محسن فارانی کا خصوصی کالم "پاکستان قائم ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا"


منٹو پارک (حال اقبال پارک) میں ایک تاریخی جلسے کا سٹیج سجا ہوا تھا۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا۔ برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلم رہنما اس میں شرکت کے لئے کھنچے چلے آئے تھے۔ مسلم عوام کا ازدحام تھا۔ 21مارچ 1940ء کی صبح قائداعظم محمد علی جناح ریل گاڑی پر لاہور تشریف لے آئے تھے۔ ان کے اعزاز میں لاہور میں ایک بے مثال جلوس نکالنے کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن دو روز پہلے 19مارچ کویہاں برطانوی سامراج کی گولیوں نے بیلچہ بردار مسلم خاکساروں کے خون سے جو ہولی کھیلی تھی اور اس خونیں حادثے کی وجہ سے فضا سوگوار تھی، اس کے پیش نظر جلوس منسوخ کر دیا گیا اور قائداعظم زخمی خاکساروں سے اظہار یکجہتی کے لئے ہسپتال تشریف لے گئے۔
22مارچ کی سہ پہر آل انڈیا مسلم لیگ کا کھلا اجلاس ہوا، کرسی صدارت پرقائداعظم تشریف فرما تھے۔ نواب شاہنوازخان ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ حاضرین بڑے شوق، اطمینان اور سکون سے سنتے رہے۔ قائداعظم صدارتی تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے حق میں نعرے لگے اور پھر سناٹا چھا گیا۔ لوگ ان کے ارشادات سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھے۔ قائداعظم نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے دو قومی نظریہ وضاحت سے پیش کیا اور مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے متحدہ ہندوستان کے نظریے کے پرخچے اڑا دیئے۔ اپنے تقسیم ہند کے موقف کی تائید میں انہوں نے ایک متعصب ہندو لیڈر لالہ لاجپت رائے کا خط پڑھ کر سنایا جو اس نے 1924ء میں مشور بنگالی ہندو لیڈر سی آر داس کو لکھا تھا۔ اس میں لالہ لاجپت رائے نے کہا تھا کہ ’’مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں، انہیں ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک قوم بنانا قطعاً ناممکن ہے۔‘‘
قائداعظم کی دلیل یہ تھی کہ گاندھی اور نہرو ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا راگ الاپتے ہیں جبکہ ان کا ایک لیڈر جو ہندو قوم کی ذہنیت کا علمبردار سمجھا جاتا تھا، دو عشرے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو الگ الگ قومیں ہونے کا واضح اعلان کر چکا ہے۔ لالہ لاجپت رائے کے اس خط نے لوگوں کو ششدر کر دیا۔ ملک برکت علی رکن پنجاب اسمبلی اسٹیج پر بیٹھے تھے، ان کے منہ سے اچانک نکلا کہ لالہ لاجپت رائے قوم پرست (نیشنلسٹ) ہندو ہیں۔ قائداعظم نے زور دے کر کہا: ’’نہیں، ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا، ہندو اول تا آخر ہندو ہے۔‘‘ ان کا مطلب یہ تھا کہ گاندھی، نہرو اور دیگر ہندو کانگریسی لیڈر جو خود کو نیشنلسٹ کہتے ہیں، بدترین منافق ہیں۔ وہ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے نیشنلسٹ کہلاتے ہیں ورنہ ہر ہندو لیڈر اندر سے ہندو اور صرف ہندو ہے۔
قارئین کرام! قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت کی داد دیجئے، وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے بیک وقت رکن تھے، تب وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے مگر اپنی اس حیثیت میں بھی انہوں نے ہندو کانگریسی قیادت سے جداگانہ انتخاب کا اصول منوا لیا جب دونوں جماعتوں کے سالانہ اجلاس 1916ء میں لکھنو میں منعقد ہوئے تھے۔ بعد میں اگرچہ ہندو لیڈر جداگانہ انتخاب کے اصول سے منحرف ہو گئے اور قائداعظم نے ہندو لیڈروں کی بدنیتی بھانپ کر کانگریس چھوڑ دی مگر برطانوی حکومت نے اس اصول کی پابندی کی اور 23مارچ1940ء کو قرارداد لاہور (پاکستان) کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کے لئے ایسی زبردست تحریک چلی کہ 1945-46ء کے عام انتخابات میں مسلم عوام نے مسلم لیگی امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروا کر پاکستان کے قیام کے حق میں فیصلہ دے دیا جسے انگریزوں کو بھی قبول کرتے ہی بنی۔ اگر یہ عام انتخابات جداگانہ طریق کے بجائے مخلوط ہوتے تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔ مخلوط طرز انتخاب کا نقصان ہم نے مشرقی پاکستان میں 1970ء میں دیکھ لیا جب اندھی بہری یحییٰ خانی جرنیلی حکومت نے قیام پاکستان کی بنیاد جداگانہ طرز انتخاب ترک کر کے مخلوط طرز انتخاب رائج کیا تو مشرقی پاکستان کی24فیصد ہندوآبادی کے اجتماعی ووٹ عوامی لیگ کے حق میں پڑنے سے متحدہ پاکستان کی حامی جماعتوں کے امیدوار ہار گئے اور عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162میں سے 160قومی نشستیں جیت لیں۔ یوں مخلوط طرز انتخاب، بھٹو کے ’’ٹانگیں توڑ‘‘ بائیکاٹ اور ٹکا خانی آرمی ایکشن کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
قائداعظم نے 1927ء میں نہرو رپورٹ پر اپنا شدید ردعمل یہ کہہ کر ظاہر کر دیا تھا کہ This is parting of the ways یعنی یہ رپورٹ ہندوؤں اور مسلمانوں کے راستے جدا ہونے پر مہر تصدیق ہے۔ یہ رپورٹ پنڈت موتی لال نہرو کی قیادت میں مرتب ہوئی تھی جس میں مسلمانان ہند کے حقوق سراسر نظرانداز کر دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد ہی علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے اجلاسِ الٰہ آباد (1930ء) میں اپنی تقسیم ہند کی تجویز پیش کی تھی۔ پھر تین گول میز کانفرنسیں (لندن 1930ء، 1931ء، 1932ء) بھی ہندو لیڈروں کی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام رہی تھیں۔ انہی دنوں لندن میں چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھیوں نے پمفلٹ Now or Never (اب یا کبھی نہیں) شائع کر کے مسلم قیادت کو برصغیر میں ایک مسلم مملکت ’’پاکستان‘‘ کا نام دے دیا۔ 1936ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں چھ صوبوں میں کانگریسی حکومتیں قائم ہوئیں جنہوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ بھاگل پور (بہار) میں ہندو غنڈوں نے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا اور پیرپور رپورٹ نے کانگریسی حکومتوں کے مظالم منظر عام پر لا کر تہلکہ مچا دیا۔ انہی دنوں موتی لال نہرو کے جانشین جواہر لال نہرو نے بڑ ہانکی کہ ’’ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں: کانگریس اور انگریز‘‘ اس پر قائداعظم نے ترت جواب دیا: ’’نہیں، تیسری قوت مسلمان ہیں۔‘‘
1939ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑنے پر کانگرسی حکومتیں مستعفی ہو گئیں تو مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر23مارچ 1940ء کے اجلاس لاہور میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد مملکت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ 1942ء میں کانگریس نے جنگ عظیم میں برطانوی ہزیمتوں کے پیش نظر ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ (Quit India) تحریک شروع کر دی۔
مقصد یہ تھا کہ انگریز دباؤ میں آ کر ہندوستان کی حکومت کانگرس کے حوالے کر کے چلے جائیں مگر مسلم عوام کی عدم شرکت کے باعث یہ تحریک ناکام رہی اور کانگرسی لیڈر دو تین سال جیلوں میں رہے۔ دریں اثناء قائداعظم نے ہندوستان کے طول و عرض کے دورے کر کے مسلم عوام کو ہندوؤں کے گھناؤنے عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کے حق میں ہموار کیا اور اس کا نتیجہ 1945-46ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کی صورت میں برآمد ہوا۔ ادھر برطانوی حکومت کی آخری کوشش یہی تھی کہ ہندوستان متحد رہے، چنانچہ نئے برطانوی وزیراعظم لارڈ کلیمنٹ ایٹلی نے برطانوی کابینہ کے رکن پیتھک لارنس کی قیادت میں ایک وفد بھیجا اور ’’کابینہ مشن پلان‘‘ سامنے آیا جس میں دس سال بعد قیام پاکستان کا امکان تھا۔قائداعظم نے یہ پلان تسلیم کر لیا تھا مگر جب پنڈت جواہر لال نہرو نے اعلان کر دیا کہ مرکزی اسمبلی اس میں ترمیم کے لئے آزاد ہو گی تو قائداعظم نے پلان مسترد کر دیا۔
انہی دنوں مرکزی کابینہ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے وزراء شامل ہوئے۔ کانگریسیوں نے وزارت داخلہ اور وزارت دفاع اہم جان کر لے لیں اور وزارت خزانہ مسلم لیگ کے لئے چھوڑ دی، اس خیال سے کہ مسلمان اقتصادیات سے نابلد ہیں اور مسلم وزیر خزانہ ناکام ہو جائے گا۔ پنڈت نہرو اول وزیر تھے۔ چودھری محمد علی دہلی حکومت میں سیکرٹری تھے۔ ان کے مشورے پر وزارت خزانہ مسلم لیگ نے لے لی اور پھر وزیر خزانہ خان لیاقت علی خان نے بجٹ میں ہندو سیٹھوں اور صنعتکاروں پر اس طرح ٹیکس لگائے کہ وہ بلبلا اٹھے اور انہوں نے کانگریس کے مردِ آہن ولبھ بھائی پٹیل کو تقسیم ہند پر قائل کر لیا۔ ادھر قائداعظم آخری وائسرائے ہند لارڈ لوئی مونٹ بیٹن کی متحدہ ہندوستان کے لئے ہر دلیل ’’نو، نو‘‘ کہہ کر رد کر چکے تھے۔
یوں قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی اور پھر 3جون کے وائسریگل اعلان کے مطابق 14اور 15اگست 1947ء کی نصف شب آزاد مملکت پاکستان وجود میں آ گئی لیکن ہندو کانگریسی قیادت نے پاکستان کا قیام اس خوش فہمی کے ساتھ قبول کیا تھا کہ مسلمان پاکستان کوچلا نہیں سکیں گے اور پھر دونوں ملکوں کے اتحاد سے اکھنڈ بھارت وجود میں آ جائے گا، تاہم مسلمانان پاکستان نے اپنے عزم و ہمت سے کانگرس سنٹرل کمیٹی کی قرارداد میں پیش کردہ مذموم ہندوانہ خواہشات پوری نہیں ہونے دیں اور اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا۔

Post a Comment

0 Comments