قاری یعقوب شیخ کا خصوصی کالم "معذور غنی اور صحت مند فقیر"
























سیدنا ابراہیم خلیل روڈ پر ہوٹل کے مین گیٹ کے باہر کھڑا کچھ بھائیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ لوگ انفرادی طور پر اور قافلوں کی شکل میں بیت اللہ کی جانب رواں دواں تھے۔ پیدل چلنے والوں کے علاوہ مریض، معذور اور بزرگ وہیل چیئر پر لے جائے جا رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی آرزو اللہ کا گھر دیکھنے، نماز ادا کرنے، طواف کی ادائیگی اور نوافل پڑھنے کی تھی۔
یہ ایک لگن، تڑپ، محبت اور جذبہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف لے جاتا ہے۔ وہاں جانے والا بار بار جانے کا آرزو مند رہتا ہے بلکہ جو ابھی تک نہیں جا پایا وہ ترستا ہے اور جو اللہ کا گھر دیکھ چکا وہ دوبارہ جانے کے لئے تڑپتا ہے۔

صحت مند تو صحت مند، بزرگ، مریض کے علاوہ معذور جو چلنے سے بھی قاصر ہیں وہ بھی کسی صورت پیچھے رہنے کو تیار نہیں بلکہ ان کی ہمت و حوصلہ دوسروں سے زیادہ بلند و جواں نظر آتا ہے۔
میں ان مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے مختلف رنگ و نسل کے حامل، جدا جدا بولیاں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کو کعبۃ اللہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ میری نگاہ ایک معذور پاکستانی پر پڑی جو دونوں ٹانگوں کی نعمت سے محروم تھا، وہیل چیئر سے بے نیاز اور کسی کے سہارے کے بغیر اللہ کے سہارے اپنی مدد آپ کے تحت بیت اللہ کی جانب رواں دواں تھا۔ لوگ لپک لپک کر اس کی طرف جا رہے تھے، ہاتھ اس کی طرف بڑھا رہے تھے، سعودی کرنسی ’’ریال‘‘ اسے تھمانے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ نفی میں سر ہلا کر اپنی منزل کی جانب جا رہا تھا۔ اللہ کے گھر اور اس کے در کی طرف دوڑ رہا تھا۔ قدموں پر چلنے والوں سے رفتار بھی اس کی تیز تھی۔ اس نے سب دینے والوں کو روک دیا کیونکہ وہ اللہ سے مانگنے جا رہا تھا۔

تعجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ کے گھر پہنچ کر بھی غیروں سے مانگتے اور سوال کرتے ہیں۔ اللہ کے سامنے ہاتھ اور جھولی پھیلانے کے بجائے بندوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ رب کے خزانوں پر نظر رکھنے کے بجائے لوگوں کی جیبوں پر نگاہیں جما لیتے ہیں۔ صحت مند و تندرست ہو کر بھی گداگری کرتے ہیں۔ مکہ و مدینہ میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد سوال کرتے، ہاتھ پھیلاتے نظر آتی ہے بلکہ بعض اضلاع سے تو لوگ جاتے ہی اسی غرض سے ہیں کہ وہاں جا کر مانگنا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر چند ممالک کے لوگوں نے کچھ سالوں سے یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاجیوں کو حکم ہے کہ وہ سفر خرچ لے کر جائیں: وتزودوا فان خیرالزاد التقوی و اتقون یااولی الالباب۔ (البقرہ: 197) اور (حج) کے لئے زاد راہ لے لو بے شک بہترین زاد راہ تقوی ہے اور اے عقل مندو! تم مجھ ہی سے ڈرو۔

تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے۔ بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے اور کہتے کہ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے جب رقم ختم ہو جاتی تو پھر لوگوں سے سوال کرتے، بھیک مانگنے، للچائی ہوئی نظروں سے ان کی طرف دیکھتے خود پریشان ہوتے اور دوسروں کو بھی کرتے۔ توکل کا غلط مفہوم جو ان کے ذہنوں میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی حوصلہ شکنی کی اور زاد راہ لے جانے کی تاکید فرمائی۔
چند سالوں سے ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے کہ بعض لوگ جو بظاہر معزز و محترم نظر آتے ہیں اپنی فیملیوں کو ہمراہ لئے کچھ اس طرح سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ دوران طواف میں میری جیب کٹ گئی ہے! یا بیگم کا پرس چرا لیا گیا ہے! اب کھانے پینے کے لئے کچھ بھی نہیں ، دو وقت سے کھانا نہیں کھایا، ضرور تعاون کریں۔

زیادہ تر یہ صورت حال بھی ہمارے پاکستانیوں کی ہے۔ جیب کترے اللہ کے گھر میں بھی اللہ کے مہمانوں کو معاف نہیں کرتے، پہلے بازاروں، پلازوں، مارکیٹوں میں یہ کام ہوتا تھا، پھر شادیوں، شادمانیوں کی محفلوں میں، بعدازاں جنازوں میں اور اب کثرت سے بیت اللہ کے اندر! 22 فروری کے ایک قومی اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملی ہے کہ میاں مقصود احمد امیر جماعت اسلامی لاہور کے بیٹے کے ولیمہ میں جناب سراج الحق صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی جیب کٹ گئی! چور چونکہ سیاسی بصیرت رکھنے والا تھا اس لئے اس نے شناختی کارڈ اور سینٹ کے کاغذات کی سلپ کو نہیں چھیڑا، شاید باقی کچھ چھوڑا کہ نہیں۔
اب سراج الحق صاحب عمرہ کی ادائیگی اور رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لئے سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں لہٰذا ان سے درخواست ہے کہ اپنے کاغذات اور جملہ اشیاء کی خود حفاظت کریں۔
جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر جناب لیاقت بلوچ صاحب سے میں اس حادثے کی تعزیت کر چکا ہوں۔ میاں صاحب سے رابطے کا پروگرام ہے۔ حیرت ہے! لوگوں نے کمائی کے کیا کیا طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ چوری، ڈاکے، لوٹ مار، ملاوٹ، نوسر بازی، دھوکہ و فریب اور بھیک؟ جس ملک کے حکمرانوں کی صورتحال یہ ہو کہ وہ اپنا پیسہ غیرملکی بینکوں میں رکھ کر دوسروں کو یہاں تجارت کرنے کی دعوت دیتے ہوں، اپنا مال اغیار کی جیبوں میں رکھ کر دوسروں سے قرض اور تعاون طلب کرتے ہوں، ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اور فریاد کرتے نظر آتے ہوں اس ملک کے باشندوں کی کیا صورتحال ہو گی!

کسی غیر ملک میں شاپنگ پلازہ میں، پاکستانی چلا جائے تو اسے لفٹ اس لئے نہیں کروائی جاتی کہ یہ وقت ضائع کرنے آیا ہے اس نے کون سا خریداری کرنی ہے۔ اس میں تو پرچیزنگ پاور نہیں، خریداری کا حوصلہ نہیں، یہ تو سوالی ہے، مانگنے والا ہے۔
ذرا سوچئے! ہم نے اپنے وطن عزیز کو کیا دیا ہے! اس کی عزت میں کتنا اضافہ کیا ہے! کشکول نے ہم سے ہماری عزت، تقویٰ، وقار سب کچھ چھین لیا ہے۔ خودی اور خودداری کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اسلامی، ایٹمی اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال ملک اور اس کے باشندوں کو نظر حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا دیکھنے والی نظریں حقیر ہیں یا ہم فقیر و مانگت بن چکے ہیں؟

کاش! ہمارے اندر اتنی خودداری ہوتی جتنی اس دو ٹانگوں سے معذور شخص میں ہے۔ ہمارے حکمران، ہمارے وزیر خزانہ کچھ تو سوچیں! اس ملک کو کتنا گرانا چاہتے ہیں؟ اس کشکول پالیسی کو کتنا اور کب تک زندہ رکھنا ہے؟
وہ وقت کب آئے گا جب ہم سب کے سب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں گے۔ اپنی خودی سے اپنے آپ کو بلند کریں گے۔ وطن عزیز میں وسائل و معدنیات اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے اور اقوام عالم میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے۔ دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں صحیح و سلامت رکھنے والے بھکاریوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ہمارا ہم وطن جو دونوں ٹانگوں سے معذور ہے وہ تو بھیک سے بے نیاز ہے اور صحت مند لوگ بھکاری بنے ہوئے ہیں۔

ایک اور پاکستانی جو مشاہد ے میں آیا وہ ایک ہاتھ سے معذور ہے لیکن! توے پر روٹیاں لگا کر، پکا کر عزت کا رزق کما رہا ہے۔ ایک ہاتھ سے مزدوری کر رہا ہے کسی کے سامنے سوال نہیں کر رہا۔ ذرا سوچئے! غور کیجئے! اس ملک کا نام کون روشن کر رہا ہے یہ معذور و غیرت مند یا صحت مند فقیر و محتاج، عبدالدرہم والدینار، میں ایسے معذوروں کی عظمت و غیرت کو سلام پیش کرتا ہوں جو ملک و ملت کے لئے روشن اور مثالی کردار پیش کر رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments