان کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلا ‘سلطان نے اس پر کاری ضرب لگائی مگر لوہے کی زرہ نے وار کو بے اثر بنادیا ،عیسائی سپہ سالار نے پلٹ کر سلطان پر حملہ کیا اور نیزہ تان کر سلطان کی طرف پھینکنا ہی چاہتا ہے کہ صلاح الدین کی تلوار فضامیں بجلی کی طرح چمک اٹھی اور زرہ کے کٹے ہوئے حصہ پر گر کر عیسائی سپہ سالار کے دوٹکڑے کرکے رکھ دیئے ۔عیسائی سپہ سالار کے موت کے گھاٹ اترتے ہی عیسائی فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور ”رہا“پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
آج ہر شخص کی زبان پر نوعمر صلاح الدین کی شجاعت کے چرچے ہیں اور یہ واقعہ تاریخ اسلام میں سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔
جوان ہوکر یہی صلاح الدین مشرق کا وہ سپہ سالار اور جرنیل بنا. 


Post a Comment

0 Comments