عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے سنجیدہ کوششیں نہ گئیں تو دنیا کے کسی حصے میں سفر محفوظ نہیں رہیگا، انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک

کراچی ۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تو پاکستانیوں کا دنیا کے کسی حصے میں سفر محفوظ نہیں رہے گا۔ حکومت کو زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سیاسی جراتمندانہ عملی اقدام کی ضرورت ہے، امریکی صدر اوبامہ کے پاس یہ اختیارات موجود ہیں کہ وہ صرف ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ

 کی وطن واپسی ممکن بناسکتے ہیں، جیل میں عافیہ صدیقی کی حالت انتہائی ناقابل بیان ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے اپیل نہ دائر کرنے کی خبریں غلط ہیں، جنوری دوہزار گیارہ میں فیصلے کے خلاف امریکی عدالت میں اپیل دائر کی جائے گی،چھیاسی سال کی قید انتہائی ظالمانہ ہے، ان خیالات کا اظہار انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خاندانی ترجمان ٹینا فوسٹر نے اتوار کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی رکن سارہ ہاورڈ اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی موجود تھیں، ٹینا فوسٹر نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو ان کی رہائی چند لمحوں میں ممکن ہوسکتی ہے کیونکہ جس مقدمے کی بنیاد پر انہیں سزا دی گئی ہے ، مقدمہ ، شواہد اور فیصلہ تمام جھوٹا اور بے بنیاد ہے، عافیہ کیلئے چھیاسی سال کی سزا انتہائی ناانصافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا انتہائی غلط ہے کہ عافیہ صدیقی نے فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان وکلاء پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جنہوں نے مقدمہ چلایا ، عافیہ صدیقی نے اپنے خط میں واضح کردیا تھا کہ اگر انہی وکلاء کے ذریعے اپیل کرنی ہے تو پھر مجھے اپیل کی ضرورت نہیں ہے، ایک وکیل کا نام لے کر بھی کہا تھا کہ اس کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔
ٹینا فوسٹر نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک ان کے وکلاء اور خاندان کے افراد کو رسائی دی جائے، ان سے ملاقات کا موقع نہ دینا انتہائی افسوسناک اور غلط ہے، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی انتہائی کمزور ہیں لیکن وہ اس وقت پرعزم ہیں، انہیں ٹیکساس کے قید خانے میں قید تنہائی اور ایک مختصر سیل میں رکھا گیا ہے، پہلے ایک گھنٹے کیلئے باہر نکلنے کی مہلت دی جاتی تھی اب یہ سہولت بھی چھین لی گئی ہے اور ان کے ساتھ دیگر قیدیوں کے مقابلے میں ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر پاکستانی عوام اور حکومت سنجیدہ اور سیاسی جراتمندانہ عملی اقدام کرے تو عافیہ صدیقی کی رہائی جلد ممکن ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے امریکی صدر بارک اوبامہ کے پاس خصوصی قانونی اختیارات موجود ہیں جس طرح انہوں نے ایک حکم نامے کے ذریعے افغانستان سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ تک منتقلی کو ممکن بنایا ہے اسی طرح وہ ایک حکم نامے کے ذریعے ان کو اپنے وطن بھیج سکتے ہیں۔ ٹینا فوسٹر نے کہا کہ امریکی صدور اپنے ادوار میں اس طرح کے اختیارات استعمال کرچکے ہیں ، باالخصوص ویتنام کی جنگ میں یہ اختیارات استعمال ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پیر کو وزارت خارجہ باالخصوص وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک سے ملاقات کرکے انہیں آگاہ کروں گی کہ امریکی قانون کے مطابق انتظامی حکم نامے کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن بنانے کیلئے امریکی حکومت سے بات چیت کی جائے اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے کو ایشو کے طور پر اٹھائے تاکہ اس مظلوم خاتون کی رہائی ممکن ہوسکے۔
ایک سوال کے جواب میں امریکی وکیل نے کہا کہ اگر حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی میں سنجیدہ کوشش نہیں کی تو پھر دنیا بھر میں پاکستانیوں کا سفر انتہائی غیر محفوظ ہوگا۔ اب زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سنجیدہ اور واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد اب یہ معاملہ حکومتوں کی سطح پر اٹھانا نہایت ضروری ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کی وطن واپسی میں امریکی قوانین رکاوٹ ہیں یہ غلط ہیں ایسا کوئی قانون نہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے میں نے قوانین کا مطالعہ کیا ہے اس میں کوئی ایسا قانون نہیں جو عافیہ کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے، یہ پاکستان کی عزت اور ناموس کا مسئلہ ہے اس لئے پاکستانی قوم کو چاہیے کہ ان کی رہائی کی تحریک کو پرزور انداز میں اپنائیں تاکہ وہ اپنے گھر واپس آسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی عافیہ صدیقی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور حل کریں۔
ایک سوال کے جواب میں ٹینا فوسٹر نے کہا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے عدالتی بیان کی وجہ سے سزا ہوئی یہ بالکل جھوٹ پر مبنی ہے، میں نے ان کے بیانات کو متعدد بار باریک بینی سے پڑھا ہے مجھے کہیں بھی کوئی قانونی سقم نظر نہیں آیا۔ ان کو جس دن سزا دی گئی وہ انتہائی تاریک ترین دن تھا کیونکہ اس فیصلے کے ذریعے انصاف کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم مظلوموں کی رہائی اور بچوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔Source

Post a Comment

0 Comments