حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "بہاروں اور لالہ زاروں سے پیارا پاکستان"


موسم گل چہار سو رنگوں اور خوشبوؤں کی سحر انگیزی بکھیر چکا ہے، آپ کسی گل کدے میں چلے جائیں اور لالہ و گل کا جوبن دیکھ لیں، آپ موتیے اور چنبیلی کی مسحور کن خوشبوؤں سے لطف اندوز ہو لیں، آپ کسی بھی گلستان کے رنگوں، روشنیوں اور تتلیوں کی زیبائی کا مشاہدہ کر لیں، ہمہ قسم کے حسن و جمال سے مرصع یہ تمام تر مناظر ملک پاکستان کی محبت سے ہیچ تر دکھائی دیں گے۔ پاکستان کی محبت کا لمس کسی سرخ گلاب کی پنکھڑیوں پر پڑنے والی روپہلی کرنوں سے زیادہ لطیف آمیز محسوس ہو گا، اس وطن سے منسوب یہ محبت محض رشحات قلم اور شتابی فکر نہیں بلکہ ہمارے ایقان کا حصہ ہے، یہ ملک ہمیں اپنی سانسوں اور دھڑکنوں سے بھی زیادہ پیارا ہے، واللہ! یہ آشفتہ سری نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اس لئے کہ یہ ملک صرف اور صرف کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، جو لال بجھکڑ آج تک بھارت کی محبت کے دھوکے سے باہر نہیں آئے، وہ بابائے قوم محمد علی جناحؒ کے فرمودات کو پڑھ کر دیکھ لیں۔ ان کے لفظ لفظ میں دو قومی نظریے کی ایمان افروز لپٹیں جو عین اسلام سے عبارت ہیں آ کر ان لوگوں کے دل و دماغ پر چڑھے دھندلکوں کو ختم کر ڈالیں گی۔
مسلم لیگ کا ستائیس واں اجلاس تھا، جگہ منٹو پارک تھی جہاں آج مینار پاکستان قائم ہے، تاریخ 23 مارچ 1940ء تھی، اس تاریخی اجلاس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی، خطبہ صدارت بابائے قوم نے دیا، محمد علی جناح کی زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کی سوغاتیں ہندوؤں سے نفرت اور اسلامی مملکت کے قیام کے لئے تھیں، آپ نے فرمایا کہ ’’ہندو اور مسلمان مذہب کے ہر معاملے میں دو جداگانہ فلسفے رکھتے ہیں دونوں کی معاشرت ایک دوسرے سے مختلف ہے، یہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر ہیں، دو ایسی قوموں کو ایک نظام مملکت میں یکجا کر دینا باہمی مناقشت کو بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش کر دے گا جو اس مملکت کی حکومت کے لئے وضع کیا گیا ہو، بھارتی سیاہ زلفوں کے اسیر لوگوں کو بابائے قوم کا وہ خطاب بھی ضرور پڑھ لینا چاہئے، جو انہوں نے 27 نومبر 1945ء کو ایڈورڈ کالج پشاور کے طلبہ سے کیا تھا۔ آپ کے الفاظ گھی شکر کی مانند تھے کہ ’’ہم دونوں قوموں (مسلمان اور ہندو) میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ، ہمارا دین ہمیں ایک ایسا ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، ہم اس ضابطے کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ قرارداد پاکستان درحقیقت ایک عزم تھا، اپنا حق چھین لینے کے لئے تمام باطل قوتوں سے ٹکرا جانے کا عزم، آج کے دانش ور بھی حیران ہیں کہ ایک ناممکن سپنا اور خواب محض سات سالوں میں کس طرح حقیقت کا روپ دھار گیا؟ ان سات سالوں میں کیسی کیسی برق کوندیں، کتنی بجلیاں لپکیں اور کیسے کیسے طوفان بادوباراں نے ر اہیں مسدود کیں مگر عزم عالی شان تھا، سو قدم بڑھتے گئے، قربانیوں کا لہو پھول اگاتا چلا گیا
ہم صلیبوں پہ چڑھے، زندہ گڑے، پھر بھی بڑھے
وادی مرگ بھی منزل گہ امید بنی

اگر ہم ایمانداری کے ساتھ غور کریں تو انتہائی قلیل عرصے میں دنیا کی سب سے مضبوط اسلامی مملکت کا قیام محض اس لئے ممکن ہوا کہ اس وقت ہم نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اس مملکت میں اللہ کے احکام کو نافذ کریں گے اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ ہمارے آباؤ اجداد اس مقصد میں اس حد تک مخلص تھے کہ انہوں نے تکمیل کے لئے اپنا سب کچھ تج دیا۔
گونج اٹھا تھا نعرہ تکبیر شرق و غرب میں
چھا گیا تھا آسماں پر چاند تارے کا علم

23 مارچ کا بنیادی سبق ہندو اور اس کی قربت سے نفرت ہے، ہندو آج بھی ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے باز نہیں آیا، وہ ہر محاذ پر ہمارے خلاف ایک جنگ چھیڑے بیٹھا ہے، بھارت اور عالم کفر کے بڑے بڑے سردار ، پاکستان کو علاقائی فتنوں، لسانی تضادات اور مذہبی منافرت کے بھنور میں دھکیل کراس کو کمزور کرنے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کئے ہوئے ہیں، ہمیں نہ صرف ان سازشوں کو سمجھنا ہے بلکہ اس ادھورے پاکستان کو مکمل بھی کرنا ہے۔ جب تک یہ مکمل نہیں ہو گا ہماری روحوں کو قرار نہیں ملے گا، سب جانتے ہیں کہ جغرافیائی اور مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ تھی، اس کی اسی فیصد آبادی مسلمان تھی مگر ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا۔ اس کے علاوہ گورداس پور، ہوشیارپور، جالندھر اور فیروز پور بھی مسلم اکثریتی علاقے تھے، انہیں بھی سازش کے تحت بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا، اس حقیقت کو بھارت بھی بخوبی جانتا ہے ، اس لئے وہ یہاں شرارتیں کر کے ان حقائق کو پس منظر میں لے جانا چاہتا ہے، بھارتی جارحیت کے عقب میں چھپا مقصد یہ ہے کہ اگر پاکستان میں یہ شرارتیں نہ کی گئیں تو پاکستان کا باقی ماندہ حصہ جو بھارت کے زیر تسلط ہے، لینے کے لئے پاکستان اپنی کوششیں تیز کر دے گااسی لئے بھارت کروڑوں ڈالر محض ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کر رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان پر برتری قائم رکھی جائے مگر بھارت یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہم سے بہت پیچھے ہے، امریکا میں شکاگو یونیورسٹی سے منسلک سائنس دانوں نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان کے پاس 120 جوہری ہتھیار ہیں جبکہ بھارت کے پاس 100 تا 110 ایٹمی ہتھیار ہیں، سو پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے، یہ عددی تقابل تو محض حساب کتاب کرنے والوں کے لئے ہے ورنہ ہماری اصل طاقت ایمان، توحید اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ 796096 مربع کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ دراصل توحید، ایمان اور جہاد کی تربیت گاہ ہے، اسلام کی اس قدر وسیع و عریض تربیت گاہ دنیا میں کہیں بھی تو نہیں، اسی لئے یہ وطن ہمیں بہاروں اور لالہ زاروں سے بھی زیادہ پیارا ہے، اس وطن پر ہم قربان، اس پر ہمارے بیٹے نچھاور۔
رفعتیں اس کے سبب، یہ عظمتوں کی شان ہے
ہم کو اپنی جان سے بھی پیارا پاکستان ہے

Post a Comment

0 Comments