بلوچستان کیوں سلگ رہا ہے؟
پروفیسر نعیم قاسم
بلوچستان کل پاکستان کے 43فیصد رقبے پر مشتمل صوبہ ہے تاہم اس کا کل آبادی میں حصہ 5.8فیصد ہے۔ 1998ءکی مردم شماری کےمطابق اسکی کل آبادی 6.5ملین ہے۔ معدنی ذخائر کی وجہ سے یہ صوبہ قدرتی ذرائع کی دولت سے مالا مال ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ اسکی جغرافیائی، معاشی اور سیاسی حیثیت بھی بے حد اہم ہے۔ اسکی سرحدیں افغانستان اور ایران سے براہ راست ملتی ہیں۔ اسکا سمندر سنٹرل ایشیائ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کا مشترکہ جنکشن ہے۔ لہٰذا بلوچستان میں امن اور استحکام کا انحصار اندرونی اور بیرونی عناصر دونوں پر ہے مگر بدقسمتی سے دونوں عناصر ہی پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
770کلومیٹر لمبی کوسٹل لائن کی وجہ سے یہ بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام پر بے حد اثرانداز ہوتی ہے۔ امریکہ کیوں بلوچستان کے سمندر پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہاں سے آبنائے ہرمز چند سو کلومیٹر کی دوری پر ہے جس پر ایران کا کنٹرول ہے اور دنیا کے 75فیصد تیل کی نقل و حمل اسی راستے سے ہوتی ہے۔ جب امریکا ایران پر دباﺅ ڈالتا ہے تو ایران آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے جس پر امریکہ ایران پر حملہ کرنے سے باز آ جاتا ہے۔ اسکے علاوہ چین کی مانیٹرنگ اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر اسکی رسائی روکنے کےلئے بھی امریکہ بلوچستان کو کسی صورت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کی کوسٹل لائن مغرب میں ایرانی سرحد سے جا ملتی ہے۔ جہاں ایران کے صوبے سرچشمہ میں 1.2بلین ٹن کے تانبے اور دوسری معدنیات کے ذخائر ہیں اور اسکے ساتھ 480کلو میٹر لمبے اور 50کلو میٹر چوڑے چاغی میں بھی اربوں ڈالرز کے تانبے چاندی اور دوسری معدنیات کی موجودگی کے روشن امکان ہیں۔ سینڈک اور ریکوڈک کے مقام پر کئی ہزار بلین ڈالرز کے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان ان معدنیات سے بھرپور استفادہ نہیں کر رہا اور بین الاقوامی طاقتیں امریکہ، روس، ہندوستان سب بلوچستان کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں کسی صورت گوارا نہیں ہے کہ پاکستان بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ چین کے کنٹرول میں دے اور ایران کےساتھ گیس پائپ لائن بچھائے۔ پاکستان کو بلوچستان کی معدنیات سے ہر سال 3.4ارب روپے وصول ہوتے ہیں جبکہ اس میں 3.1بلین روپے قدرتی گیس کی فروخت سے حاصل ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت 30سے زیادہ غیرملکی کمپنیاں معدنیات کی تلاش میں مصروف ہیں۔ بھرپور معدنیات سے مالا مال یہ صوبہ پاکستان کی کل قومی پیداوار میں محض 3 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ لہٰذا یہاں کے سرداروں کی شروع ہی سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنے علاقے غیرملکیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ 1883ءمیں خان آف قلات اور سردار مہراللہ مری نے 25فیصد بلوچستان انگریزوں کو فروخت کر دیا تھا جس پر انگریزوں کے دور میں بلوچستان دو حصوں پر مشتمل قرار دیا گیا۔۔
خان آف قلات کو کوئٹہ بیچنے پر انگریزوں سے ہر سال 2600روپے سالانہ گرانٹ ملتی تھی اور بگتی سرداروں کو 5500روپے سالانہ ملتے تھے۔ خان آف قلات کے ماتحت کئی چھوٹے چھوٹے قبیلے تھے جن کے سردار خان آف قلات کو حکمرانی کے عوض رائلٹی دیتے تھے اور جبکہ خان آف قلات انگریزوں کےساتھ انکے مختلف معاملات طے کرواتا تھا۔ جام آف لسبیلہ، نواب آف میزان، نواب آف مکران، نواب جوگیزئی، نواب بگٹی، یہ سب سرداران اپنے اور اپنے خاندانوں کے ذاتی مفادات کےلئے بلوچستان کے غریب عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیتے تھے اور آج بھی یہ سرداران حکومت پاکستان سے الگ ہو کر امریکہ، روس یا ہندوستان کو اربوں ڈالرز میں بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وفاق پاکستان میں بلوچستان سرداروں کے پاس روپیہ، اقتدار، طاقت سبھی کچھ تو ہے۔ گیس اور معدنیات کی رائیلٹی سے انہیں ہر سال 1.9 بلین روپے ملتے ہیں مگر اب وہ اربوں ڈالرز کمانا چاہتے ہیں اور یہی اختلاف انہیں بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔ حالانکہ بلوچستان کے غریب، مجبور اور مقہور عوام کو تو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ مہذب انسانوں کی دنیا میں غریبوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ انکی جرا ¿ت نہیں ہے کہ وہ اپنے سرداروں کی مرضی اور منشاءکے برعکس کوئی بھی سیاسی سماجی یا معاشی قدم اٹھائیں۔ سخت گیر قبائلی نظام میں سردار کا حکم ہی سب کچھ ہوتا ہے اور ہر سردار اپنے قبیلے کی تمام جائیداد اور عوام کا مالک ہوتا ہے۔ اس کا اپنا انصاف اور عدل کا نظام ہوتا ہے۔ وہ جسے چاہے اپنی جیل میں بند کر دے اور جسے چاہے پھانسی پر چڑھا دے اور یا قبیلہ بدر کر دے۔ سب اسکے فیصلے کے پابند ہوتے ہیں۔
یہاں کے سردار وڈیرے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اور وہ تعلیمی ادارے اور سڑکیں تعمیر نہیں کرنے دیتے تاکہ عوام کو شعور اور سمجھ نہ آ جائے مگر اسکی توجیہہ وہ کس طرح پیش کرتے ہیں وہ بڑی عجیب و غریب ہے۔ مثلاً سردار خیر بخش مری سے کسی نے پوچھا کہ وہ اپنے علاقہ میں سڑکیں کیوں نہیں بننے دے رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر سڑکیں بنیں گی تو پاکستان کے حکمران یہاں کی معدنیات نکال کر لے جائینگے۔ اسی سوچ نے بلوچستان کے عوام کو صدیوں سے اندھیروں میں رکھا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں حقوق بلوچستان کے نام پر ایم پی اے کو 25، 25کروڑ روپے ملے ہیں مگر کہیں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے اور بلوچستان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ تاہم بلوچستان کے عوام سے وفاق کی طرف سے جو ایک بڑی زیادتی ہو رہی ہے وہ گیس کی فروخت پر ان کو سرچارج کی صورت میں کم رقم ادا کی جاتی اور وفاق نے گیس کی پیداواری مقدار کی بنیاد پر گیس پر سرچارج 2.5فیصد مختص کیا ہوا ہے جس سے بلوچستان کو GDSکا 35فیصد ملتا ہے۔ چونکہ بلوچستان کی گیس اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے اور اگر اسکی حقیقی ویلیو کی بنیاد پر بلوچستان کو سرچارج کے حصے کی رقم ادا کی جائے تو یہ 65 فیصد بنتا ہے اور اس طرح صوبے کو 9.8 بلین روپے ملیں گے مگر انہیں محض 4.8بلین روپے ملتے ہیں مگر بلوچستان کا پاکستان کے کل محصولات میں حصہ محض 6فیصد ہے اور 94فیصد صوبائی اخراجات کےلئے یہ صوبہ وفاق کا محتاج ہے تاہم DGDC ڈیرہ بگتی کی تین فیلڈز پر ڈیرہ بگتی کے سرداروں کو ہر سال 660ملین روپے رائیلٹی ادا کرتی ہے اور تمام ملازمین نواب بگٹی مرحوم کی مرضی سے بھرتی کئے جاتے تھے مگر اسکے باوجود ان کو پاکستان کی حکومت سے شکایات رہتی ہیں۔
وفاق اور بلوچستان میں اختلاف کی بڑی وجہ میگا پراجیکٹس اور کوسل ہائی ویز پر وفاق کا کنٹرول رکھتا ہے اور بلوچ عوام سراروں کے اس پراپیگنڈہ کا شکار ہیں کہ دوسرے صوبوں کے عوام کے بلوچستان میں آنے سے بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں اور مقامی لوگوں کی شناخت ختم ہو رہی ہے تاہم انکی اس دلیل میں اثر ہے کہ گوادر کے اردگرد کوڑیوں کے بھاﺅ کراچی اور لاہور کے پراپرٹی مافیا نے بیورو کریسی کی مدد سے سستی زمینیں خریدی ہیں اور اب وہ گوادار میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اربوں روپوں کی ہیں۔ اسکے علاوہ کوہلو، گوادر، ڈیرہ بگتی، خضدار میں فوجی چھاﺅنیوں کی تعمیر سے بھی بلوچستان کے عوام میں بے چینی پھیلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فرنٹیئر کور بلوچستان میں عوام پر مظالم ڈھا رہی ہے کیونکہ اس میں 75فیصد ملازمین پختون ہیں، 20فیصد پنجابی اور 5 فیصد سندھی ہیں حالانکہ آرمی چیف پرویز اشفاق کیانی نے اس تاثر کو یکسر رد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فرنٹیئر کور آئین کے آرٹیکل 245کے تحت صوبے میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہی ہے۔
قارئین بلوچستان میں امریکہ، ہندوستان اور روس اپنے اپنے مفادات کےلئے گریٹ گیم کا حصہ ہیں۔ اس کا آغاز 17جنوری 2002ءکو ہوا جب افغان ٹیوٹا ہیلکس افغانستان کے شہر رشید قلعہ سے بارڈر کراس کر کے کوہلو پہنچی اس میں ایک امریکی اور دو ہندوستانی انٹیلی جینس کے اہلکار سوار تھے۔ وہاں سے وہ امریکی ڈیرہ بگتی چلا گیا اور دو دن کے بعد واپس آیا اور پھر نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے کی قیادت میں بلوچستان لبریشن آرمی کو وجود میں لایا گیا اور اسکے تربیتی کیمپوں کی تعداد اب 30کے قریب ہے اور ہر کیمپ میں 30کے قریب دہشت گرد تربیت حاصل کر رہے ہیں اور انہیں اسلحہ کی فراہمی بھارت کے سرحدی علاقے کرشن گڑھ اور شکار گڑھ سے کی جاتی ہے جہاں را نے ان تخریب کاروں کی مدد کےلئے اسلحہ کے ڈپو قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہ اسلحہ اونٹوں پر پاکستان کے سندھ اور پنجاب کے صحراﺅں میں پہنچایا جاتا ہے اور وہاں سے ٹرکوں کے ذریعے یہ سوئی کوہلو، کوئٹہ اور تربت پہنچایا جاتا ہے۔ ان کیمپوں میں بلوچ نوجوان کی مندرجہ ذیل امور پر برین واشنگ کی جاتی ہے 1۔ آزادی بلوچستان کے عوام کا حق ہے۔ 2۔ پنجاب استحصالی صوبہ ہے۔ 3۔ گریٹر بلوچستان کے کیا مقاصد ہیں۔ 3۔ سیاسی جدوجہد کےلئے تخریب کاری کیوں ضروری ہے۔ 5۔ میڈیا کےساتھ کیسا تعلق ہونا چاہئے۔ ان نوجوانوں کو 200ڈالرز ماہوار الاﺅنس ملتا ہے اور کسی خصوصی کارروائی پر بونس دیا جاتا ہے اور تخریب کاروں کے انچارج کو 300 ڈالرز ماہوار دیے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ واشنگٹن میں نواب آف قلات سلیمان خان نے آزاد بلوچستان کے نام پر جلا وطن حکومت قائم کی ہوئی ہے جہاں پاکستان کےخلاف زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے امریکی ایوان نمائندگان نے بلوچستان میں حکومت پاکستان پر نسل کشی کا الزام لگایا جو کہ سراسر غلط ہے۔ 2011ءمیں بلوچستان میں 1476پرتشدد واقعات ہوئے جس میں 670افراد ہلاک ہوئے اور اس میں ایف سی کے 78جوان بھی ہلاک ہوئے۔ فوج نے کوہلو اور سوئی سے فوجی چھاﺅنیاں ختم کیں اور ڈیرہ بگتی میں کیڈٹ کالج بنانے کا اعلان کیا۔ بجائے اس کے کہ فوج کے اس کردار کو سراہا جائے مگر فوج کےخلاف ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کا الزام لگایا جا رہا ہے مگر دوسری طرف غیرملکی قوتوں کی مدد سے تخریب کار پنجابیوں اور دوسری قوموں کے لوگ جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں تو ان کا جو قتل عام کر رہے ہیں اس پر امریکا سمیت کسی کو بھی انسانی حقوق کی خلاف وردی دکھائی نہیں دیتی۔
0 Comments
Need Your Precious Comments.