سیلانی کے قلم سے "ذمہ داری"

سیلانی کے قلم سے "ذمہ داری
سیلانی کے قلم سے "ذمہ داری


سیلانی کے سامنے بیٹھے نوجوان کی پیشانی پر تفکر نے لکیریں سی ڈال دی تھیں، وہ ذرا دیر کے لیے خاموش ہوا تو کمرے میں سکوت کا بوجھ پن در آیا، سیلانی کو اندازہ تھا کہ پہاڑی علاقوں کی جہنمی سردی کیا ہوتی ہے وہاں درجہ حرارت منفی سے بھی اتنا نیچے گر جاتا ہے کہ آگ بھی ٹھنڈی لگنے لگتی ہے، آپ سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر کھلے آسمان تلے پڑے ہوں، بجلی کا ہیڑ ہو نہ سرخ انگاروں کی دہکتی انگیٹھی، جسم پر گرم اونی لباس ہو نہ سرد ہواؤں سے لڑنے والی مضبوط دیواریں، تب جسم میں خون اور ہڈیوں میں گودا جمتا محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں جم جاتا ہے۔ سیلانی کو زیارت کا زلزلہ یاد آ گیا اور وہ بے ساختہ جھرجھری لے کر رہ گیا، زیارت کی اس سرد ترین رات کا خیال آج بھی اس کا جسم ٹھنڈا کر دیتا ہے، اس رات کمرے میں ہیٹر ،لحاف اور کمبل اوڑھنے کے باجود پاؤں ایسے ٹھنڈے ہو رہے تھے جیسے کسی نے برف میں دبا رکھے ہوں، وہ رات جیسے تیسے کر کے کٹی سو کٹی، صبح اٹھ کر پاؤں میں جوتا ڈالنا چاہاتو پاؤں جوتے میں جا کر ہی نہ دے، چمڑے کا جوتا سخت ٹھنڈ سے اکڑچکا تھا، اسے ہیٹر پر گرم کرنا پڑا، تب کہیں جا کر جوتا نرم ہوا اور پہنا گیا۔ سیلانی نے گہری سانس لی اور اپنے ارد گرد پھیلی خاموشی سمیٹتا ہوا بولا ’’سب سے زیادہ کون سے علاقے متاثر ہوئے ہیں؟‘‘

’’شانگلہ اور باجوڑ۔۔۔ یہ خیبر پختونخواہ کے پسماندہ ترین علاقے ہیں، غربت ایسی ہے کہ آپ کو ہر گھر سے مثال مل جائے گی، یہاں کراچی میں زیادہ تر راج مزدور انہیں علاقوں کے ہیں، یہاں ،کنویں گڑھے کھودتے ہیں، سیورج پانی کی لائنیں کھودتے ہیں اور دیہاڑی جوڑ جوڑ کر مہینے کے آخر میں جو بھی دس پندرہ ہزار روپے جمع ہوتے ہیں، بھیج کر گھر والوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اب ہوا یہ کہ زلزلے میں ان کے گھر ملبے میں تبدیل ہو گئے اور وہ بیوی بچے، ماں باپ برفباری کا آسان شکار ہونے کے لیے کھلے آسمان تلے آ پڑے ہیں‘‘
چوہدری شاہد محمود جماعۃ الدعوۃ فاؤنڈیشن کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں، خوش مزاج چوہدری صاحب ہیں تو ایف آئی ایف سندھ کے ذمہ دار ،لیکن وہ سندھ میں کم ہی ہوتے ہیں، البتہ وطن عزیز میں ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں، جہاں ان کے امیر ایف آئی ایف کے سربراہ حافظ عبدالرؤف کھڑے ہوتے ہیں اور حافظ عبدالرؤف وہیں ملتے ہیں، جہاں زلزے، سیلاب یا خشک سالی ہم وطنوں کے لیے آزمائش بن کر آئی ہو، چوہدری شاہد محمود کچھ عرصہ پہلے چترال کے سیلاب زدگان کے لیے کراچی کے مخیر تاجروں اور درد دل رکھنے والوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے اور اب زلزلے سے بچ رہنے اور روز جینے اور مرنے والوں کی مدد کے لیے پریشان ہیں، سیلانی کو ان کی کراچی میں موجودگی کا علم ہوا تو زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی اصل صورتحال جاننے کے لیے ان کے دفتر چلا آیا۔ ایف آئی ایف مکمل طور پر غیر سیاسی تنظیم ہے، یہ ’’تیر‘‘ سے ’’شیر‘‘ مارنے کے قائل ہیں، نہ ’’بلے‘‘ سے کھیل کر وقت ضائع کرتے ہیں، ان کے اہداف کچھ اور ہیں۔
چوہدری صاحب سے ملنے کے لیے اسے کچھ دیر انتظار کرنا پڑا، وہ کہیں مصروف تھے، لیکن اپنی مصروفیت کم کر کے چلے آئے، ہمیشہ ہشاش بشاش دکھائی دینے والے شاہد محمود آج کچھ سنجیدہ لگ رہے تھے، بتانے لگے کہ انہوں نے اہل کراچی سے ایک ہزار بے گھر خاندانوں کی بحالی کے لیے جستی چادریں لینی ہیں، ان کے اس ٹاسک پر سیلانی سوچ میں پڑ گیا کہ ٹین کی چھتیں تو کمزور سی ہوتی ہیں، وہ آسمان سے گرنے والی برف کا وزن برداشت کر سکیں گی اور اس ٹھنڈ روک سکیں گی؟

شاہد محمود نے غالباً سیلانی کے چہرے سے بھانپ لیا، کہنے لگے ’’سیلانی بھائی! اس کے علاوہ فوری حل کیا ہے، پاکستان میں کوئی کمپنی منفی درجہ حرارت کے لیے واٹر پروف خیمہ نہیں بناتی، وہاں کی ٹھنڈ روکنا، خیمے کی بس کی بات ہی نہیں، آپ زیادہ سے زیادہ واٹر پروف خیمہ لے سکتے ہیں، لیکن بارش کے بعد پہاڑوں سے بہہ کر آنے والاپانی یا زمین کی ٹھنڈ وہ کیسے روکے گا؟ ہم نے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر رہنے والے متاثرین کا سروے کیا ہے اور پہلے مرحلے میں ان کے لیے دو کمروں کی چھتوں کے لیے جستی چادریں خرید رہے ہیں اور فی گھر پندرہ بوری سیمنٹ پانچ ہزار روپے کیش اور پانچ بڑے کمبل دے رہے ہیں تاکہ وہ جلد از جلد دو کمرے بنا کر برفباری سے تو بچ سکیں، یہ جستی چادریں اتنی کمزور نہیں ہوتیں اور وہاں زنگ بھی نہیں لگتا، اس لیے لمبا عرصہ چلتی ہیں۔‘‘

شاہد محمود کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شانگلہ، باجوڑ، چترال اور دیر میں بچے مجموعی آبادی کا 65فیصد ہیں، یعنی ایک ہزار کی آبادی میں 650بچے ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان میں قوت مدافعت بڑوں جیسی نہیں ہوتی، یہ تو چھوئی موئی کے پودے جیسے ہوتے ہیں، مانا کہ ٹھنڈے علاقوں کے بچوں کو ہمارے بچوں کی طرح ٹھنڈ نہیں لگتی لیکن ایسا بھی تو نہیں کہ انہیں قمیض شلوار میں آسمان سے گرتی برف میں کھڑا کر دیں، انہیں اسپیشل کیئر چاہیے ہوتی ہے، اسی طرح ان میں بوڑھے اور خواتین شامل کر لیں تو میرے خیال میں یہ تناسب 75فیصد بن جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے، اسی لیے شاہد محمود کہہ رہے تھے کہ بڑا کام کرنا باقی ہے سیلانی بھائی، بڑا کام باقی ہے، آپ کا سروے کیا کہتا ہے، کتنے متاثر ہوئے ہوں گے؟ سیلانی نے فکر مندی سے پوچھا، ’’لگ بھگ پینتیس ہزار گھر مسمار ہوئے ہیں، یعنی پینتیس ہزار خاندان اس وقت بے گھر ہیں۔ سیلانی نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا‘‘ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہزار گھرانوں تک پہنچ سکیں گے۔ الخدمت، جماعت اسلامی بھی وہاں مصروف ہے، مان لیتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے بھی ہزار دو ہزار خاندان بحال ہو جائیں گے، پھر بھی تیس بتیس ہزار خاندان رہ جائیں گے، کیا حکومت کی مدد بروقت ان تک پہنچ سکے گی؟‘‘ سیلانی کے اس سوال پر چوہدری صاحب مسکرا دیے اور کہنے لگے:

’’سیلانی بھائی! ہماری ڈپٹی کمشنر شانگلہ سے ملاقات ہوئی، ہم نے سوچا کہ حال احوال کریں گے، کچھ بتائیں گے، کچھ سنیں گے، ڈپٹی کمشنر صاحب کے گرم کمرے میں پہنچے اور پوچھا کہ شانگلہ کا کیا حال ہے تو موصوف بتانے لگے کہ ریسکیو کا کام آرمی نے کر دیا ہے، ریلیف کا کام ایک ہفتے بعد شروع ہو گا، سب کچھ کنٹرول میں ہے، مجھے تو کوئی پریشانی والی بات نہیں لگ رہی، یہ سن کر ہم نے حیران ہی ہونا تھاکمشنر صاحب دفتر سے باہر نکلتے اور کسی پہاڑ پر چڑھتے تو انہیں پتہ چلتا ناں، دراصل ان علاقوں میں شہروں، قصبوں کی طرح آبادیاں نہیں، اونچے اونچے پہاڑ ہیں، کسی پہاڑ پر ایک طرف چھ گھر ہیں تو دوسری طرف چار گھر، ان تک پہنچنے کے لیے بھی تین تین گھنٹے پیدل چڑھنا پڑتا ہے، اب کمشنر صاحب کہاں تین گھنٹے پہاڑ پر چڑھتے، انہیں تو سب ٹھیک ہی لگے گا۔‘‘

حافظ عبدالرؤف نے شاہد محمود کو کراچی بھیجا ہے کہ وہ یہاں سے بے گھر بہن بھائیوں اور معصوم بچوں کے لیے کچھ مدد لے کر واپس پہنچیں اور شاہد محمود متذبذب ہیں کہ ابھی چترال کے سیلاب زدگان کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا۔ ’’انصارین‘‘ کراچی سے اس سلسلے میں رابطے ختم نہیں ہوئے تھے کہ زمین کی لرزش نے ایک اور امتحان لا کھڑا کیا، لیکن شاہدمحمود پریشان نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ وہ ہم سے اپنے بندوں کی مدد کا کام لے رہا ہے، ایک انسان کی جان بچاناکعبہ بچانے جیسا ہے، ہم اتنے بڑے اجر کے لائق کہاں، یہ تو اس کا احسان ہے۔
شاہد محمود بڑی سوچ رکھنے والا بڑا انسان ہے، وہ آج کل زلزلہ متاثرہ علاقوں میں پہلی برفباری سے پہلے کراچی میں اپنا وہ ٹاسک پورا کر کے جانا چاہتا ہے، جو حکومت کا ٹاسک ہونا چاہیے تھا، حکومت نے بڑی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر ملکی امداد لینے سے انکار کر دیا ہے، لیکن اس کے خزانے سے نکلنے والی امداد شانگلہ، چترال، باجوڑ اور دیر کے کھلے آسمان تلے پڑے خانماں بربادوں تک کب پہنچے گی؟ حکومتوں کے ہاتھ، کان، آنکھیں ان کے ادارے ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتوں کے ہاتھوں میں کرپشن کا رعشہ اور پیروں میں حرام خوری کا لقوہ ہے، پھر آنکھوں میں آرام طلبی کا موتیا بھی اترا ہوا ہے، ان کے ہاتھ پاؤں دس برسوں سے نیا بالا کوٹ نہیں بسا سکے، آٹھ اکتوبر کے زلزلے کا رونا تو اس وقت کل کی بات لگتی ہے، جب تربیلا ڈیم کے متاثرین اپنی فائلیں لیے اسلام آباد میں جوتے گھساتے دکھائی دیتے ہیں، پھر ایسی حکومت کے ڈپٹی کمشنر کو زلزے سے زمیں بوس گھر کیسے نظر آئیں، اسے سردی سے ٹھٹھرتے بچوں کا رونا کیوں کر سنائی دے اور اس کی کمزور ٹانگیں بھاری مراعات، سہولیات سے پلا جسم اٹھا کر شانگلہ کی کسی پہاڑی تک کیسے پہنچے؟ اسے تو سب ٹھیک ہی لگے گا۔۔۔ مریض حکومت کے امراض جاننے کے بعد اہل پاکستان اور خاص کر اہل کراچی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے، ہمیں شاہد محمود کو پندرہ نومبر سے پہلے واپس متاثرہ علاقے میں ریلیف بیس کیمپ، چکدرہ بھیجنا ہو گا کہ اس کی واپسی ننھی منی اور ضعیف زندگیوں کی طرف سرد موت کے بڑھتے قدم روک سکتی ہے، انہیں گرم لباس، حرارت سے بھرپور کمرہ مل سکتا ہے۔۔۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے سیل فون پر کسی سے جستی چادروں کے لیے بات کرتے ہوئے شاہد محمود کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ (بشکریہ امت)

Post a Comment

0 Comments