===== 23 مارچ 1940ء کا پیغام یاد رکھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت =====





















امسال پاکستانی قوم 23 مارچ کے روز اپنی عظیم سرزمین کی آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کے ایک سنگ میل یعنی قرارداد لاہور کے 75 سال مکمل کر رہی ہے۔ 75 سال کی تکمیل کے سنگ میل کے عبور کرنے کو آج کی دنیا کے کچھ لوگ ’’ڈائمنڈ جوبلی‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی کسی واقعہ کی75 سال کی تکمیل بہت ہی اہم مرحلہ ہوتی ہے۔ اس سال جب کہ ہم قرارداد لاہور کے 75 سال مکمل کر رہے ہیں، بظاہر ایک کمزور و نحیف ملک یعنی پاکستان بے شمار امتحانات، مشکلات اور آزمائشوں کی لامتناہی بھٹیوں سے گزر کر ایک ایسے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں سے اس کی منزل روشن تر نظر آ رہی ہے۔ آج سے ٹھیک 75 سال پہلے لاہور کے منٹو پارک میں برصغیر کے مسلمانوں کا ایک تاریخی اجتماع منعقد ہوا تھا۔ یہ بنیادی طور پر مسلم لیگ کا تین روزہ سالانہ اجلاس تھا۔ اجلاس سے صرف 3 روز پہلے لاہور شہر میں انگریزوں کے ساتھ خاکسار تحریک کا ٹکراؤ ہوا تھا جس میں شہر خون میں غلطاں ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ اتنے بڑے کشت و خون کے بعد مسلم لیگ کا یہ اجلاس اور اجتماع منعقد نہیں ہو سکے گا لیکن آزادی کے لئے اپنی دھن کے پختہ قائداعظم محمد علی جناح نے بہرصورت اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق اجلاس اور اجتماع کا اعلان کر دیا۔ وہ نئی دہلی سے لاہورپہنچے تو برصغیر کے لاکھوں مسلمان ان کی پکار پر لاہور میں جمع تھے۔
مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی۔ انہی دنوں سیالکوٹ کے رہنے والے تحریک پاکستان کے کارکن اصغر سودائی نے اپنی نظم ’’پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ پیش کی تو وہ مسلمانان ہند کے ایک اسلامی مملکت قائم کرنے کے عزم کا استعارہ آزادی بن گئی اور پھر یہ نعرہ ہر مسلمان کی زبان پر آ گیا۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے لگ بھگ ساڑھے سات سال بعد دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کی سب سے بڑی آزاد ریاست معرض وجود میں آ گئی۔ اس مملکت کے قیام سے پہلے اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح بارہا یہ کہتے رہے کہ یہاں اسلام کے سنہری اصولوں کو عملی شکل میں نافذ اور قائم کیا جائے گا۔ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ پیش کرے گا لیکن۔۔۔ 67 سال گزر چکے ہیں، ہمیں آزادی تو ملی لیکن ہمیں وہ منزل نہیں ملی جس کے حصول کی خاطر یہ وطن عزیز حاصل کیا گیا تھا یعنی لاالٰہ الاللہ کا عملی نفاذ۔ اس حوالے سے ہی ہماری غفلتوں کا نتیجہ تھا کہ 1971ء میں ہمارا ملک دولخت ہوا۔ کیا یہ حیران کن امر نہیں ہے کہ ہمارے لوگوں نے آج تک اس مسئلہ پر کبھی غور ہی نہیں کیا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ہم سے دور کرنے والے اصل عوامل کیا تھے؟ دشمن کی سازشیں اپنی جگہ لیکن ان سازشوں کو جگہ بنانے کا موقع کیسے ملا ہے؟ مشرقی پاکستان کے لوگ تحریک پاکستان کے اصل سپاہی تھے۔ لاالٰہ الاللہ ان کی گھٹی میں رچا بسا تھا، وگرنہ تو زبان، زمین، قومیت، رنگ، نسل، خطہ ، عادات واطوار سے تو مشرق و مغرب کے دونوں خطے ایک دوسرے سے یکسر جدا تھے۔ ان دونوں کو صرف کلمہ طیبہ نے ہی جمع کیا تھا اور انہیں کلمہ طیبہ ہی آگے بڑھا سکتا تھا جس سے دوری ہمیں بالآخر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر گئی۔ اگر اس وقت ریاست پاکستان کو اس کے مطلب و مقصد یعنی لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نفاذ سے ہمکنار کر دیا جاتا تو دونوں خطوں کو کوئی الگ نہیں کر سکتا تھا۔ آج بھی وطن عزیز میں لسانی، صوبائی اور رنگ و نسل کے جھگڑے نظر آتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ’’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو اپنا لینے کے بعد پاک فوج اس ملک کی اس انداز سے محافظ بنی ہے کہ اس نے ہر دشمن کا ہر وار ناکام بنایا ہے لیکن ہمارے حکمران ریاست میں اب بھی اس اسلام کو نافذ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ اگر صرف ’’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ فوج اس قدر مضبوط و طاقتور ہو سکتی ہے تو اگر اس اسلام کو ریاست اور ریاست کے ہر ادارے میں عملاً داخل کیا جائے تو کیا پھر اسے کبھی کوئی دشمن نقصان پہنچا سکے گا؟ ہرگز نہیں۔۔۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کا پیغام کل بھی یہی تھا، آج بھی یہی ہے کہ جب تک یہ پاکستان جو لا الٰہ الااللہ کی جاگیر ہے، اس کو ہم اس کی منزل سے ہمکنار نہیں کر دیتے، ہم کبھی سرخرو نہیں ہو سکتے۔
سعودی عرب کی اسلام سے وابستگی کی نئی روشن مثالیں
کرہ ارضی میں شریعت اسلامیہ اور حدود اللہ کے قیام کا اعزاز رکھنے والی واحد ریاست سعودی عرب نے اپنے نئے فرمانروا کے ساتھ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد ایک بار پھر دین کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کا بار بار اعادہ کیا ہے۔ 4 مارچ کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 25 ویں اجلاس سے خطاب میں سعودی انسانی حقوق کمیشن کے صدر شیخ بندرالعیین نے کہا کہ سزائے موت کا اسلامی قانون معاشرے کے تحفظ کا ضامن ہے۔ ہمارا عدالتی نظام سب کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ سعودی عرب کے قواعد و ضوابط شریعت کی بنیاد پر ہیں جو تمام فریقین کے حقوق کا تحفظ کرتے اور انصاف کو یقینی بناتے ہیں۔ سزائے موت ختم کرنے کے مطالبہ پر انہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبے کرنے والوں کو مقتولوں کے حقوق غصب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 10 مارچ کو سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ وہ اسلامی نصب العین کا دفاع کریں گے اور وہ ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
10 مارچ کو خبر آئی کہ سویڈن کی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کا ایک بڑا معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سویڈن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے اپنے ایک شہری (انٹرنیٹ بلاگر) کو جو توہین اسلام کا مرتکب ہوا ہے، سزا کیوں دی ہے۔ سعودی عرب نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تو دنیا میں کچھ خاموشی ہوئی۔ اسی واقعہ پر عرب لیگ کے اجلاس میں سعودی عرب نے سویڈن کے نمائندہ کی تقریر رکوا دی تھی۔ اس واقعہ کے اگلے ہی روز سعودی عرب نے سویڈن سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔
سعودی عرب نے جس انداز سے اسلامی شریعت و اقدار کا دفاع کیا ہے وہ انتہائی لاحق تحسین ہے۔ کتنا زمانہ گزرا کہ انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے دن رات سعودی عرب میں رائج شرعی نظام عدل پر سخت چیں بہ چیں ہیں اور ساری دنیا مل کر سعودی عرب پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے کہ وہ ملک سے شرعی حدود اور شرعی اقدار کے فروغ و قیام کو ختم کرے لیکن سعودی عرب نے اس معاملے پر کبھی معمولی سا بھی سمجھوتہ نہیں کیا، یقیناًیہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سعودی عرب پر رحمت کی گھٹائیں روز اول سے برس رہی ہیں۔ ساری مسلم دنیا سعودی عرب کو ہی اپنا مرکز و رہنما سمجھتی ہے۔ سعودی عرب نے جس طرح حدود اللہ کے قیام پر اور اسلامی شریعت کے معاملے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، یہ ساری دنیا کے مسلم ممالک اور حکمرانوں کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہئے کہ جو غیرمسلموں کے دباؤ تلے دبے رہتے ہیں۔
وہ دیکھیں کہ کیسے سعودی عرب کا فرمانروا امریکی صدر کو نماز کے وقت تن تنہا وہیں کھڑا چھوڑ کر خود اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کرنے جاتا ہے۔ یہ وہ قابل رشک مثالیں ہیں جن سے روشنی حاصل کرنی چاہئے اور اللہ سے بھی یہ ہی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب جیسی دین سے محبت و استقامت اور غیرت خودی تمام مسلم رہنماؤں کو عطا کر دے۔

Post a Comment

0 Comments