اصلاح معاشرہ




اللہ رب العزت نے جہاں دوسری نعمتیں عطا کیں، وہاں انسانوں کو آپس میں تعارف کے لیے نام وعرف رکھنے، حسب ونسب اور ملک ومذہب اور زبان کی بنیاد پر قبیلہ وبرادری (کے نظام) کی نعمت دی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسانوں کا نام وعرف کے ساتھ بھی تذکرہ فرمایا، انسانوں کے کچھ اچھے اور برے گروہوں کا مختلف نسبتوں سے تذکرہ فرمایا، تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی نسبت سے نسبی طور پر بنی آدم کے عرف سے متوجہ فرمایا۔ جیسے بنی آدم وبنی اسرائیل۔
اس نسبت کے بعد ایمان کے اعتبار سے دو بنیادی گروہوں کا تذکرہ ایمان داروں کا ’’مسلمان‘‘ کے نام سے اور منکرین کا ’’کافر‘‘ کے نام سے کیا۔ اس کے بعد مذہب کے اعتبار سے مسلمان، نصرانی، یہودی، صابی، مشرک۔اور وطن کے اعتبار سے اہل مدینہ واہل قریٰ واہل مدین اوراہل یثرب۔اسی طرح آسمانی کتابوں کی نسبت سے اہل کتاب، اہل انجیل۔ علم کی نسبت سے رہبان، علمائ، اہل العلم اور قصہ گو
اسی طرح دیگر کئی نسبتیں اللہ رب العزت نے بیان میں استعمال فرمائی ہیں اور ان کا مقصد سراسر تعارف اور ان کے افعال اور اعمال کی پہچان اور ان سے عبرت مقصود ہے اور ان کی رو سے ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد اور شیخی وتکبر یا ظلم وستم ہر گز نہیں ہے۔
لیکن جب انسان ایک دوسرے کو حقیر وذلیل سمجھنے لگا، اپنے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر برتری دینے لگا، جب اس تقسیم سے خون خرابے ہونے لگے۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثَی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ}
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھارے گروہ اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں اللہ کے نزدیک مرتبہ وعزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ (اللہ سے) ڈرنے والا ہے، بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘ الحجرات 49: 13

اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں، کنبے قبیلے، برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لیے ہیں تاکہ ہمدردی قائم رہے لڑائی جھگڑا نہ ہو۔
اسلام سے پہلے عربوں میں ہر طرف جہالت پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں سے معتبر سمجھتے تھے، شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا، جیسا کہ اوس وخزرج، قیس وذیباج اور بکر وتغلب وغیرہ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اسلام نے ان سب قبائل کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا جس سے امن وامان کی فضا قائم ہوئی۔
’’ذات وبرادری‘‘ کے نام پر ظلم وفساد کی شر انگیزی آج بھی ہندو مذہب میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔
آریا (ہندو) جب جنوبی ایشیا میں آئے تو ذات پات کا یہاں کے باسیوں کے پاس تصور نہ تھا لوگ قبائل کی شکل میں رہتے تھے، ان کا طرزِ زندگی بالکل سادہ تھا، یہاں آنے کے بعد نئے معاشرتی حالات پیدا ہوئے اور آریائوں (ہندوئوں) نے ایک نیا نظام اختیار کیا، انھوں نے روز مرہ کے کام مختلف طبقوں میں تقسیم کر دیے۔
آج کے دور میں بھی ہندو معاشرہ ذات پات کی تقسیم کو روا رکھے ہوئے ہے، چھوٹی ذات کے لوگوں سے بہت برا سلوک کیا جاتا ہے، انھیں اچھوت پکارا جاتا ہے اور اکثر خبریں پڑھنے کو آتی ہیں کہ اونچی ذات کے ہندوئوں نے چھوٹی ذات کے ہندوئوں (اچھوتوں) کو باندھ کر زندہ جلا دیا، عدم مساوات پر مبنی یہ نظام آج بھی بھارت میں اپنی ابتدائی صورت میں چلا آ رہا ہے، جس کی اسلام سخت مخالفت کرتا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلم معاشرے میں بھی ہندو رسم ورواج بہت عام ہوتے جارہے ہیں، دوسرے رسم ورواج کے ساتھ ساتھ برادری ازم کا ناسور بھی اپنا تاثر پھیلاتا جا رہا ہے۔
آج کے مسلم معاشرے میں جٹ، لوہار، ترکھان، کمہار، ارائیںاور دوسری بے شمار ذاتیں اپنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور لوگ انھی ذاتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات جوڑتے اور توڑتے ہیں، انھی ذاتوں کی وجہ سے آج ہر دل سے ایثار، محبت، بھائی چارہ ختم ہو چکا ہے، آج انھی ذاتوں کی نسبت سے ایک دوسرے کی غیبت، تذلیل اور بے عزتی کرنا گناہ نہیں سمجھا جاتا، آج انھی ذاتوں کے بندھن کی وجہ سے لڑکیاں والدین کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں، انھی ذاتوں کی وجہ سے شادیاں طلاقوں میں بدل جاتی ہیں۔
آج اس خاندانی فخر وتکبر کے ناسور سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا نکاح کا فریضہ ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’اَلنِّکَاحُ مِن سُنَّتِی فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی‘
’’نکاح میری سنت ہے، پس جو شخص میری سنت پر عمل نہیں کرتا، پس وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔‘‘
( سنن ابن ماجہ، النکاح، باب ما جاء فی فضل النکاح، حدیث: 1846۔)
اگر امام کائنات فخر دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم وبیش گیارہ بیویوں سے شادی کی لیکن کسی سے بھی ان کے مال، حسن یا برادری کے لحاظ سے شادی نہیں کی، بلکہ دینی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دین ِ اسلام کو اجاگر کرنے کے لیے دوسرے برادری وقبیلوں سے تعلق قائم فرماتے ہوئے کی۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ :
’’نکاح میں قومیت، اور حسب ونسب کی سوائے دین کے کوئی شرط نہیں ہے۔‘‘
لیکن افسوس صد افسوس ! آج اگر کوئی ماں یا باپ اپنی بیٹی کے لیے لڑکے کا انتخاب کرتا ہے تو اپنی برادری کو دیکھے گا چاہے لڑکا کوئی گلوکار ہو، کوئی فنکار ہو، کوئی بدکار ہو، کوئی ایکٹر ہو، غیر حلال طریقے سے دنیاداری کمانے والا ہو، ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر دھجیاں اڑانے والا ہو، کسی اللہ کے نافرمان کا انتخاب کرتا ہے … جو خود تو ساری زندگی اللہ ورسول eکی نافرمانیاں کرتا ہیاور اس کی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ جہنم میں دھکیلتا جاتا ہے۔ آہ! دنیا بھی برباد اور آخرت بھی برباد۔
اور بعض اوقات تو بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ ایک بچے کو اور ایک بچی کے ساتھ ایک ضعیف العمر کو باندھ دیا جاتا ہے یہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس لیے کہ ’’یہ بچہ اور لڑکی، یہ بوڑھا اور بچی ‘‘ اپنی برادری کے ہوتے ہیں ……
عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لاَ تَزَوَّجُوا النِّسَآئَ لِحُسْنِھِنَّ فَعَسَی حُسْنُھُنَّ اَنْ یُرْدِیَھُنَّ وَلاَ تَزَوَّجُوھُنَّ لِاَمْوَالِھِنَّ فَعَسَی اَمْوَالُھُنَّ اَنْ تُطْغِیَھُنَّ وَلٰکِنْ تَزَوَّجُوھُنَّ عَلَی الدِّینِ وَلَاَمَۃٌ خَرْمَائُ سَوْدَائُ ذَاتُ دِیْنٍ اَفْضَلُ‘
’’تم عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے نکاح نہ کرو، شاید کہ ان کا حسن ان کو (بدصورتی کی طرف) لوٹا دیاور تم عورتوں سے ان کی مالداری کی وجہ سے شادی نہ کرو، عموماً ان کا مال ان کو سرکشی پر آمادہ کر دیتا ہے اور لیکن تم دیندار (عورت) سے شادی کرواورکالی کلوٹی، بے وقوف لونڈی دین والی افضل ہے۔‘‘
) سنن ابن ماجہ، النکاح، باب تزویج ذوات الدین، حدیث صحیح: 1859۔(
ایک اور حدیث میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِہَا وَلِحَسَبِہَا وَجَمَالِہَا وَلِدِینِہَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ تَرِبَتْ یَدَاکَ‘
’’عورت سے چار بنیادوں پر شادی کی جاتی ہے، ایک اس کے مال کی وجہ سے، دوسری اس کے حسب (برادری) کی وجہ سے، تیسری اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور چوتھی اس کی دین داری کی وجہ سے۔ تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں، تم دین والی کے ساتھ کامیابی حاصل کرو۔‘‘
صحیح البخاري، النکاح، باب الأکفاء فی الدین، حدیث: 5090؛ صحیح مسلم، الرضاع، باب استحباب نکاح ذات الدین، حدیث: 3635؛ سنن ابن ماجہ، النکاح، باب تزویح ذات الدین، حدیث: 1858

قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی یہ نہیں آیا کہ شادی کرتے وقت اپنی برادری کو بھی دیکھ لینا، اگر تم جٹ ہو تو جٹ ہی لینا، اگر تم کمہار ہو تو کمہار ہی لینا، اگر تم لوہار ہو تو لوہار ہی لینا، … نہیں …بلکہ فرمایا : دینداری کو ترجیح دینا۔
آج امت مسلمہ نے دینداری کو پس پشت ڈال دیا جس کی وجہ سے برکتیں ہم سے روٹھ گئیں، محبتیں اٹھ گئیں، صبر وتحمل ختم ہو گیا، بے سکونی، بے اطمینانی، روحانی وجسمانی بیماریاں غالب آ گئیں۔ ذہنی ٹینشن بڑھتی ہی جا رہی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے روز مرہ کے تمام معاملات میں دین ِ اسلام اور قرآن وحدیث کو مدنظر رکھیں تاکہ ہم دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں۔
آج کل ایک اور مسئلہ بھی زیر بحث آ رہا ہے، وہ یہ کہ اسلام کے پھیلائو کی وجہ سے نوجوان نسل خصوصاً لڑکیاں قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہیں اور وہ اپنی پوری زندگی قرآن وحدیث کے مطابق گزارنا چاہتی ہیں اور ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ ان کی شادی بھی کسی عالم باعمل، متشرع، کے ساتھ ہو لیکن والدین اپنی برادری اور اپنی مرضی پر اڑے رہتے ہیں اور لڑکیوں کے رشتے بے دینوں کے ساتھ کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیاں یا تو دین ِ اسلام کو چھوڑ کر بے دین ہو جاتی ہیں یا نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
ایسی بہنوں سے میری ایک گزارش ہے کہ اگر آپ اپنی اس خواہش میں سچی ہیں تو، پھر ایک نسخہ آزمانا پڑے گا، جو کہ بہت ہی آسان، مفید اور آزمودہ کامیاب نسخہ ہے۔ذرا آزمائیں تو……
آپ پانچ وقت کی نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ تہجد اور اشراق کی پابندی کریں۔ ان کے علاوہ دن ہو یا رات ہو، آپ کا ہر کام اللہ کا پسندیدہ کام ہو اور دائرئہ دین کے اندر رہ کر اپنے سارے معاملات نبٹائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب آپ گڑگڑا کر، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ کے حضور دعائیں مانگیں گی تو اللہ سمع وبصیر، مجیب الدعوات، ضرور بضرور قبول فرمائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ سونے پر سہاگہ کی خاطر ہر نماز کے بعد کثرت سے اَللّٰہُمَّ لاَ نَاصِرَ اِلاَّ اَنْتَ فَانْصُرْ اور حَسْبِیَ اﷲُ لآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ پڑھ لیں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

Post a Comment

0 Comments