مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے: قائداعظم





































(آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ لاہور 23-22 مارچ 1940ء میں خطبہ صدارت ) لاہور(جرار رپورٹ)یہ سمجھنا انتہائی دشوار نظر آتا ہے کہ آخر ہمارے ہندو دوست، اسلام اور ہندو مت کی اصل فطرت اور نوعیت کو کیوں نہیں سمجھتے۔ مذہب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسلام اور ہندومت محض ان معنوں میں مذہب نہیں ہیں بلکہ حقیقتاً ایک دوسرے سے مختلف اور جدگانہ سماجی نظام ہیں اور یہ تصور کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قومیت کی تخلیق کرسکیں گے، محض ایک خواب ہے۔ یہ غلط تصور کہ ہندوستانی ایک قوم ہیں اپنی حدوں سے بہت زیادہ تجاوز کر چکا ہے اور ہماری بیشتر مشکلات کا یہی اصل سبب ہے۔ اگر ہم نے اپنے ان تصورات و نظریات کا بروقت از سر نو جائزہ نہ لیا تو ہندوستان تباہ ہو جائے گا۔ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی رسوم و روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نہ تو باہم شادیاں کرتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہی ہیں۔
حقیقتاً وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیاد بیشتر متصادم تصورات اور نظریات پر ہے، زندگی اور موت کے بارے میں ان کے تصورات بالکل مختلف ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف منبعوں سے ولولہ و امنگ حاصل کرتے ہیں۔ ان کی شجاعت کی داستانیں الگ، ان کے مشاہیر مختلف اور ان کے قصے جدا ہیں۔ اکثر صورتوں میں تو ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہے۔ اس طرح ایک قوم کی فتوحات دوسری قوم کی شکست ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک مملکت کے جوئے میں جوت دینے سے، جن میں سے ایک قوم عدد میں اقلیت اور دوسری اکثریت ہے، ان کے درمیان بداعتمادی زیادہ بڑھے گی اور بالآخر اس مملکت کی حکومت کے لئے جو ڈھانچہ تیار ہو گا وہ تباہی کی نذر ہو جائے گا۔
اسلام اقلیتوں کے حقوق کا ضامن، زندہ جلانے کا تصور بھی نہیں
(نوابزادہ لیاقت علی خان کا 12 مارچ 1949ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب)
لاہور(جرار رپورٹ)پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے، اس لئے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے کہ آج حیات انسانی کو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں ان سب کے لئے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (Panancea) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ انسانی دماغ نے سائنسی ایجادات کی شکل میں جو خود ساختہ بھوت
(Frankenstein Monster) اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے، اب اس سے نہ صرف انسانی معاشرے کے سارے نظام اور اس کے مادی ماحول کی تباہی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے بلکہ اس مسکن خاکی کے بھی تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے کہ جس پر انسان آباد ہے۔ اسی طرح ہماری اسلامی تہذیب میں رواداری (Tolerance) کی روایات بھی عظیم الشان ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں ا قلیتوں کو کسی نظام حکومت کے تحت وہ مراعات حاصل نہیں ہوئیں، جو مسلمان ملکوں میں انہیں حاصل تھیں، جس زمانے میں کلیسا (Church) سے اختلاف رکھنے والے مسیحیوں اور مسلمانوں کو (ہولناک) اذیتیں دی جاتی تھیں اور انہیں گھروں سے نکالا جاتا تھا اور پھر جب انہیں جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا تھا اور مجرم قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا، انہی دنوں اسلام ان سب مظلوموں، زیر دستوں اور مقہوروں کا ضامن اور پناہ گاہ ثابت ہوا کرتا تھا کہ جنہیں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور جو تنگ آ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہو جاتے تھے، انہیں زندہ جلانے کا تو تصور تک اسلام میں کبھی نہیں آیا۔تاریخ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب سامیوں سے نفرت (Anti-Semitism) کے تحت بہت سے یہودیوں کو یورپ کے ممالک سے نکال دیا گیا تو یہ سلطنت عثمانیہ تھی جس نے کھلے دل سے انہیں اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ مسلمانوں کی رواداری کا سب سے شاندار ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں اقلیتیں کافی تعداد میں موجود نہ ہوں اور جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کوبرقرار نہ رکھے ہوئے ہوں سب سے زیادہ ہندوستان کے اس برصغیر میں جہاں کبھی مسلمانوں کو لامحدود اختیارات حکمرانی حاصل تھے غیر مسلموں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور ہمیشہ ان کا تحفظ کیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments