ابو صفی اللہ کا خصوصی کالم " 1938-1939ء کانگریس کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر مظالم"


قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں انگریزوں کے زیرانتظام کرائے گئے عام انتخابات میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور گاندھی کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت گری اور تعصب کا طوفان کھڑا کر دیا جس کے بعد مسلمانوں میں علیحدہ وطن کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ کانگریس نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار (1937-39ء) میں مسلم دشمنی پر مبنی حسب ذیل اقدامات کئے:

1۔ انتظامی امور میں مداخلت: کانگریس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرکاری انتظامیہ کو یہ ہدایت کی کہ وہ تمام انتظامی امور کانگریس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے مشورے سے انجام دیں۔ کانگریس کی اس پالیسی سے نظم و نسق تباہ ہو گیا۔ اس بدنظمی اور بدامنی کی زد براہ راست مسلمانوں پر پڑی اور ان کی جان و مال اور آبرو خطرے میں پڑ گئی۔

2۔ ہندو مسلم فسادات: کانگریس کی حکومتیں قائم ہوتے ہی ہندوؤں نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی۔ ہندوؤں کی ان خفیہ تنظیموں کی سرپرستی کی گئی جن کا مقصد مسلمانوں کے خلاف فسادات کرنا اور مسلمانوں کو جانی، مالی اور سماجی نقصان پہنچانا تھا۔ یہ خفیہ تنظیمیں عموماً عیدالاضحی، محرم، ہولی اور دیوالی وغیرہ کے موقعوں پر ہندو مسلم فسادات کراتی تھی۔

3۔ بندے ماترم: کانگریس کے دور اقتدار میں ’’بندے ماترم‘‘ کو قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ اس نغمے کا مفہوم یہ ہے کہ ’’بھارت کی دھرتی ماتا اپنے فرزندوں کو سلام بھیج کر ان سے استدعا کرتی ہے کہ مجھے ملیچھوں (ناپاکوں) کے قدموں سے پاک کرو اور اس کے فرزند جھک کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تجھے ایک نہ ایک دن پاک کر کے رہیں گے‘‘۔ مسلمان طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ روزانہ سکولوں میں صبح کے وقت بندے ماترم پڑھیں۔ قائداعظم نے بندے ماترم کو مسلمانوں کے خلاف نعرۂ جنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’اس سے شرک کی بو آتی ہے‘‘۔

4۔ ترنگا جھنڈا: ترنگا (کانگریس کا تین رنگوں والا جھنڈا) بھی لہرانے کا حکم دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اقوام عالم کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں۔ ایک انگریز اور دوسری کانگریس۔

5۔ مسلمانوں سے امتیازی سلوک: ہندو اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع خیال کرتے تھے اور مسلمانوں کو نیچ ذات کے افراد اور ملیچھ یعنی ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا، قریب جانا اور ساتھ کھانا کھانا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ہندو مسلمانوں سے سودا سلف نہیں خریدتے تھے اور نہ ان کے ساتھ کاروبار ہی کرتے تھے۔ ہندو حلوائیوں اور شربت فروشوں نے مسلمانوں کے لئے الگ برتن رکھے ہوتے تھے۔ سکولوں میں مسلمان بچوں کو الگ اور ہندوؤں کے بچوں کو الگ بٹھایا جاتا تھا مختلف کمرشل لائبریریوں میں مسلمانوں کا داخلہ منع تھا۔

6۔ ذبیحہ گاؤ پر پابندی: ہندوؤں کے نزدیک گائے ایک مقدس اور متبرک جانور ہے جسے وہ ماتا کا درجہ دیتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے نزدیک گائے بھی دوسرے حلال جانوروں کی طرح ایک جانور ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ کانگریس کے راج میں ہندو اکثریتی صوبوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عیدالاضحی کے موقع پر اس کی سختی کے ساتھ ممانعت کر دی گئی۔ اگر کوئی مسلمان گائے ذبح کرتا تو ہندو اسے مع اہل و عیال قتل کر کے اس کے گھر کو آگ لگا دیتے۔ متعدد مقامات پر گائے ذبح کرنے کا بہانہ بنا کر ہندوؤں نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی۔

7۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی: کانگریس کے راج میں نصاب تعلیم ازسرنو مرتب کیا گیا۔ ہندو ماہرین تعلیم نے ہندوؤں کے دیومالائی قصے کتابوں میں بھر دیئے۔ ان نصابی کتابوں میں کسی مسلمان بزرگ کا نام تک موجود نہ تھا۔ خدا کے لئے ایشور اور بھگوان جیسے نام استعمال کئے گئے اور یہ کوشش کی گئی کہ کتاب میں کہیں لفظ اللہ کا ذکر نہ آئے۔

8۔ نئی نئی تحقیقات: اسی زمانے میں ہندوؤں نے تحقیق کے نام پر بڑے بڑے مضحکہ خیز انکشافات کئے۔ ان کے خیال میں جنوبی امریکہ کا ملک ارجنٹائن پانچ پانڈو بھائیوں میں سے ایک بھائی ارجن نے آباد کیا تھا۔ شمالی امریکہ کا ملک گوئٹے مالا دراصل گوتم مالا ہے۔ وہاں بدھ بھکشومہاتمابدھ کی مالا (تسبیح) لے گئے تھے۔ اسی طرح ہنگری کا دارالحکومت بڈاپسٹ بھی بدپوسٹ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ وہاں مہاتما بدھ کے نام پر ایک پوسٹ (چوکی) قائم کی گئی تھی۔ ہندوؤں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دیومالائی قصوں میں جہاں اڑن کھٹولے کا ذکر آتا ہے اس سے مراد ہوائی جہاز ہے۔ مہا بھارت کی جنگ میں اگن بان استعمال کئے گئے تھے اس سے مراد راکٹ ہیں۔ حال ہی میں ایک ہندو اسکالر نے اگن بان کا ترجمہ ایٹم بم کیا ہے۔ ان تک بندیوں کا مطلب مسلمانوں پر اپنی برتری ظاہر کرنا اور ہندودھرم کو بڑا ترقی یافتہ بتانا تھا۔

9۔ ودیامندر تعلیمی اسکیم: سی پی (صوبہ جات وسطی) کے وزیراعلیٰ شری شکلا نے ودیا مندر تعلیمی اسکیم نافذ کی۔ ودیامندر (علم کا مندر)، ودیا مندروں میں زیرتعلیم مسلمان طلبہ ہندوؤں جیسا لباس استعمال کرتے۔ ہندو طلبہ کے ساتھ سرسوتی کے بت کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دعاپ (پرارتھنا) میں شریک ہوتے۔ السلام علیکم کے بجائے نمستے اور ’’جے رام جی کی‘‘ کہتے۔ اس ناپاک اور شرمناک سکیم کے خلاف مسلمانوں نے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جو حکومت کی یقین دہانی پر مارچ 1939ء میں ختم کر دی گئی۔

10۔ مورتی پوجا: کانگریس کے دور اقتدار میں تعلیمی اداروں میں گاندھی جی کی مورتی لگائی گئی اور مسلمان طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ گاندھی جی کی مورتی کو پرنام کریں یعنی ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوں اور اس کا احترام بجا لائیں۔

11۔ ہندو تہواروں کی سرپرستی: ہندوؤں کے مذہبی تہواروں مثلاً دیوالی (چراغاں کی عید)، دسہر ایارام لیلا، راکھی بندھن، گن پتی، ہولی، مہاشیوراتی اور کمبھ میلہ وغیرہ کی سرکاری سرپرستی کی گئی جبکہ مسلمانوں کے تہواروں اور مقدس راتوں کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔

12۔ اسلامی شعائر میں مداخلت: کانگریس کے راج میں نماز کے اوقات میں مساجد کے سامنے بینڈ باجے بجانا اور ہلڑ بازی روز کا معمول بن گیا۔ بعض مقامات پر اذان دینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ہندوؤں کی طرف سے مسلم اوقاف اور نجی جائیدادوں پر غاصبانہ قبضہ بھی کیا گیا.


Post a Comment

0 Comments