لکی انعامی کمیٹی شریعت کی نظر میں؟


ہفت روزہ جرار کا مقبول ترین سلسلہ آپ کے مسائل اور ان کا حل:
ہفت روزہ جرار میں شایع ہونے والے احکام و مسائل:
===== لکی انعامی کمیٹی شریعت کی نظر میں؟ =====

س:جناب عالی نہایت ادب سے گزارش ہے کہ آج کل معاشرے میں لکی کمیٹی یا انعامی کمیٹی کے نام پر کاروبار روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے اس کی روک تھام کے لیے آپ کے ادارہ کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مکمل دلائل کے ساتھ فتویٰ صادر فرمایا جائے تاکہ ہمیں اس کاروبار کو روکنے میں آسانی پیدا ہو۔
لکی کمیٹی/انعامی کمیٹی، سودی کاروبار کی نوعیت:

جناب محترم یہ کاروبار اس طریقے سے شروع کیا جاتا ہے کہ 200سو سے زائد ممبران اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ ایک یا ایک سے زیادہ شخص جس کے پاس کمیٹی ڈالی جاتی ہے ہر ممبر 3000 روپے ہر مہینے جمع کرواتا ہے اور ہر مہینے ایک کمیٹی نکالی جاتی ہے جس پر موٹر سائیکل، کار سوزوکی وغیرہ ہوتی ہیں۔ 200 ممبران میں سے 30 ممبرز کو دی جاتی ہیں۔ جبکہ 170 ممبران کو پیسے جمع کروانے کے باوجود کچھ نہیں ملتاہے۔ جناب سے گزارش کی جاتی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بنایا جائے کہ کیا یہ کاروبار سود پر مبنی ہے اور کیا ایسا کرنا حرام ہے؟ (اصغر علی کمبوہ۔ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ۔ بیرسٹر نسیم صابر لا ایسوسی ایٹ لاہور)
ج: سوال میں ذکر کی گئی کمیٹی کی صورت واضح قمار اور جوا ہے کیونکہ کمیٹی ممبران میں سے ہر فرد 3000 روپے اس لیے جمع کرواتا ہے کہ اسے اس 3000 کے عوض کار سوزوکی یا موٹر سائیکل وغیرہ مل جائے۔ کمیٹی میں شریک ممبران میں سے ہر ایک کے پیسے داؤ پر لگے ہوتے ہیں اور ہر ماہ صرف ایک ممبر کو اتفاقی طور پر (ان کے حقوق، خدمات یا عقلی فیصلے کے بغیر) چیز مل جاتی ہے۔ اس طرح کسی کو ایک کمیٹی دے کر کسی کو دو یا تین دے کر موٹر سائیکل یا سوزوکی کار مل جاتی ہے اور کسی کو تین کمیٹیاں ادا کرنے کے بعد چیز مل جائے گی باقی تمام ممبران کی داؤ پر لگی ہوئی تمام رقوم ضائع اور برباد ہو جائیں گی۔

سوال میں مذکور صورت کے علاوہ بعض کمیٹی والوں نے سب کے لیے کچھ نہ کچھ انعام وغیرہ بھی رکھا ہوتا ہے جو ان کی جمع کروائی ہوئی رقم سے کوئی نسبت نہیں رکھتا پھربعد والے ممبران اس معمولی چیز کو لے کر بھی قانع ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کے سوا کچھ مل بھی نہیں سکتا۔ یہ خالصتاً جوا ہے اور جوئے کی حرمت پر قرآن کریم میں صریح نصوص موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے ہیں اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں، کہہ دے جو بہترین ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (البقرہ: 219)

دوسرے مقام پر فرمایا(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو؟)(المائدہ:91-90)

پھر ایسی کمیٹیاں لوگوں کا مال ناجائز اور باطل طریقوں سے کھانے میں بھی آتی ہیں اور یہ بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا(اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جاؤ تاکہ لوگوں کے مالوں میں ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو)(البقرہ:188)

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ جوئے جیسے حرام اور قبیح فعل سے فوراً توبہ کریں اور لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے کھا کر اپنی عاقبت ہمیشہ کے لیے خراب نہ کریں۔ کیونکہ کسی کا نا حق کھایا ہوا مال اسے ادا کیے بغیر یا اس سے معاف کروائے بغیر نجات مشکل ہے۔

Post a Comment

0 Comments