ڈاکٹر محمد قاسم (سرینگر )کا خسوصی کالم "برصغیر میں مسلم ریاست کب قائم ہوئی؟"


جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ برصغیر میں مسلم ریاست (پاکستان) 1947ء میں قائم ہوئی، کیا وہ اپنا دعویٰ کسی تاریخی شہادت یا ثبوت کی بنیاد پر ثابت کر سکتے ہیں؟ یہ سوال بھی بحث طلب ہے کہ کیا تقسیم ہند سے متحدہ ہندو ریاست وجود میں آئی ہے یا مسلم ریاست؟ موریہ خاندان میں اشوک کے دور حکومت کو الگ کر کے تاریخ ہندوستان میں ہمیں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی۔ برصغیر میں ہندوؤں کی حکمرانی میں ہندوؤں کو ایسی وسیع سلطنت حاصل ہوئی ہے جس طرح کی وسیع سلطنت ان کو تقسیم ہند کی وجہ سے حاصل ہو گئی ہے۔ 1200000 (بارہ لاکھ) مربع میل، 605224 گاؤں، 4689 شہر، دنیا کی 16 فیصد آبادی ہند میں رہائش پذیر ہے۔ متحدہ ہندو ریاست (کنیا کماری سے مادھوپور تک) کے لئے ہندوؤں کو ہمیشہ انگریزوں کا احسان مند رہنا چاہیے، تقسیم سے پہلے ہند 560 سے زائد خودمختار ریاستوں اور 11 برطانوی صوبوں میں تقسیم تھا۔ آج اس ہندو ہندوستان میں 3626 گاؤں رام کے نام پر، 3309 گاؤں کرشن کے نام پر، 380 گاؤں رادھا کے نام پر، 367 گاؤں ہنومان کے نام پر، 117 گاندھی کے نام پر، 75 سیتا کے نام پر، 72 نہرو کے نام پر ہیں۔ اب مسلم ریاست کی بات کی جائے:
مسلم ریاست سندھ اور بلوچستان میں 712ء تا 1843ء۔ پنجاب و سرحد میں 1021ء تا 1800۔ شمالی ہند میں 1200ء تا 1800۔ مشرقی پاکستان میں 1200ء تا 1757ء۔ وسط ہند اور دکن میں 1300ء تا 1800 جنوبی ہند میں 1575ء تا 1800ء، 1300ء تا 1338ء قائم رہی ہے۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود بھارتی سیاست کار، بھارتی دانشور، بھارتی اہل قلم اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ ذمہ دار کانگریسی مولوی اور جموں کشمیر کے سرکاری دانشور اور اہل قلم یہی کہتے ہیں کہ پاکستان (مسلم ریاست) تقسیم ہند کی وجہ سے قائم ہوا، انگریزوں کی سازش کی وجہ سے بنا، مسلمان نوابوں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے بنا، مسلم لیگ کی متعصب اور فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے بنا اور قائداعظم کی انا پرستی اور حرص اقتدار کی وجہ سے بنا۔ بھارتی سیاست کار ہوں یا ان کا ذرائع ابلاغ، کذب بیانی کا یہ دونوں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ لوگ کذب بیانی بھی اس اعتماد سے کرتے ہیں کہ سادہ لوح لوگ ان کی باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پاکستان (مسلم ریاست) قائم نہیں ہوا بلکہ مسلم ریاست پر برطانوی سامراج کا 90 سالہ تسلط ختم ہو گیا۔
تاریخ تحریک پاکستان کو قرارداد پاکستان 1940ء، مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ اقبال کے صدارتی خطبہ (1930ء) قیام مسلم لیگ (1906ء) تحریک آزادی ہند (1857ء)تحریک بالا کوٹ (1831ء) شاہ ولی اللہ کے احمد شاہ ابدالی کے نام مکتوبات (1761ء) کے تاریخی تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور ہمیشہ اس تاریخی حقیقت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم ریاست ہند میں 712ء سے 1857ء تک قائم رہی ہے اور مسلم ریاست کے خلاف چار قوتوں (سکھ، مرہٹہ، جاٹ، انگریز) نے ہمیشہ محاذ آرائی کی ہے اور بالآخر انگریزوں نے مسلم ریاست پر مکمل تسلط قائم کر کے باقی تین قوموں کو کچل کر ہند میں لاشریک حکومت قائم کی انگریزوں نے ہند کا مرکزی اقتدار ہندوؤں سے نہیں مسلمانوں سے چھین لیا تھا اس لئے یہ کہنا کتنی بددیانتی اور کذب بیانی ہو گی کہ برصغیر میں مسلم ریاست تقسیم ہند کی وجہ سے قائم ہوئی ہے اور اس سے بڑھ کر سامراجیت یہ کہ مسلمانوں کو یہ کہا جائے ’’آو مسلمانو! مل کر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں تاکہ تم برطانوی سامراجیت سے آزادی حاصل کر سکو اور پھر متحدہ ہندوستان میں ہم ہندو تم کو غلام بنائیں‘‘۔
اقتدار تو انگریزوں نے مسلمانوں سے چھین لیا جب اقتدار لوٹانے کی بات آ جائے تو وہ مسلمانوں کو نہیں ہندوؤں کو سونپ دیا جائے‘‘ اب اگر مسلمان یہ کہیں کہ اقتدار ہم سے چھین لیا گیا اور آزادی کی تحریک ہند میں ہم نے شروع کی ہے اب جب انگریز ہندوستان سے جا رہا ہے پورے ہندوستان کا نہ سہی کم سے کم ان ریاستوں کی حکمرانی تو ہم کو سونپ دو جہاں ہم 712ء سے حکمران رہے ہیں! تو یہ مسلمان انگریزوں کے ایجنٹ، فرقہ پرست اور متعصب ہیں؟ پاکستان کو انگریزوں کی سازش قرار دینے والے، پاکستان کو تاریخ کا عارضی حادثہ قرار دینے والے، پاکستان کو نوابوں اور جاگیرداروں کی ضرورت قرار دینے والے، تقسیم کو تاریخی المیہ قرار دینے والے دو قومی نظریہ کو غیراسلامی قرار دینے والے اور اب پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے آخر چاہتے کیا ہیں؟ اس طرح کے پروپیگنڈے سے بھارت سرکار اور ان کے آلہ کار کس طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
1۔ پاکستان کی تاریخی اور نظریاتی بنیادوں کو منہدم کیا جائے اس طرح ازخود پاکستان کے بکھر جانے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ قومی، وطنی، لسانی اور نسلی عصبیتوں کو چھوڑ کر خالصتاً لاالٰہ الاللہ کی بنیاد پر مسلم ریاست قائم و دائم رہ سکتی ہے غلط ثابت ہو جائے۔
2۔ برصغیر میں اسلام کے نام پر کوئی ریاست باقی نہ رہے تاکہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ تحریک و تنفیذ کی ساری صورتیں مسدود ہوں اور یہاں اسلام کی حالت جین مت، بدھ مت اور سکھ مت کی طرح ہندومت کی ایک شاخ کی طرح ہو جائے۔
3۔ مسلمان برصغیر میں محکوم و مغلوب ہوں اور ان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت بالکل وہی ہو جو فی الوقت سچر رپورٹ سے مسلمانان ہند کی معلوم ہوتی ہے۔
4۔ جنوبی ایشیا میں ہندو غالب و حاکم ہوں یہاں اشوک کے وقت کے جیسی انتہائی مضبوط اور وسیع ہندو ریاست وجود میں آ جائے جو علمی و عملی ہر اعتبار سے ہندو ہو اور احیائے ہندو مت کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہندومت کی اشاعت و تبلیغ کا ذریعہ بنے۔
5۔ برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کو ہندو تہذیب، عقائد اور رسم و رواج اختیار کرنے پر سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر آمادہ یا مجبور کیا جائے اور یہ سب اہداف انڈین ازم (ہندو نیشنلزم)، سیکولر جمہوری نظام، سوشلسٹ معاشی نظام اور متحدہ قومیت کے نام پر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

Post a Comment

0 Comments