Pakistan made for Rule of Allah

پاکستان سیکولر ملک یا اسلامی فلاحی ریاست ؟
پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کا جواز واضح طور پر یہ بتایا کہ دور ملوکیت میں اسلام کے چہرے پر جو بدنما داغ پڑ گئے تھے انہیں ختم کر کے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے گی۔ قائداعظم نے قبل از تقسیم کہہ دیا تھا کہ پاکستان کا آئین قرآن پاک کی صورت میں تیرہ سو سال سے موجود ہے ۔ یقیناً قائداعظم تھیو کریسی کے خلاف تھے، لیکن انہوں نے اپنی تحریر و تقریر میں کبھی سیکولرازم کا لفظ استعمال کرنا گوارہ نہ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے صرف ڈیڑھ ساتھ بعد 1949 میں قراردادِ مقاصد نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ پاکستان خالصتاً ایک اسلامی ریاست ہوگی۔ پاکستان کے سیکولر طبقات اور بیرونی بدخواہوں نے قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کی من مانی تاویلات کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ملک دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان تاویلات کی حقیقت کیا یہ ایک الگ موضوع ہے ، لیکن جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر میں سرے سے کوئی متنازعہ بات موجود ہی نہ تھی۔ یہ عدلیہ کے ایک سابقہ سیکولر منصب دار نے خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بعض جملوں کا اپنی طرف سے اضافہ کردیا تھا۔ برٹش لائبریری کی پوری چھان بین کے باوجود ان اضافی جملوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ( بحوالہ سلینہ کریم -Secular Jinah & Pakistan : what the 
nation does not know ) 
ہندوستان کی وزارت خارجہ بھی اس حوالہ سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو کورا جواب دے چکی ہے ۔ مزید یہ کہ ڈان نیوز اخبار 12 اگست کو شائع ہی نہیں ہوا تھا - لہذا یہ دعویٰ بھی جھوٹ کا پلندہ ہے کہ 11 اگست کی تقریر ڈان میں شائع ہوئی تھی۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی قائداعظم نے اسرائیل کو تسلیم نا کرکے عرب مسلمانوں کے ساتھ اپنے انسانی اور اسلامی جذبے کا سنگ میل شروع کیا، کوئی ایک سیکولر ملک بتادیں جس نے اسرائیل کو تسلیم نا کیا ہو ؟ قائداعظم نے اسرائیلی وزیر اعظم کو صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ( “Every man and woman of the Muslim world will die before Jewry seizes Jerusalem. I hope the Jews will not succeed in their nefarious designs and I wish Britain and America should keep their hand off and then I will see how the Jews conquer Jerusalem. The Jews, over half a million, have already been accommodated in Jerusalem against the wishes of the people. May I know which other country has accommodated them? If domination and exploitation are carried now, there will be no peace and end of wars” -Jinnah )
قائداعظم کا یہ جواب تھا ( کہ تمام مسلمان مرد و عورت یہودیوں کے بیت المقدس پر قبضے سے پہلے مر جائیں گے ( لیکن ان کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے ) مجھے یقین ہے کہ اگر امریکہ و برطانیہ اسرائیل پر سے ہاتھ اٹھا لے تو میں دیکھوں گا اسرائیل فلسطین کے لوگوں کی خواہش کے برعکس کیسے بیت المقدس کو پر قبضہ کرتے ہیں۔ کیا میں جان سکتا ہوں کس کس ملک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ؟ اگر جبری تسلط اور استحصال اسی طرح رہا تو یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی نا امن ہوگا ) ۔
سیدھی سی بات ہے کہ سیکولر پاکستان بنانے کے لیے سیکولر بھارت سے الگ ہونے کی ضرورت کیوں تھی ؟ تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت کیوں عمل میں آئی ؟ لاکھوں جانوں کی قربانی کیوں دی گئی ؟ ہزاروں مسلمان عورتوں کی عزت و عصمت کی قربانی کیوں گوارا کی گئی ؟ اگر سیکولر ملک ہی بننا تھا تو بھارت میں ہی رہتے ؟ 
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ مصطفوی دیس کے قیام کے لیے قربان کیا گیا - ہم نے دنیا کو پاکستان کا مطلب کیا " لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ " بتایا ،اس لیے اللہ نے ہماری مدد کی پاکستان صرف 7 سال کے قلیل عرصہ میں بنا تھا، 23 مارچ 1940 کو قراداد پاکستان منظور ہوئی اور 14 اگست 1947 کو پاکستان بن گیا ۔ قائداعظم جو سخت بیمار تھے انہوں نے اپنی بیماری انگریزوں اور ہندووں سے چھپائی تھی تا کہ ان کو خبر ہو گئی تو کبھی پاکستان نہیں بنے گا۔ اس راز کو صدی کا سب سے بڑا سایسی راز کہا جاتا ہے ۔
لیکن ہم نے کیا کیا ؟ خود ہی منحرف ہوگئے۔ وعدہ خلافی پر سزا کا پہلا کوڑا 1971 میں ہماری پیٹھ پر پڑا جب بھارت کی منصوبہ بندی اور پاکستان کی نااہلی سے دولخت ہوگیا۔ موجودہ پاکستان اس لیے لڑ کھڑا رہا ہے کہ اس کی تعمیر اس کی اصل بنیاد سے ہٹ کر کی گئی ہے ۔ غیر ہی نہیں خود اہل پاکستان بھی اس کی بقاء اور سلامتی کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ حالات اس قدر نہج پر پہنچ چکے ہیں الیکٹرانک و پریس میڈیا نے اس قدر منافقت و غلط خبریں شائع کی ہیں کہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل پرویز کیانی کو اپنی تقریر میں کہنا پڑا کہ " پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا ، اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور اسلام کو پاکستان سے خارج نہیں کیا جا سکتا " ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کی عملی تعبیر ہی پاکستان کو ناصرف محفوظ و مامون بنا سکتی ہے بلکہ ایک مضبوط و توانا ریاست بنا سکتی ہے ۔ آج جو بے حیائی اور معاشرے میں غلاظت ہے سب اسلام سے دوری کی وجہ سے ہے، ہم نے اللہ سے اور اس کے رسول سے غداری کی ہے، اس کے نام پر ملک مانگ کر یہاں قحبہ خانے کھول لیے۔ چور بازاری ڈاکے زنا اغوا دہشتگردی ننگے ڈانس ملاوٹ کیا جرم ہے جو ہم نے نہیں کیا۔ اور دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم نے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا، دیکھو ہم کیا کر رہے ہیں اس کے ساتھ ،حسن نثار حامد میر عاصمہ جہانگیر اور بہت سے فاشٹ اس بات پر مصر ہیں کہ پاکستان میں سے اسلام ختم ہونا چاہیے جو حالت پاکستان کی ہے میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اسلام ہے کہاں ؟؟ یہاں تو اسلامی کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا گیا ہے ۔
پاکستان اسلام کے نام بنا ہے اور صرف اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں ہی زندہ و پائندہ رہ سکتا ہے ، اللہ اس کو ہمیشہ زندہ و سلامت رکھے آمین ( ایڈیٹنگ عدنان رسول بشکریہ نوائے وقت ) 
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر

Post a Comment

0 Comments