چار ٹھگ صدر زرداری کے دس کروڑ روپے لے اڑے



ایف آئی اے کراچی سرکل میں گزشتہ ایک ماہ سے ہلچل مچی رہی کیونکہ پاکستانی تاریخ کے ایک انوکھے فراڈ میں کئی بینک ملازمین اور صدر زرداری کے ایک قریبی ملازم نے مل کر زرداری گروپ کے دس کروڑ روپے اڑا لئے تھے۔زرداری گروپ کی یہ رقم ایک ہی جھٹکے میں اتنے ڈرامائی انداز میں اڑائی گئی کہ اس پر یقین نہیں آتا۔ لیکن یہ فراڈ ملکی تاریخ کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کی تاریخ کا بھی اہم سنگ میل بن گیا ہے جب ایک ہفتے تک کراچی سرکل میں افسران مسلسل بیٹھے رہے اور گھر نہیں گئے کیونکہ معاملہ زرداری گروپ کی رقم کا تھا۔ پھر آخر کار ملزمان ملائشیا سے گرفتار ہوگئے اور رقم بھی بازیاب ہوگئی، اس کے بعد افسران دفتر سے اٹھ کر گھر گئے، ایف آئی اے کی تاریخ میں یہ ایک ریکارڈ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے خود اس کیس کومسلسل ہینڈل کیا اعلی افسران ملزمان کی گرفتاری تک مسلسل دفتر میں موجود رہے۔ تاہم ایف آئی اے حکام اس کامیابی کا کریڈٹ لینے سے گریز کررہے ہیں۔ خود نجی بینک بھی اس سارے واقعے پر خاموش ہے۔ اس حوالے سےایف آئی اے نے مقدمہ الزام نمبر36/2011 درج کر کے 4ملزمان کو گرفتار کر لیا ہےجبکہ ایک ملزم عاصم مفرور ہے۔ایف آئی اے نے جعلی دستخط سے نکلوائے گئی10کروڑ میں سے9کروڑ 10لاکھ روپے برآمد کرلیے۔مزید رقم کے لئے کوشیشیں جاری ہے اور فرار ہو نے والے ملزم عاصم کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ ملزمان نے زرداری گروپ کی رقم غائب کرنے میں انتہائی مہارت سے کام لیا، اس بات کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ زرداری گروپ کے اندر کا کوئی قریبی شخص بھی اس گروپ کی رہنمائی کررہا تھا اور معلومات فراہم کررہا تھا۔ اس کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ رقم غائب ہونے پر کوئی بھی اس کا اظہار نہیں کرئے گا۔ 
اس حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمٹ بینک ڈالمن سٹی برانچ کلفٹن کے برانچ منیج کامران حسن نے ایف آئی اے کرائم سرکل کو درخواست دی کہ16 اگست 2011ء کو ان کی برانچ میں میسرز زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ نے اکاؤنٹ نمبر 1-2-15-20620-714-103018 کھولا تھا۔کمپنی نے 24 نومبر 2011ء کو بینک کو اپنے اکاؤنٹ سے 10 کروڑ روپے چیک نمبر 21240 کے ذریعے غیر قانونی طور پر نکلوائے جانے کی اطلاع دی۔ یہ چیک سمٹ بینک آئی آئی چندریگر روڈ برانچ میں 10 اکتوبر 2011ء کو کلیئرنگ کیلئے جمع کیا گیا۔ یہ چیک برج بینک کی مرکزی برانچ واقع آئی آئی چندریگر روڈ سے بھجوایا گیا تھا اوریہ میسرز یونیورسل کنسٹرکشن کمپنی کے اکاؤنٹ سے جاری ہوا تھا۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ سمٹ بینک ڈالمن سینٹر برانچ کے اسسٹنٹ منیجر و کسٹمر سروسز آفیسر ابو محمد زاہد ولد عبدالاحد نے میسرز زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کو چیک بک دیتے وقت اس میں سے ایک چیک نکال لیا تھا۔ بعد ازاں اس پر 10 کروڑ کی رقم درج کر کے مجاز اتھارٹی کے جعلی دستخط کر کے چیک برطانیہ سے آئے اپنے دوست محمد عاصم آرائیں ولد محمد افتخار کو دیدیا۔ عاصم یہ چیک لے کر برج بینک آئی آئی چندریگر روڈ برانچ گیا اور اس نے بینک کے ریلیشن شپ منیجر یوسف نواب زیدی سے رابطہ کر کے میسرز یونیورسل کنسٹرکشن کمپنی کے نام سے اکاؤنٹ کھولنے کی خواہش ظاہر کی۔ عاصم نے کمپنی کے مالک کے طور پر خباب ولد محمد اقبال کا شناختی کارڈ دکھایا۔ عاصم نے بینک میں خودکو نواز ولد نور محمد ظاہرکیا اور بینک کے افسر کو بتایا کہ کمپنی کا مالک زیادہ تر ملک سے باہر ہوتا ہے، اس لئے اکاؤنٹ وہ خود آپریٹ کرے گا۔ عاصم آرائیں عرف نواز نے اپنے برطانیہ میں قیام کے ثبوت کے طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جاری کیا جانے والاجعلی نائی کوپ کارڈ بھی پیش کیا۔ دراصل ملزم نے کسی اورکے کارڈ پر اپنی تصویر لگا رکھی تھی۔ اس کارڈ کی بنیاد پر بینک نے اکاؤنٹ کھول دیا۔ برج بینک میں ہی ابو محمد زاہد کے 2 دوست اظہر عباس رضوی ولد دلاور عباس رضوی و محمد عمیر ولد سردار علی بھی کام کرتے تھے۔ برج بینک سے 10 کروڑ کا چیک کلیئرنس کے لئے سمٹ بینک آیا تو ابو محمد زاہد نے اسے فوراً کلیئر کر دیا، جس پر 10کروڑ کی رقم برج بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردی گئی۔ اس اکاؤنٹ سے بعد میں10 اکتوبر کو یہ رقم نکوالی گئی اور تمام ملزمان اپنا اپنا حصہ لے کر ملائشیا فرار ہوگئے۔ عاصم آرائیں اپنا حصہ لے کرعید الاضحی سے قبل ہی برطانیہ فرار ہو گیا اور اب تک مفرور ہے، باقی ملزمان پکڑے جا چکے ہیں۔واضح رہے کہ ایف آئی اے کرائم سرکل نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ زرداری گروپ کے اس اکائونٹ کو کون آپریٹ کرتا تھا تاہم انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل چیک پر دستخط کرنے کی مجاز صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور ہیں۔ان کے دستخط کافی آسان ہونے کی وجہ سے فراڈ زیادہ آسانی سے ہو گیا۔
واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری کی دو ہمشیرگان جو قومی اسمبلی کی ارکان بھی ہیں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ دولت مند ہوگئی ہیں اور وہ اس امر کو سرکاری طور پر بھی تسلیم کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا سرکاری گزٹ جس میں 342 تمام ارکان قومی اسمبلی کے اثاثے اور اخراجات درج ہیں کی ایک نقل ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے حاصل کر نے کا دعوی کیا ہے اور اس کی بنا پر یہ رپورٹ مرتب کی ہے ۔ اس گزٹ کے مطابق مسز فریال تالپور کے پاس اس وقت نقد رقم اور بینک بیلنس کی صورت میں 3,6,425,625 روپے ہیں جبکہ گزشتہ سال انکے پاس 13,049,279 روپے تھے اس طرح 23,376,346 روپے کا اضافہ دکھایا گیا ۔ مسز تالپور جو پاکستان پیپلز پارٹی وومنز ونگ کی چیئرمین بھی ہیں نے اپنی غیر منقولہ جائیداد میں ایک مکان نمبر 9 احمد روڈ تحصیل پھولگراں اسلام آباد جسکی مالیت 18,72,000 اور 9,200,000 مالیت کی 2007ء ماڈل کی لینڈ کروزر کا بھی اضافہ کیا ہے۔ انکی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل نے گزشتہ سال کی نقد رقم اور بینک بیلنس 731,710 کے مقابلے میں اب 11,103,210 روپے کا اطلاق کیا ہے جس میں 10,371,500 روپے کا اضافہ رجسٹرڈ کیا گیا۔ انہوں نے بھی اپنے بینک کے اکاؤنٹ نمبر کا حوالہ نہیں دیا۔ انہوں نے ڈی ایچ اے اسلام آباد ویلی میں ایک ولا کیلئے 270,000 اور ڈی ایچ اے اسلام آباد ہومز میں ایک پلاٹ کیلئے 837,500 روپے کی پیشگی ادائیگی بھی کی ہے۔ مسز تالپور نے تبدیل نہ ہونے والے اثاثوں میں ضلع حیدر آباد کے دیہہ ڈلکی میں 52 ایکڑ اراضی ( مالیت 712,300)، ضلع حیدر آباد کے سجنا دیہہ میں 153 ایکڑ اراضی ( مالیت 3,636,500) ، ضلع سانگھڑ میں 47 ایکڑ اراضی (100,000روپے) ، فیٹ ٹریکٹر (286,000) ، سازوسامان (79,000 روپے) ، اسلحہ و بارود (33,000 روپے) ، مکان نمبر 1/41 ،سٹریٹ فیز ۔ وی ڈی ایچ اے (کراچی( 6,000,000 روپے) ، اوپن پلاٹ نمبر 1 لین ۔2 فیز ، سانگھڑ ہاؤسنگ پراجیکٹ گوادر (45,000 روپے ) ، مکان نمبر ڈی 75 ۔ کہکشاں کلفٹن بلاک 5 کراچی کیپٹل آصف اپارٹمنٹس (2,214,000) اور کیپٹل لینڈ مارکس (1,400,000 روپے ) ، گالف فیلڈ کیٹل فارمنگ اینڈ کمپنی ( پرائیویٹ) لمیٹڈ میں ڈیپازٹ (6,200,000 روپے) ، لاہور میں ایک پلاٹ کیلئے جمع شدہ رقم (125,000 روپے) ، لاہور میں ایک پلاٹ کی جمع شدہ رقم میں ایک تہائی حصہ (بیٹا) (41,666 روپے) ، ضلع سانگھڑ میں سنجھورو کے علاقے میں 14.3 ایکڑ زرعی اراضی میں ایک تہائی حصہ (65,000 روپے) ، پرانی مرسیڈیز کار (300,000 روپے) ، کرولا ماڈل 2007 ء (950,000 روپے) (پہلے سے اطلاق شدہ 900,000 روپے کی کرولا ماڈل 2005ء کا اس میں تذکرہ نہیں کیا گیا) ، زیورات (300,000 روپے) فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان (450,000) شامل ہیں۔ اپنے ماضی کے اطلاق میں مسز تالپور نے کرایہ جات اور پیشگی ادائیگیوں کے حوالے سے 77,500) روپے لکھے ۔ امسال اس حوالے سے انہوں نے 1,570,000 روپے اور 12,024,252 روپے زمین کی فروخت میں آئشہ کے شیئرز کے حوالے سے نوٹ کرائے ہیں۔ پہلے سال کی طرح امسال نئے اطلاق میں ڈاکٹر عذرا فضل کے غیر تبدیل شدہ اثاثوں میں مکان نمبر 89۔ اے / I، ڈی ایچ اے (مالیت 1,640,000روپے) پلاٹ نمبر اے ۔ 4 سٹریٹ ایس ، لین۔ 5 فیزI گوادر (500,000 روپے ) ، پریتم آباد سانگھڑ میں زرعی زرمین (2,400,000 روپے) ، اسلام آباد ایس ای سی ایچ ایس پلاٹ کیلئے جمع شدہ (716,200 روپے) ، مکاتا ڈویلپمنٹ میں زرعی اراضی (230,000) ، آصف اپارٹمنٹ میں رقم (2,21,4,000 روپے) لینڈ مارک میں رقم (1,351,000) سجاول اکیڈمی میں رقم (7,852,400 روپے ) جو گزشتہ برسوں میں 7,302,400 روپے تھی۔ بزنس کیپٹل آوٴٹ سائیڈ پاکستان Z.G.L(800,000 روپے) ، اس بار کسی گاڑی کا ذکر نہیں، گزشتہ سال انہوں نے (845,000 روپے) کی کرولا ماڈل 2002 کا تذکرہ کیا تھا، 24 تولے سونا (جسکی اصل مالیت 150,000روپے تھی جواب 800,000 روپے ہے) فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان (280,000 روپے) اور ان کے چھوٹے بیٹے محمد عبدالباسط کے نام جھنڈو مری میں 63 ایکڑ زرعی زمین (قیمت 1,500,000 جسکی موجودہ مالیت 2,000,000 روپے) جو ان کے گرینڈ فادر نے یکم جولائی 2004 کو تحفہ دی ۔ 


Post a Comment

0 Comments