الیاس حامد کا خصوصی کالم "دو اتحادی، دو قابض"

























مسلمانوں کے دو دشمن، جن میں ایک قدر مشترک ہے، کافی عرصہ سے گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہیں۔ اسلام دشمنی اور مسلم کشی ان کا خاصہ ہے۔ اسی مقصد کی خاطر ان کی باہمی دوستی تزویراتی نوعیت کی ہے۔ ایک اسرائیل ہے جس نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے اور دوسرا بھارت ہے جس نے کشمیری مسلمانوں اور اپنے ملک کے اندر مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کا لامتناہی سلسلہ قائم کیا ہوا ہے۔ اس مشترکہ مشن میں اسرائیل ہر لحاظ سے بڑے بھائی جیسا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا بڑاپن اخلاقی حیثیت کا نہیں ہے بلکہ وہ اسلحہ و بارود اور جنگی و عسکری ٹیکنالوجی میں بھارت سے بڑا ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو اس کے پاس ٹیکنالوجی کا ہونا یا امریکا و یورپ کی اندھا دھند پشت پناہی، بھارت پر اسرائیل سبقت رکھتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی بھارت پر کڑا وقت آیا، اسرائیل نے اسلام دشمنی میں اتحادی اور بڑا بھائی بن کر دکھایا تاکہ بھارت مسلمانوں پر ظلم و ستم کے سلسلے روا رکھنے کے لئے جدید سے جدید تر اسلحہ، ٹیکنالوجی اور حربی سازو سامان استعمال کرتے ہوئے پیچھے نہ رہ سکے۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر باڑ لگانے اور انتہائی حساس آلات کی فراہمی ہو یا جدید جنگی جہاز اور جاسوسی کے ڈرون طیارے وغیرہ، اسرائیل نے بھارت کو ہمیشہ سپورٹ کیا۔
اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر دفاع موشے یعلون پچھلے دنوں بھارت پہنچے اور بہت اہم امور پر ملاقاتیں ہوئیں۔ اسرائیلی وزیردفاع کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع سمیت بھارت کے اہم حکومتی اور سکیورٹی حکام سے ملاقاتوں کو خفیہ رکھا گیا۔ عرب ذرائع ابلاغ نے اس ملاقات اور یاترا کو رپورٹ کرتے ہوئے اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق موشے یعلون نے یہودی ریاست کے پہلے وزیر دفاع کی حیثیت سے بھارت کا دورہ کیا ہے اس وجہ سے اس دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ القدس العربی جریدے کے مطابق موشے یعلون نے بنگلور میں منعقدہ اسلحے کی خصوصی نمائش کا افتتاح کیا ہے۔ صہیونی وزیر دفاع اور بھارتی رہنماؤں کی ملاقات میں جن اہم امور پر اتفاق رائے ہوا ان میں سکیورٹی کے شعبے میں اضافے اور دونوں ملکوں کو درپیش دفاعی چیلنجوں کیخلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہے۔ نریندر مودی کی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے، بھارت میں خاص قسم کی تبدیلی نظر آئی ہے۔ بھارت نے خصوصاً پاکستان دشمنی میں کئی اقدام کئے ہیں۔ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کے سلسلے بڑھے ہیں۔ پاکستان کے بارڈر پر آئے دن بلا اشتعال بمباری اور فائرنگ معمول بن چکی ہے جس سے وسیع پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔
جب نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی تو گزشتہ برس نومبر میں بھارتی وزیر داخلہ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت یہ بات غیر معمولی اور قابل غور تھی۔ بھارتی وزیر دفاع موسم کی خرابی کے باعث جب تل ابیب وقت پر نہ پہنچ سکا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے بھارتی وزیراعظم کا شاندار استقبال کیا۔ 2000ء میں جب بھارت میں بی جے پی حکومت برسر اقتدار تھی تو پارٹی کے مرکزی رہنما لال کرشن ایڈوانی نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت بی جے پی کے اہم ذمہ دار کا دورہ بھی غیر معمولی حیثیت رکھتا تھا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا حالیہ دورہ بھارت جو کہ بھارتی وزیر داخلہ کے دورے کے صرف چند ماہ بعد پیش آیا ہے، ماہرین اس دورے کو بھی بہت اہم تصور کرتے ہیں۔ اسرائیل غزہ پر بمباری کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرائی سے استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیلی وزیر کا بھارتی دورے کا مقصد بھارت کے ساتھ اسلحہ کے نئے معاہدے طے کرنا ہے۔ بھارت اسرائیل کا دفاعی سازوسامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ گزشتہ برس بھی بھارتی وزارت دفاع نے اسرائیل سے 144 ملین ڈالر کے دفاعی سودے کی منظوری دی جس کے تحت اسرائیل بھارت کو 262 براک میزائل دے گا، ان میزائلوں کو بھارت اپنے 14 جنگی جہازوں پر نصب کرے گا۔
الجزیرہ ٹی وی نے رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اسرائیل سے اواکس سرویلنس ایئر کرافٹ کا جدید ترین ماڈل خریدنے کا بھی فیصلہ کر چکا ہے۔ یہ ایک بلین یعنی ارب ڈالر کا سودا ہے۔ اسلحہ کی خریداری کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کے دوران میں انٹیلی جنس شیئرنگ کے تبادلے اور باہمی تعاون پر بھی اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ بھارت کا بیلسٹک میزائل ملک میں تیار کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ مودی حکومت بھارت میں اسلحہ سازی کا ارادہ رکھتی ہے یوں اسرائیلی ٹیکنالوجی بھارت کے انجینئر اور ماہرین تیار کریں گے اور اس طرح میزائل ٹیکنالوجی سستی اور وافر مقدار میں حاصل ہو سکے گی۔
اسرائیل نے کشمیری حریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے بھارت کے سکیورٹی اداروں کی ہمیشہ تربیت کی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی حریت پسندوں کو کنٹرول کر لیا ہے اور مزاحمت کو کافی حد تک محدود کر دیا ہے۔ بھارت بھی اس نہج پر اسرائیل کی مہارت سے مستفید ہونا چاہتا ہے تاکہ حریت پسندوں کو قابو کر کے آزادی تحریک سے نمٹا جا سکے۔ اسرائیل میں فلسطینی تحریک مزاحمت کو بھارت دہشت گردی گردانتا ہے اور اسی طرح اسرائیل کشمیری حریت پسندوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی تصور کرتا ہے۔ یوں مظلوم لوگوں کو ان کی آزادی سے محروم رکھنا اور ظالمانہ قبضہ روا ر کھنا ان دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد ہے اور اسی سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ دونوں ظالم جڑے ہوئے ہیں۔
اسرائیل بھارت کو کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہمیشہ لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا آیا ہے، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کو عرب میڈیا پاک بھارت سے وسیع تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات پاکستان کے لئے خطرے کا باعث ہیں، ساتھ ساتھ چین، ایران اور خلیجی ممالک کی بحری سلامتی کے لئے خطرہ بھی ہیں۔ اسرائیل خلیجی ممالک کے لئے بحر ہند میں سکیورٹی رسک بن چکا ہے۔ اب یہ گٹھ جوڑ پاکستان کے لئے ہی تشویشناک نہیں رہا بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے۔ متعلقہ ممالک کو اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔ عرب ممالک جو کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ سردمہری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور کشمیری عوام کی جائز اور اصولی تحریک حریت پر خاموش رہ کر بھارت کے قبضے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ انہیں بھارت اسرائیل کا حالیہ گٹھ جوڑ اور بھارت کی حمایت پر نظر ثانی کرنا ہو گی، اسرائیل جو غزہ پر حالیہ جارحیت کی وجہ سے علیحدہ ہو چکا تھا، بھارت کا سہارا تلاش کرتا پھرتا ہے اور یوں عرب ممالک کیلئے خطرے کا باعث اسرائیل بھارت کا سہارا ڈھونڈ رہا ہے، انہیں بھی بھارت کے جابرانہ کشمیر پر قبضے کی کھل کر مخالفت کرنا ہو گی۔

Post a Comment

0 Comments