محسن فارانی کا خصوصی کالم "کاش! سلطان الناصر کنگ جان کی بات مان لیتا"

محسن فارانی کا خصوصی کالم "کاش! سلطان الناصر کنگ جان کی بات مان لیتا
محسن فارانی کا خصوصی کالم "کاش! سلطان الناصر کنگ جان کی بات مان لیتا


محسن فارانی کا خصوصی کالم "کاش! سلطان الناصر کنگ جان کی بات مان لیتا"کیا آپ کالم نگار کی رائے سے متفق ہیں ؟؟؟

قارئین کرام! گزشتہ تین صدیوں میں عالمِ اسلام پر جس قوم نے سب سے زیادہ بُرے بھلے اثرات مرتب کیے ہیں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، وہ انگریز یا برطانوی قوم ہے۔ پہلی صدی ق م میں رومی فاتح جولیئس سیزر نے انگلستان England کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا۔ اس نے انگلستان کے رومی گورنر کو لکھا تھا: ’’اس دور افتادہ جزیرے سے غلاموں کو روم کی خدمت کے لیے روانہ نہ کیا جائے کیونکہ اس ملک میں دھند اور کہر بہت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی قوتِ فکر بہت کمزور ہوتی ہے اور وہ سمجھدار غلام بننے کے اہل نہیں ہوتے۔‘‘ لیکن 410ء میں رومی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ڈیڑھ ہزار سال میں انگریزوں کی فکری صلاحیتوں نے جو جلا پائی ہے، وہ ظاہر و باہر ہے۔ اس دوران میں عیسائیت جزائر برطانیہ میں پھیلتی رہی حتیٰ کہ گیارہویں صدی عیسوی میں عیسائی بادشاہ انگلستان پر حکمرانی کرنے لگے۔
جزائر برطانیہ دو بڑے جزیروں برطانیہ اور آئرلینڈ اور چند چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہیں۔جزیرہ برطانیہ تین اکائیوں پر مشتمل ہے: انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز۔ 1603ء میں ملکہ الزبتھ اول کی وفات پر شاہِ سکاٹ لینڈ جیمز نے سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ دونوں بادشاہتوں کی حکمرانی سنبھالی تو سلطنت متحدہ United Kingdom یا (UK) وجود میں آیا جسے عموماً برطانیہ کہا جاتا ہے۔ آئرلینڈ صدیوں برطانیہ کے زیرتسلط رہنے کے بعد 1921ء میں آزاد ہو گیا، تاہم شمالی آئرلینڈ جو برطانیہ کی طرح پروٹسٹنٹ اکثریت کا علاقہ ہے بدستور برطانیہ کا حصہ ہے۔ یہ ’’انگلینڈ‘‘ دراصل ڈیڑھ ہزار سال پہلے جرمنی کے علاقہ اینگلیا سے آنے والے اینگلز لوگوں کی نسبت سے نام پڑا۔

اے کاش! سلطانِ مراکش و اندلس ابو عبداللہ محمد الناصر (1214-1199ء) جو سلطان شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک کا ہم عصر تھا، اس نے عقل و فراست سے کام لیا ہوتا! اس کے زمانے میں انگلستان میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا تھا۔ انگلستان کے عیسائی بادشاہ کنگ جان کو پاپائے روم نے ناراض ہو کر اپنی جماعت (کیتھولک عیسائیت) سے خارج کر دیا تھا۔ اس نے سلطانِ مراکش الناصر کو پیغام بھیجا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، آپ کسی اسلامی مبلغ کو بھیج دیجیے۔ ساتھ ہی اس نے سلطان سے فوجی امداد طلب کی تاکہ وہ اپنی بادشاہی کے مخالفین کی سرکوبی کر سکے۔

کیسا سنہری موقع تھا مغربی یورپ کے اس جزیرہ برطانیہ میں تبلیغ اسلام کا۔ شاہ جان کے مسلمان ہونے سے پورا برطانیہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو سکتا تھا۔ انگریزوں کے مسلمان ہونے سے کیا آج امریکہ و کینیڈا، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز میں اسلام کے پرچم لہرائے جانے کا امکان نہ ہوتا؟ لیکن اس بددماغ سلطان نے شاہ جان کی درخواست کو پرِکاہ کی اہمیت نہ دی۔ حالانکہ وہ قرآنی حکم کے مطابق دینِ الٰہی کی تبلیغ بلکہ اسلام کی دعوت دینے کا مکلف تھا۔ اس ناقابلِ معافی کوتاہی اور بے حکمتی کی خوفناک سزا اسے چند سال بعد بھگتنی پڑی جب جنگِ طولوسہ (1212ء) میں قشتلہ (شمالی سپین) کے بادشاہ الفانسو ہشتم نے اسے شکستِ فاش دی۔ اس جنگ کو پاپائے روم نے صلیبی جہاد (کروسیڈ) قرار دیا تھا اور فلسطین سے شکست کھا کر آنے والے صلیبیوں کو حکم تھا کہ وہ اسپین میں اتر کر الفانسو کی مدد کریں۔ اس تباہ کن جنگ میں کم و بیش ایک لاکھ سے زائد اسلامی فوج میں سے الناصر صرف چار ہزار سپاہ کے ساتھ سلامت لوٹا۔ عیسائیوں نے کسی مسلمان کو قیدی بنانا بھی گوارا نہ کیا بلکہ جو مسلمان سامنے آیا، اسے قتل کر دیا۔ پادریوں کی طرف سے حکم تھا کہ جو شخص کسی مسلمان کو دانستہ چھوڑ دے گا، اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ میدانِ جنگ میں مسلمان مقتولین کی تعداد کا اندازہ کم از کم ایک لاکھ ہے۔ مسیحی درندوں نے اس کے بعد قریبی شہر جیان میں گھس کر تمام مسلمان مرد، عورتیں، بوڑھے بچے ذبح کر دیے۔جنگ طولوسہ کے 20 سال بعد عیسائیوں نے اسلامی اندلس کے دارالحکومت قرطبہ پر قبضہ کر لیا۔

اس سے پہلے انگلستان کا نارمن بادشاہ رچرڈ 1189ء میں تیسری صلیبی جنگ میں شرکت کرنے آیا تھا جس کا مقصد بیت المقدس واپس لینا تھا جسے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 88سالہ صلیبی قبضے (1099ء تا 1187ء) سے چھڑا لیا تھا۔ صلاح الدین کا ہم عصر محمد الناصر کا باپ سلطان ابو یوسف یعقوب المنصور تھا۔ سلطان صلاح الدین نے حملہ آور صلیبیوں کے خلاف اس سے بحری امداد مانگی تھی مگر یعقوب المنصور کے نام خط میں اسے امیر المومنین کے خطاب سے یاد نہ کیا تھا۔ اس بنا پر یعقوب المنصور نے صلاح الدین کو مدد بھجوانے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ادھر عباسی خلیفہ کی موجودگی میں صلاح الدین خود امیر المومنین نہیں کہلاتا تھا، پھر وہ الناصر کو امیر المومنین کیونکر لکھتا؟ تاہم غازئ اسلام سلطان صلاح الدین کے مقابلے میں شاہ فرانس فلپ اور رچرڈ ’’شیردل‘‘ (نام نہاد) ناکام رہ کر یورپ لوٹ گئے تھے۔
انگلستان کا وہی قبول اسلام کا متمنی شاہ جان مخالفین کے ہاتھوں زچ ہو کر میگنا کارٹا (منشورِاعظم) پر دستخط کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے باغی امراء کے حقوق مان لیے اور یہ طے پایا کہ کسی کومقدمہ چلائے بغیر سزا نہیں دی جائے گی۔ اس کارٹا (Charta) یعنی چارٹر کو بعد میں تشکیل پانے والی برطانوی جمہوریت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
شاہ رچرڈ کا خانوادہ فرانس کی ریاست نارمنڈی وغیرہ سے تعلق رکھتا تھا، اسی لیے جب انگلستان کے بادشاہوں نے نارمنڈی کے علاقے پر قبضہ برقرار رکھنا چاہا تو فرانس اور انگلستان میں صد سالہ جنگ چھڑ گئی جو 1337ء سے 1451ء تک جاری رہی۔ اس کے اختتام پر انگلستان سے اس کے فرانسیسی مقبوضات چھن گئے۔ 1455ء تا 1485ء جنگ گلاباں (War of Roses) چھڑی رہی جس کے نتیجے میں انگلستان میں ٹیوڈر خاندان کی بادشاہت پختہ ہو گئی۔ ٹیوڈر بادشاہ ہنری ہشتم (1509ء تا 1547ء) کو پوپ نے نکاحِ ثانی کی اجازت نہ دی تو اس نے 1534ء میں پاپائے روم کی مذہبی اتھارٹی سے بغاوت کر دی اور یوں انگلستان میں جداگانہ اینگلیکن چرچ کی بنیاد پڑی۔ 1588ء میں انگلستان اور سپین کی بحری جنگ میں ہسپانوی بحری بیڑہ آرمیڈا تباہ ہو گیا۔ اس جنگ میں عثمانی بحری بیڑے نے انگلستان کی مدد کی تھی کیونکہ سقوطِ غرناطہ (1492ء) کے بعد مسلمانانِ اندلس پر ہسپانوی مظالم ناقابلِ برداشت تھے۔ عثمانی بحری امداد پر ملکہ الزبتھ اول (1558ء تا 1603ء) نے عثمانی خلیفہ سلطان مراد ثالث کو شکریے کا خط لکھا تھا۔

اسی دور میں انگریز شاعر شیکسپیئر نے شہرت حاصل کی، نیز 1600ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی برائے تجارتِ شرق الہند قائم ہوئی۔ 1649ء میں شاہ چارلس اول کا سرقلم کر کے آلیور کرامویل کی آمریت ’’ری پبلک‘‘ کی آڑ میں قائم رہی حتیٰ کہ 1660ء میں بادشاہت کی بحالی پر کرامویل کو پھانسی دے دی گئی۔ 1662ء میں شاہ چارلس دوم کی شادی پرتگالی شہزادی سے ہوئی تو شاہ پرتگال عمانوایل نے بمبئی بیٹی کو جہیز میں دے دیا۔ اس سے پہلے عہدِ جہانگیر میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سورت میں تجارتی اڈا قائم کر چکی تھی۔ ادھر 1607ء میں انگریز نئی دنیا (امریکہ) میں جیمز ٹاؤن کی نو آبادی بسا چکے تھے۔ 1639ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی راجہ سے مدراس (چنائی) کی بندرگاہ ہتھیا لی تھی جبکہ 1690ء میں انگریز کلکتہ (کولکتہ) میں ایک تجارتی اڈا قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ اورنگ زیب عالمگیر کا دور تھا۔ اورنگزیب کی وفات (1707ء) کے بعد اس کے جانشین سخت نالائق نکلے اور مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو انگریز تاجروں نے مسلم فوجی دستے تیار کر لیے اور پھر پون صدی کے اندر انگریز تاجر ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نوٹ: گزشتہ سے پیوستہ شمارے میں پروف کی غلطی سے یہ درج ہو گیا کہ انگریزوں نے 1846ء میں ’’جموں کشمیر گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دیا‘‘۔ دراصل انگریزوں نے وادی کشمیر جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچی تھی۔

Post a Comment

0 Comments