مجھے کچھ نفسِ امّارہ سے کُھل کر بات کرنی ہے
اور اس بدبخت پر اس کی بیاں اوقات کرنی ہے

خبر کچھ اس کی لینی ہے اسے شیشہ دکھانا ہے
کہ اس نے آخرت کے کام کو آسان جانا ہے

یہ اس سے پوچھنا ہے اس قدر پھولا ہوا ہے کیوں
تُو اے غافل خدائے پاک کو بھولا ہوا ہے کیوں

سمجھتا ہے تو خود کو حکمت و دانائی میں یکتا
فلک پر ہے ترا ماتم تو احمق ہے مگر ہنستا

کھڑی ہے موت سر پر اور ہلکا ہے ترا بستہ
ہٹے گر آنکھ سے پردہ تو ہوجائے تجھے سکتہ

جنازوں پر تُو جاتا ہے کہ یہ رسمِ زمانہ ہے
ترا افسوس کرنے بھی ابھی لوگو ں کو آنا ہے

تیرا بھی کفن کپڑے کی کسی دُکان میں ہوگا
سمجھ لے آج یا کل تو بھی قبرستان میں ہوگا

فرشتہ دفعتاً آتا ہے کب کچھ عذر سُنتا ہے
مگر تو اپنے منصوبوں کے لمبے جال بُنتا ہے

نہیں ہے موت ٹلنے کی کسی پل آنے والی ہے
تجھے ہمراہ اپنے جبر سے لے جانے والی ہے

اجل کی تیغ ہے سر پر تنی ، تو اس کے نیچے ہے
کہ اک ساعت یہ آگے ہے نہ اک ساعت یہ پیچھے ہے

کماں تھامے ہوئے ہے موت اپنے ہاتھ میں ہر پل
نہ اس کے تیر سے بچ پائے گا ناقص ہو یا کامل

تکبر میں کوئی فرعون ، کہ دولت میں ہو قاروں
وہ شہ زوری میں رستم ہو کہ خبطِ عشق میں مجنوں

وہ دانش میں اگر سقراط ہو ، لقمان حکمت میں
سیاست میں عمر ( رض) ہو یا علی (رض) عزم و شجاعت میں

ہو عیسیٰ ( ع) زہد میں یا پھر حکومت میں سلیماں ہو
ہو یوسف (ع) حُسن و احساں میں ، حیاداری میں عثماں (رض) ہو

غرض کوئی بھی ہو اس سے یہ پیالہ ٹل نہیں سکتا
کوئی حیلہ بہانہ زور کوئی چل نہیں سکتا

یہ مرضی موت کی ہے دن میں آئے رات میں آئے
چنے وہ موسمِ سرما کہ پھر برسات میں آئے

بڑھاپے تک تجھے بخشے کہ آجائے جوانی میں
دبوچے یا تجھے پھر بانکپن کی رُت سہانی میں

چلو گر موت نہ آئے تو بیماری کا ڈر تو ہے
کہ یہ بھی موت کی جانب ہی اک لمبا سفر تو ہے

تو کہتاہے کہ بڑھاپے میں تائب ہو ہی جائے گا
تجھے کس نے بتا یا ہے تو بڑھاپے کو پائے گا

خدا قرآن میں فرما رہا ہے بے بصر ہیں وہ
بہت نزدیک ہے وقتِ حساب اور بے خبر ہیں وہ

لگے رہتے ہیں اپنے کھیل میں پروا نہیں ان کو
خدا کے قُرب کی عرشی ذرا بھی چاہ نہیں ان کو

دبے پاوں مگر ہر گھر میں ملکِ الموت آتا ہے
کسی نے کب یہ دیکھا ہے کہ خالی ہاتھ جاتا ہے

کبوتر کی طرح مت میچ آنکھیں ہوش کر ناداں
کسی بھی طور نہ چھوٹے گی اس بلی سے تیری جاں

تو کس برتے پہ کس امید پر اتنا نڈر ہے تُو
کہ تیری تاک میں ہو موت لیکن بے خبر ہے تُو

اگر ایمان ہے تیرا جہنم اور جنت پر
خدا کی عظمت و طاقت پہ اس کی بادشاہت پر

تو کیوں کرتا ہے میدانِ عمل میں اس قدر ُسستی
یہاں تو ہر گھڑی درکار ہے بیداری و چُستی

اگر تُو یہ سمجھتا ہے نہیں وہ دیکھتا تُجھ کو
تو پھر تیری بصیرت پر بھروسہ کچھ نہیں مُجھ کو

اگر یہ زعمِ باطل ہے ابھی تجھ میں بہت دم ہے
تو پھر تیری حماقت پر ہو ماتم جس قدر کم ہے

اگر ایمان ہے تیرا کہ وہ موجود ہے ہر سُو
گناہ پھر بھی کئے جاتا ہے کتنا بے حیا ہے تو

بہادر گر تو ایسا ہے نہیں ڈرتا عذابوں سے
تو گویا دل سے منکرہے تو اس کی سب کتابوں سے

اگر دوزخ کی گرمی جھیلنے کی تجھ میں طاقت ہے
تو چُھو کر دیکھ شعلے کو کہ کیا درجہ حرارت ہے

بِنا اعمال کے اگر رحم پر تو اس کے نازاں ہے
تو کیوں دنیا کے دھندوں میں پھر اس درجہ پریشاں ہے

طلب میں مال و زر کی روز و شب ہے کس لیے مرتا
کریمی پر تو مولا کی بھروسہ کیوں نہیں کرتا

حصولِ زر کی خاطر گر یہاں محنت کی حاجت ہے
یہ دنیا ہو کہ وہ دنیا خدا کی ایک سُنت ہے

خدا نے ذکرِ عقبٰی میں یہی کُھل کربتا یا ہے
وہی انسان کا حصہ ہے جو اس نے کمایا ہے

بہت وہ فضل کرتا ہے اگر جہدِ مسلسل ہو
گناہ سب بخش دیتا ہے نہ گر ان میں تسلسل ہو

اور اس دنیا کے بارے میں یہی قانون ڈھالا ہے
زمیں پر سب کی روزی ہے وہ ادنٰی ہے کہ اعلٰی ہے

جہاں جائے گا تو روزی پہنچ ہی جائے گی تجھ کو
خدا رزّاق ہے تیرا یہ خود سمجھا ئے گی تجھ کو

کمائی آخرت کی تجھ کو غافل آپ کرنی ہے
تجوری جو تری خالی ہے وہ کوشش سے بھرنی ہے

بِنا کاٹے کٹے گا کیسے ماہ و سال کا رستہ
کہیں ہلکا نہ رہ جائے ترے اعمال کا بستہ

کہ لمبے راستوں کی ابتدا بھی اک قدم سے ہے
ہر اک پستی کی لیکن انتہا بھی اک قدم سے ہے

رہِ عقبٰی پہ چلنے میں یہ تیری مستقل سُستی
حماقت ہے کُھلی تیری کہ تیرا کُفر ہے مخفی ؟

اب اک دانش کا نکتہ ہے سو اس کو غور سے سُن لے
پھر اس کے بعد جو اچھا لگے وہ راستہ چن لے

یہاں گر ڈاکٹر تجھ کو کوئی پرہیز بتلائے
بِنا حجت تو اس کی بات پر ایمان لے آئے

دوا کڑوی کسیلی جاں بچانے کو تو کھاتا ہے
یقیں باتوں پہ تجھ کو ڈاکٹر کی خوب آتا ہے

ضروری ہو اگر تو روز انجکشن بھی لگوالے
کہے گر ڈاکٹر تو آپریشن بھی تو کروالے

تُو بیماری سے ڈرتا ہے سو اس کی مان لیتا ہے
بدلنے کے سبھی معمول دل میں ٹھان لیتا ہے

تو اپنی جان و صحت پر بہت پیسہ لُٹا تا ہے
علاج اپنا کرانے کو تُو امریکہ بھی جاتا ہے

تُو باتیں مانتا ہے سب کی سب اپنے معالج کی
بہت وقعت ہے تیرے دل میں اس کے علم و نالج کی

نہیں پر انبیاء کے قول کا تجھ پر اثر کوئی
نہیں دل میں خدائے لم یزل کا تجھ کو ڈر کوئی

ارے او نفسِ امّارہ او میری جان کے دشمن
مری رسوائی کے خواہاں مرے ایمان کے دشمن

بظاہر تُو نہ بہرہ ہے نہ گونگا ہے نہ اندھا ہے
بس اتنی بات ہے تُو خود غرض مطلب کا بندہ ہے

تری چادر میں بچھو ہے ، کوئی بچہ اگر چیخے
تو چادر پھینک دیتا ہے بِنا اک لفظ بھی پوچھے

کوئی کہ دے ترے بستر کے نیچے سانپ بیٹھا ہے
تو تُو کتنا بھی کاہل ہو مگر فوراً اُچھلتا ہے

تو کیا یہ انبیاء عالم حکیم اس سے بھی کمتر ہیں ؟
اور ان کے قول اور افعال بے معنی سراسر ہیں ؟

وہ روحانی معالج ہیں ترے ہمدرد ہیں وہ بھی
تڑپتے ہیں تری خاطر کہ اہلِ درد ہیں وہ بھی

نہیں ان پاک روحوں کو کوئی لالچ کوئی حاجت
خدا کے ہیں وہ اس کی گود میں پاتے ہیں ہر راحت

تمنا ہے ستائش کی نہ تجھ سے فیس لیتے ہیں
تری حالت پہ کُڑھتے ہیں دوا پلّے سے دیتے ہیں

رسول پاک ( ص) نے اُمت سے کھل کر کہ دیا یہ بھی
کہ جبرائیل نے یہ بات میرے دل میں ہے پھونکی

کہ تو جس شئے سے کر لے پیا ر آخر چھوڑ جائےگا
تو جو چاہے عمل کر لے جزاء لازم ہے پائے گا

نتائج کا عمل کے سامنا کرنا ضروری ہے
کوئی سو سال بھی جی لے تو پھر مرنا ضروری ہے

نصیحت مان لے غافل تو مت ہو آگ پر راضی
تو رکھ دنیا سے روزہ ، دال پر ہو ، ساگ پر راضی

اُٹھا لے آپ دنیا سے تو اپنے مستقبل ڈیرے
منہ اپنا پھیر لے ، قبل اسکے اپنے رُخ کو یہ پھیرے

مگر افسوس تجھ کو لذتِ دنیا کا چسکا ہے
بُھلا بیٹھا ہے دنیا رہ گذر ہے صرف رستہ ہے

بنا بیٹھا ہے تو رستے میں گھر دنیا کا عاشق ہے
اور اپنا عہد جو بُھولے اسی کا نام فاسق ہے

یہاں پُر لطف کھانے ہیں میسّر نرم بستر ہے
بچھونا خاک کا ہے قبر میں سرہانہ پتھر ہے

غلط فہمی ہے تجھ کو سب گئے پر تو نہ جائے گا
کرے گا تعزیت مُردوں کی اور ٹسوے بہائے گا

ترا گھر قبر ہے کیڑے ہیں تیرے منتظر بیٹھے
تری فردِ عمل لے کر فرشتے باخبر بیٹھے

وہاں پر سانپ ہیں بچھو ہیں ، رونا ہے دُہائی ہے
انہیں پہچان لے گا تُو یہی تیری کمائی ہے

سبھی سامان دنیا کا یہیں پر چھوڑنا ہوگا
بڑی حسرت سے جانب قبر کی منہ موڑنا ہوگا

بہت اونچے پلازے اور مکاں تعمیر کرتا ہے
ہمیشہ کے لیے جینے کی خواہش میں تُو مرتا ہے

جگہ تیری زمیں کے پیٹ میں ہے اور نیچے ہے
جبھی تو یہ کشش اس کی تجھے ہر آن کھینچے ہے

کھڑا ہے منتظر مُردوں کا لشکر تیری آمد کا
بِنا تجھ کو لیے ٹلنا نہیں یہ عہد ہے ان کا

بہت حسرت ہے مُردوں کو بہت غم عمرِ رفتہ کا
اُنہیں اک دن ہی مل جائے کہیں عمرِ گذ شتہ کا

تو وہ شرم و ندامت سے جہاں تک ہوسکے رو لیں
بہا کر آنسووں کی نہر وہ فردِ عمل دھولیں

تو خوش قسمت ہے اے ناداں یہ موقع تجھ کو حاصل ہے
گنوا دے گا اگر اس کو تو پھر احمق ہے جاہل ہے

بہت بے حِس ہے تُو تجھ کو نہ جانے کیا ہے بیماری
کہ تجھ پر رات دِن اک بے حسی کی نیند ہے طاری

تری آنکھوں میں شائد چھا گئی ہے جاہ کی چربی
بھلا یہ جاہ کیا ہے ؟ کچھ دلوں کا میل ہے وقتی

چلو یہ مان لیتے ہیں حکومت تیرے بس میں ہو
دلوں میں عشق ہو تیرا یہ سب کچھ دسترس میں ہو

تو پھر بھی عارضی ہے سب کا سب افسوس فانی ہے
حکومت ہو دلوں پر یا زمیں پر آنی جانی ہے

مگر دُکھ ہے تو یہ کہ تجھ پہ دنیا بھی نہیں مائل
اور اس کے عشق میں ہر پل ہوا جاتا ہے تُو گھائل

مشقت ہے بہت اس میں فنا بھی جلد ہوتی ہے
بڑی مشکل سے ملتی ہے جُدا بھی جلد ہوتی ہے

اگر یہ ناز ہے تجھ کو موافق ہے بہت دنیا
خدا کے منکروں پر بھی تو عاشق ہے بہت دنیا

فریب اس کا نہ کھانا ایک زنِّ فاحشہ ہے یہ
حکومت بھی ہو گر حاصل تو پھر دوہرا نشہ ہے یہ

کسی وعظ و نصیحت کا اثر تجھ پر نہیں پڑتا
تُو کُتّوں کی طرح ہے روز و شب مُردار پر لڑتا

اگر تو اپنی لذت چھوڑنے سے آج قاصر ہے
تو کل یہ اور بھی طاقت پکڑ جائے گی ظاہر ہے
مثال اس کی سمجھ لے ، آج گویا تجھ میں ہے قوت
پر اک پودا اُ کھیڑے تُو نہیں دل میں ترے ہمت

تو کل کیسے اُکھیڑے گا نہ جب باہوں میں دم ہوگا
تناور پیڑ بن جائے گا پودا پھر نہ خم ہوگا

ہری ٹہنی بھی تجھ سے مُڑ نہیں سکتی اگر کاہل
تو کل سوکھی کو جب موڑے گا ، کہلائے گا تُو پاگل

کنارہ کش اگر ہوجائے تو دنیا کی لذت سے
ترا دل آشنا ہوجائے گا لُطفِ عبادت سے

اگر عادی ہے تو لذت کا تیرا جی نہیں بھرتا
تو پھر لذاتِ جنت کی تمنا کیوں نہیں کرتا

تو خلقت کے لیے دن رات گوسجتا سنورتا ہے
ترے باطن میں پر دبُو سی ہے ، کچھ ہے جو سڑتا ہے

بہت ہے فکر لوگوں کی سبھی سے صلح کرتا ہے
مگر باطن میں تُو ہر آن خالق سے جھگڑتا ہے

بہت خلقت کی تجھ کو شرم ہے خالق سے بے پروا
تُو اپنے ظلم سے ، اپنی جہالت سے نہیں آگاہ

عبادت کی ہے گر توفیق ، اس پر پھولتا کیوں ہے ؟
بلعم باعور بھی عابد تھا اس کو بھولتا کیوں ہے ؟

خدا کی سمت عالم بن کے لوگوں کو بلاتا ہے
مگر خود دُور اس سے بے ادب تُو ہوتا جاتا ہے

بلا دنیا پہ جو آتی ہے سب تیری نحوست ہے
سمجھتا ہے تو خود کو پاک یہ تیری جہالت ہے

گدھا شیطان کا تو بن گیا وہ تجھ پہ حاوی ہے
لیے جاتا ہے تجھ کو جس طرف تیری تباہی ہے

بناتا ہے تجھے احمق ، وہ تجھ پر خوب ہنستا ہے
سمجھتا ہے تجھے اپنی سواری ، زین کستا ہے

اگر چہ مال کے بڑھنے سے تو مسرور ہوتا ہے
مگر کب عمر کے گھٹنے سے تو رنجور ہوتا ہے

تجھے کیا فائدہ گر سانس نہ ہوں مال ہو باقی
فرشتے آ کھڑے ہوں پُرسشِ اعمال ہو باقی

خدا کا فیصلہ یہ ہے ترے اعمال پرکھے گا
کھرا ہے یا کہ کھوٹا ہے ، وہ سارا مال پرکھے گا

خدا کے سامنے جب خائب و خاسر کھڑا ہوگا
یہ چھوٹے دن گذر ہی جائیں گے وہ دن بڑا ہوگا

اگر حائل ترے رستے میں تیرے دل کی سختی ہے
تو اتنا جان لے بدبخت، دوزخ تجھ کو چکھتی ہے

تُو خود پر ترس کر اپنے لیے آنسو بہایا کر
خدا کے خوف کی بھٹی میں اپنا دل تپایا کر

تڑپ کر رو خدا کے سامنے ، سجدے میں سر رکھ دے
بہت ممکن ہے وہ تیری دعاوں میں اثر رکھ دے

جو جتنے باخبر ہیں اس قدر ہر آن ڈرتے ہیں
کب اسکے قہر کے آگے فرشتے بھی ٹھہرتے ہیں

تری اوقات کیا ہے ، تو غلط فہمی میں مت رہنا
وہ لمبی ڈھیل دیتا ہے ، یہی نبیوں کا ہے کہنا

تُو اُٹھ راتوں کو رو پچھلے پہر ، اور خوب زاری کر
کسی بھی طور سے اعمال کے پلڑے کو بھاری کر

کبھی صدقہ کبھی خیرات دے کر اس کو راضی کر
بہت کر عاجزی، اس طور اپنی سرفرازی کر

اگر مل جائے صدقے کی تجھے توفیق اے جاہل
تو مت احساں جتا کر یا پشیمانی سے کر باطل

تضرع اس قدر کر جتنی کثرت ہے گنا ہوں کی
اسی کے در پہ جھکتی ہیں جبینیں شہنشاہوں کی

بہت وہ رحم کرتا ہے دلِ بے چین و مضطر پر
بہت ہی پیا ر آتا ہے اسے ہر دیدہ ء تر پر

ہوا کچھ مغز گر تجھ میں سنبھالا جائے گا تجھ کو
فقط چھلکا ہے تو دوزخ میں ڈالا جائے گا تجھ کو

حقیقت ہے یہ ، افسانہ ہے نہ رنگیں بیانی ہے
مرا ہی نفس ہے موذی اسی کی یہ کہانی ہے

یہ جھگڑا ہر گھڑی چلتا ہے چخ چخ روز ہوتی ہے
یہ جگ بیتی نہیں ہر گز ، یہ میری آپ بیتی ہے

چُھپا تھا درد جو دل میں ، وہ لفظوں میں اُتارا ہے
نہ اچھی شاعری کی ہے، نہ کوئی تیر مارا ہے

ندامت ہے ہر اک لمحے پہ جو عرشی گذارا ہے
خسارہ ہے ، خسارہ ہے ، خسارہ ہے، خسارہ ہے


Post a Comment

0 Comments