روزگار کی تلاش میں جان سےگیا
’روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ سینکڑوں لوگ کام کاج کے لیے ملک سے باہر جاتے ہیں لیکن اس کے مقدر میں موت ہی لکھی تھی۔‘
یہ الفاظ نوجوان لقمان کے والد محمد یوسف کے ہیں جن بیٹا غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے اپنی زندگی
کی بازی ہار گیا۔
تئیس سالہ محمد لقمان ان سولہ لڑکوں میں ایک ہے جو ترکی کے راستے یورپ جانے کے لیے کنٹینر میں دم گھٹنے سے جان بحق ہوگئے ہیں۔لقمان کے والد ایک سرکاری سکول میں بطور کلرک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق سے بات کرتے ہوئے محمد یوسف نے بتایا کہ ان کا بیٹا لقمان سات جولائی کو پاکستان سے روانہ ہوا تھا اور ان کو معلوم تھا کہ ان کا بیٹا کسی قانونی طریقے سے نہیں جا رہا کیونکہ سینکڑوں لوگ روزگار کے لیے بغیر ویزہ سرحد عبور کرتے ہیں اور بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
میرے بیٹے کو بیرون ملک جانے کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ روزگار نہ ملنے پر کام کاج کی خاطر ملک سے باہر جانا چاہتا تھا
محمد یوسف
ان کے بقول بس مقدر کی بات ہے ان کے بیٹے موت لکھی تھی ورنہ کتنے ہی لوگ ایسے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ لقمان کا ایک بھائی اس وقت مقامی کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب ہے جبکہ لقمان انڈر میڑک تھا۔
ہرسال پاکستان سے سینکڑوں افراد انسانی اسمگلروں کو چار سے پانچ لاکھ روپے دے کرغیر قانون غیرقانونی طریقہ سے ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی نوجوان کامیاب ہوجاتے ہیں اور کئی گرفتار ہونے پر قید کاٹنے کے بعد خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں۔
لقمان کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو بیرون ملک جانے کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ روزگار نہ ملنے پر کام کاج کی خاطر ملک سے باہر جانا چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کئی لوگ ایجنٹوں کے ذریعے جاتے ہیں اور ان کے بیٹے کے جاننے والے بھی اس طرح ملک سے باہر گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو باہر بھجوانے والے ایجنٹ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔
محمد یوسف نے بتایا کہ ابھی ان کی بیٹے کی لاش نہیں ملی ان کی بس یہ خواہش کی ہے کہ ان کے بیٹے کی میت گھر پہنچ جائے۔
تین سال پہلے بھی پنجاب سے ترکی جانے والے لگ بھگ چار سو لڑکوں کو یورپ داخلے ہونے کے لیے غیرقانونی سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا اور ان میں گوجرانوالہ کا ایک نوجوان ٹانگ میں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگیاتھا اور قید کاٹنے کے بعد ان لڑکوں کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔
پنجاب کے علاقوں گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات سے بڑی تعداد میں لوگ غیر قانون طور پر باہر جانے کے لیے ایجنٹوں کو اپنی اراضی فروخت کر کے یا پھر قرض لے کر یورپ بھجوانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں مزید مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
0 Comments
Need Your Precious Comments.