محسن فارانی کا خصوصی کالم "بھارتی دہشت گردی، مودی اور اوبامہ"
























15 فروری 2015ء کو بھارتی گجرات کے ضلع بنساکانتھا کی مقامی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج وی کے پوجارا نے مسلم کش فسادات گجرات (2002ء) میں ایک گاؤں کے 14 مسلمانوں کے وحشیانہ قتل میں ملوث 70 ہندو دہشت گردوں کو بری کر دیا کیونکہ ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر ڈی وی ٹھاکر کے بقول ’’109 عینی شاہدین اپنے بیانات سے منحرف ہو چکے ہیں اور مقدمے کی سماعت کے دوران میں انہوں نے واقعے میں ملوث ملزموں کا نام نہیں لیا جبکہ واقعے میں ملوث آٹھ ملزم مر چکے ہیں‘‘۔ درخواست گزار کے مطابق ’’2 مارچ 2002ء کو 5 ہزار مسلح افراد کے ایک گروہ نے سابرمتی ایکسپریس کو آگ لگنے کے بعد مذکورہ گاؤں پر حملہ کر کے 14 مسلمانوں کو جن میں بچے بھی شامل تھے، شہید کر دیا تھا‘‘ جبکہ پورے صوبہ گجرات میں 2000 سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔
جب ہندو دہشت گردوں کا چیف بھارت کا وزیراعظم بن چکا ہو تو مظلوم مسلمانوں کے مقدمات میں کس عدالت کی جرأت ہے کہ وہ مسلمانوں کی خونریزی کے مرتکب ہندو دہشت گردوں کو سزا دے اور ان کی دھمکیوں سے دہشت زدہ کس گواہ میں ہمت ہے کہ وہ عدالت میں ان کے خلاف گواہی دے؟ پھر جب بھارتی پولیس اور تفتیشی ادارے دہشت گرد ہندو تنظیموں کے ارکان سے بھرے پڑے ہوں تو مظلوم بھارتی مسلمانوں کو انصاف ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہندو پولیس ہندو دہشت گردوں کی دھمکیوں پر گواہوں کو تحفظ نہیں دیتی، لہٰذا مسلمانوں کے قاتل خونخوار ہندو صاف بری ہو جاتے ہیں۔
آٹھ سال پہلے 19/18 فروری 2007ء کی درمیانی شب ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ بھارتی صوبہ ہریانہ کے شہر پانی پت سے گزر رہی تھی کہ ہندو دہشت گردوں کی منظم واردات کا نشانہ بن گئی۔ اس کے دو ڈبے RDX بارود کے دھماکوں سے نذر آتش ہوئے اور 80 سے زائد پاکستانی زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 68 ہے۔ یہ ریل گاڑی دہلی سے لاہور آ رہی تھی اور مسافروں کی بھاری تعداد پاکستانی اور مسلمان تھی۔ اس سانحے پر بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈال دی تھی مگر جب پاکستان نے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تو بھارتی حکومت خاموش ہو گئی کیونکہ اس تباہ کن کارروائی کا سرغنہ ایک حاضر سروس بھارتی کرنل پروہت تھا جس نے دہشت گردوں کو RDX فراہم کیا تھا اور اس میں بھارتی خفیہ ادارے اور ریلوے کا متعصب ہندو عملہ ملوث تھا۔ ظالموں نے ڈبوں کے دروازے اور کھڑکیاں تک اس طرح بند کر دی تھیں کہ کوئی مسافر باہر نکلنے نہ پائے۔
سمجھوتہ ایکسپریس کے سلسلے میں کرنل پروہت، میجر اپادھیا، سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، سندیپ ڈانگے اور کمل چوہان کے خلاف مقدمہ تاحال جاری ہے۔ اس کا ایک ملزم سنیل جوشی گرفتاری کے بعد پراسرار حالت میں قتل کر دیا گیا۔ مبصرین کے مطابق سنیل جوشی کو اس لئے قتل کر دیا گیا تاکہ منصوبے کے دیگر سرپرستوں کے نام سامنے نہ آ سکیں۔ دو تین سال پہلے سوامی اسیمانند نے اپنے ایک بیان میں اس گھناؤنے منصوبے سے پردہ اٹھاتے ہوئے مرکزی ملزم کرنل پروہت کا نام لیا تھا لیکن جب اسے دہشت گرد ہندو ساتھیوں نے دھمکایا تو وہ عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ 10 فروری 2014ء کے ہندی اخبار ’’بھاسکر‘‘ میں ایک نیوز رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کارواں میگزین میں شائع شدہ سوامی اسیمانند کے اس انٹرویو کی تفصیل شامل تھی جس میں اس نے خاتون صحافی ’’لینا گیتا رگھو ناتھ‘‘ کو بتایا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے سنگین جرم میں آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کی رضامندی بھی شامل تھی۔ یاد رہے بی جے پی دہشت گرد ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کا سیاسی بازو ہے اور اس حوالے سے موہن بھاگوت درحقیقت موجودہ بھارتی حکومت کا سرپرست اعلیٰ ہے۔ بھارت کی ایک اور دہشت گردی کا انکشاف ڈی آئی جی بھارتی کوسٹ گارڈ بی کے لوشالی نے 18 فروری کو کیا ہے کہ ’’31 دسمبر 2014ء کو میں نے حکم دیا تھا کہ پاکستانی ماہی گیروں کی کشتی اڑا دی جائے۔ ہم انہیں جیل میں بریانی نہیں کھلانا چاہتے‘‘۔ اس سے پہلے بھارتی حکام کہتے رہے کہ پاکستانی ماہی گیروں نے بھارتی ساحل کے قریب کشتی کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔
جہاں تک 26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں 58 گھنٹوں تک چلنے والی دہشت گردی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں مہاراشٹر کے سابق آئی جی پولیس ایس ایم مشرف کی انگریزی کتاب ’’کر کرے کو کس نے قتل کیا؟ بھارت میں دہشت گردی کا حقیقی چہرہ‘‘ اور سابق انڈر سیکرٹری اور سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے ریٹائرڈ افسر ستیش ورما کا نئی دہلی کی اعلیٰ عدالت میں بیان (14 جولائی 2013ء) ان دنوں بھارت میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ایس ایم مشرف لکھتے ہیں کہ 26 نومبر کے ممبئی حملوں کے علاوہ پانی پت میں سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے دھماکے اور مالیگاؤں، حیدرآباد دکن، اجمیر شریف، دہلی اور گوا میں دیوالی کی تقریب (اکتوبر 2009ء) میں ہونے والے دھماکوں سمیت دہشت گردی کی چھوٹی بڑی 16 ایسی کارروائیاں ہیں جو ملٹری انٹیلی جنس، ’’را‘‘ (RAW) اور انتہا پسند ہندو تنظیموں نے مل کر سرانجام دیں۔ کتاب میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق جب 29 ستمبر 2008ء کو انسداد دہشت گردی سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے مالیگاؤں دھماکے کے فوراً بعد بم نصب کرنے والوں اور ان کے سرکاری سرپرستوں کے مابین موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کی مدد سے بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر سمیت منصوبہ سازوں کے پانچ رکنی گروہ کو پکڑا تو ان سے 70 بھارتیوں کی ایک فہرست بھی برآمد ہوئی جو سب معروف ہندو سیاسی و سماجی شخصیات تھیں جنہیں آنے والے دنوں میں ٹھکانے لگا کر ان کے قتل کا الزام پاکستان، پاک فوج، آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ پر لگایا جانا تھا جیسا کہ درگاہ اجمیر، حیدرآباد کی مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور ممبئی کے تاج محل واوبرائے ہوٹلوں کے بم دھماکوں کے بعد کیا گیا۔ ادھر سابق انڈر سیکرٹری ستیش ورما نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ 2001ء میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا حملہ بھارت کے خفیہ اداروں نے خود ترتیب دیا تھا۔ یوں ستیش ورما نے نہ صرف اپنے آئی جی پولیس (ر) کی کتاب کے مندرجات کی تصدیق کر دی بلکہ بھارتی پولیس میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں خصوصاً مسلم نوجوانوں کو ناحق قتل کر کے ترقیاں حاصل کرنے کے رجحان کی قلعی بھی کھول دی۔
یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بھارتی انٹرنیٹ، نیوز ویب سائٹس، سوشل میڈیا اور چند تجزیہ کاروں کی طرف
(باقی صفحہ 3بقیہ نمبر1)
سے تو بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بھارتی سرکاری موقف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں مگر ہماری طرف سے بھارتی پروپیگنڈے کا جواب دینے میں سخت تساہل برتا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2001-03ء میں بھارت میں متعین امریکی سفیر رابرٹ ڈی بلیک مل نے بھی (بھارتی ایما پر) پاکستان کو دھمکانا ضروری سمجھا ہے۔ نیویارک میں کونسل برائے خارجہ امور کے زیراہتمام میڈیا کانفرنس (6 فروری 2015ء) سے خطاب کرتے ہوئے بلیک مل نے یاوہ گوئی کی کہ ’’2001ء میں پارلیمنٹ (نئی دہلی) پر حملے کے بعد سے ہر بھارتی وزیراعظم نے سنجیدگی سے پاکستان پر حملے کے لئے سوچا مگر وہ تادیر اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکا۔۔۔ لیکن اب اگر بھارت میں دہشت گردی ہوئی اور اس کی کڑیاں پاک فوج یا آئی ایس آئی سے ملتی نظر آئیں تو مودی فوراً پاکستان پر حملے کو ترجیح دے گا اور یہ بات پاکستان کو اب سمجھ لینی چاہئے‘‘۔
اب غور کیجئے، یہ رابرٹ ڈی بلیک مل نامی امریکی سفیر کی زبان ہے یا اس کے اندر کسی رام چند کی بدروح بول رہی ہے؟ اس سے نازی وزیر پروپیگنڈا گوئبلز کے معنوی شاگرد بھارتیوں کے زہریلے پاکستان دشمن پروپیگنڈے کے شیطانی اثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر سے لے کر امریکی سفارتکاروں اور چھوٹے بڑے افسروں اور میڈیا کے سر چڑھ کے بھارتی جادو بول رہا ہے۔ بھارتی گجرات کے مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی، جسے کئی سال سے امریکی ویزا نہیں دیا جا رہا تھا، وزیراعظم بننے کے بعد گزشتہ ستمبر میں امریکہ گیا تو صدر اوباما نے اس کا خوب سواگت کیا اور اب پچھلے ماہ اوباما بھارت آیا تو مودی سرکار نے اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔ اوباما اور امریکی فرسٹ لیڈی کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اوباما بھی ہندو ثقافت و سیاست کا اس قدر اسیر ہوا کہ واپس جاتے ہوئے اس نے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اوباما نے بھارت کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کا معاہدہ بھی کیا اور بھارت کو سلامتی کونسل کا ویٹو پاور کا حامل مستقل رکن بنانے کی بھی پرزور وکالت کی۔ اس کے برعکس پاکستان کو امریکی سرکار نے گھڑے کی مچھلی بنا رکھا ہے اور آئے دن پاکستان کو امریکی سینیٹروں، ارکان کانگرس اور اعلیٰ امریکی افسروں کی طرف سے ملنے والی دھمکیاں اس پر مستزاد ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے پاکستان کو اپنی ابلیسی صلیبی جنگ میں جوت کر اسے دہشت گردی کے آسیب کا تحفہ دیا ہے۔ افغانستان پر حملہ آور امریکی عیاروں نے پاکستان کو اپنا نان نیٹو اتحادی بنایا تھا اور جنرل مشرف یہ کہہ کر پھولا نہیں سماتا تھا کہ ’’میں جب چاہوں فون پر صدر بش سے بات کر لیتا ہوں‘‘۔ بریں عقل و دانش بباید گریست! صلیب بردار امریکہ پاکستان اور کسی مسلم ملک کا مخلص دوست کبھی نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے دشمن بھارت کا دوست ہے۔ مگر ہمارے عاقبت نااندیش حکمران اور صاحبان اختیار حقیر ڈالروں کی خاطر امریکی وائٹ ہاؤس پر بدستور نظریں جمائے رکھتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments