Two bloody hero of the Crusades By Mohson Farani

محسن فارانی کا خصوصی کالم "صلیبی دنیا کے دو خونی ہیرو "



















وہ بقول خود 255 مسلمانوں کا قاتل ہے۔ رواں صلیبی جنگ چھیڑنے والے ابا بش اور بیٹا بش کی ریاست ٹیکساس میں اپریل 1974ء میں اس نے جنم لیا تو آج کے اس خونخوار درندے کا نام کرس کائل رکھا گیا۔ اوائل جوانی میں اس نے کاؤ بوائے کا کام کیا یعنی گھوڑے پر سوار ہو کر گائیں چرانے کا دھندا کرتا رہا، حتیٰ کہ 1999ء میں امریکی نیوی سیلز (Navy Seals) یونٹ میں بھرتی ہو گیا جو زیادہ تر سمندر پارجنگوں میں حصہ لینے والی فوج ہے۔ بھرتی کے کڑے عمل سے گزر کر وہ کئی جگہ تعینات رہا اور 2003ء میں اسے عراق بھیج دیا گیا جہاں صدر بش جونیئر نے ان ’’ہتھیاروں‘‘ کو تباہ کن قرار دے کر برطانوی مدد سے کروسیڈی حملہ کر دیا تھا جنہیں اقوام متحدہ کے انسپکٹر گزشتہ دہائی میں عراق آ کر تباہ کر چکے تھے۔ وہ عراق میں ایک سنائپر (Sniper) یعنی کمین گاہ سے دور مار بندوق چلانے والا شکاری بن گیا اگرچہ پہلے اسے سنائپنگ کی تربیت نہیں ملی تھی۔ لمبی نال والی 8.59 ایم ایم سنائپر گن کا وزن 6.8 کلو گرام، لمبائی 1.3 میٹر اور رفتار 936 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اس مہلک گن سے کرس کائل نے چند اولین عراقی باشندوں کو شہید کر کے اپنے ساتھیوں اور افسروں سے خوب داد حاصل کی۔ اعلیٰ فوجی حکام نے اس کا ٹیلنٹ بھانپ کر اسے امریکہ سیل سنائپر سکول میں بھیج دیا جہاں اسے گھات لگا کر انسانوں کو ہلاک کرنے کے تمام اسرار و رموز ازبر کرائے گئے۔
2004ء میں کائل کو بغداد کے مغرب میں اہم ترین مزاحمتی شہر فلوجہ کے محاصرے میں ڈیوٹی مل گئی جہاں مجاہدین ’’فلوجہ: امریکیوں کا قبرستان‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے اور انہی دنوں مجاہدین نے حملہ آور بعض امریکیوں کو جہنم رسید کر کے ان کی لاشیں دریائے فرات کے پل پر لٹکا دی تھیں۔ نومبر 2004ء سے شروع ہونے والی خونریز جنگ فلوجہ جنگ عراق دوم کا سب سے زیادہ ہلاکت آفریں اور تباہ کن معرکہ تھا۔ عراقی سنی مجاہدین نے یہاں جان کی بازی لگا دی۔ اوپر سے صلیبی طیارے مہلک ترین بم اور میزائل برسا رہے تھے اور نیچے کائل جیسے صلیبی درندے گھات میں تھے۔ انہوں نے اس خوبصورت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عراقی مجاہدین، مرد، بوڑھے، عورتیں، بچے شہید ہوتے رہے اور دو ماہ کے اندر یہاں کوئی ذی نفس حملہ آوروں کی مزاحمت کرنے والا نہ رہا۔ برطانوی جریدے لانسٹ کے مطابق اس جنگ میں ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوئے، بش کا صلیبی پرچم فلوجہ میں لہرانے لگا۔
کرس کائل نے جس طرح فلوجہ والوں کا انتہائی سفاکی سے خون بہایا تھا، 2006ء میں فلوجہ کے مغرب میں فرات کے کنارے آباد رمادی شہر کو ’’فتح‘‘ کرنے میں بھی ایسے ہی ابلیسی کردار کا مظاہرہ کیا۔ یہاں اس کے ساتھی سیلز (دریائی بچھڑوں) نے اس کا عرفی نام (Nick name) ہی The Legend (روایت ساز شخصیت) رکھ دیا۔ ایک دن کائل چوکی کی چھت پر کھڑا تھا کہ اس نے دور سے 50 سی سی سے کم طاقت کی ایک موٹرسائیکل آتے دیکھی۔ اس پر دو افراد سوار تھے۔ ایک نے اپنی کمر پر اٹھایا ہوا بوجھ ایک گڑھے میں پھینک دیا۔ کائل نے اسے خانہ ساز بم (IED) جان کر تیز رفتار موٹرسائیکل کا 150 گز کی دوری سے نشانہ لیا۔ تباہ کن گولی ایک سوار کے جسم کو چیر گئی اور دوسرے کو شدید زخمی کر دیا۔ جانبر وہ بھی نہ ہو سکا۔ کائل جیسے درندے کی اس سفاکانہ کارکردگی کا امریکی حکام یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اس نے 160 مصدقہ ہلاکتیں کر کے سینکڑوں امریکیوں کی جانیں بچا لیں۔ او انسانی خون کے حریص امریکیو! تم پہلے افغانستان اور پھر عراق پر بلاجواز حملہ آور ہی کیوں ہوئے تھے؟ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے؟ جھوٹے عذروں کی بنا پر! تمہارے بش کا صدام حسین شہید پر بعد از جنگ لگایا جانے والا یہ الزام بھی جھوٹا تھا کہ اس کے القاعدہ سے رابطے ہیں۔ خود تمہارے لوگوں ہی نے یہ راز کھول دیا ہے کہ صدام کے القاعدہ سے رابطوں کا الزام بے حقیقت تھا جیسے صدام کے WMDs (وسیع تباہی کے ہتھیاروں) کا الزام جھوٹا ثابت ہوا۔
2009ء میں کائل ریٹائر ہو کر مڈلوتھیان (ٹیکساس) میں اپنے بیوی بچوں سے جا ملا۔ اس نے ہراور امریکی سنائپر کی نسبت زیادہ دشمن (مسلمان) ہلاک کئے تھے بلکہ اسے بہت سے میڈل اور 3 سلور سٹار بھی ملے تھے۔ اس نے ’’امیرکن سنائپر‘‘ (American Sniper) کے نام سے کتاب لکھی جس کی کہانی پر مبنی اس نام کی ہالی وڈ کی فلم باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی۔ لیکن ٹھہریے! اس سفاک انسان نما درندے کا انجام عبرتناک ہوا۔ کرس کائل اور اس کا ساتھی چاڈ لٹل فیلڈ 2 فروری 2013ء کو 25 سالہ نوجوان ایڈی رے روتھ کو کلین روز (ٹیکساس) میں ایک دور دراز شوٹنگ رینج پر لے گئے۔ رینج پر پہنچنے سے پہلے ہی ایڈی نے کائل اور چاڈ دونوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیااور کائل کا ٹرک لے اڑا۔ سب کہیں: خس کم جہاں پاک!
اب ایک دوسرے قاتل صلیبی ہیرو کی بات کریں جس کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ اس سنائپرکا تعلق برطانوی رائل میرین سے ہے۔ اس نے مصدقہ 173 انسانوں کی جانیں لیں اور محض ایک دن میں اس نے 90 افغانی شہید کر دیئے۔ اس برطانوی سنائپر کا نام نہیں بتایا گیا۔ اس نے ایلیٹ یونٹ میں ایک دہائی سے زیادہ کام کیا اور افغانستان میں چھ ماہ کی تعیناتی (2006-07ء) میں اس نے اپنی بیشتر وارداتیں کیں جبکہ اس نے عراق میں بھی فوجی خدمت انجام دیں۔ یوں دو بچوں کے باپ اس انگریز کو امریکی کمانڈو کرس کائل پر مبینہ طور پر برتری حاصل ہے جس کا فلمی کردار بریڈلے کوپر نے ادا کر کے شہرت حاصل کی ہے۔ اب ذرا برطانوی اخبار ’’ دی سن‘‘ کی اس برطانوی ’’ہیرو‘‘ کے کردار پر حاشیہ آرائی دیکھئے۔ اخبار لکھتا ہے: ’’جو کام اس کو کرنا پڑا وہ اس کے لئے اطمینان بخش نہیں تھا کیونکہ وہ دشمنوں کو انسان سمجھتا تھا، لہٰذا جو کچھ ہوا، اس کے لئے اس نے جذباتی یا نفسیاتی طور پر کاوش نہیں کی۔ اس نے ایک بے مثال وقت پر ایک بے مثال کام کر دکھایا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتا ہے لیکن یہ ایسا ٹائٹل نہیں جس کا وہ طلبگار ہوا ہو یا اسے خیال آیا ہو‘‘۔ (برطانوی مدیر جی! امریکی صدر جارج واکر بش جونیئر اور آپ کا وزیراعظم ٹونی بلیئر عرف ’’بش کا پوڈل‘‘ وہ کیا ہیں؟ بولیویا کے غیر یورپی اور خالص مقامی صدر مورالس کے بقول ’’بش (جونیئر) دنیا کا واحد دہشت گرد ہے‘‘۔ تو اس کا پوڈل بلیئر بھی عالمی دہشت گرد ہی ہوا اور یہ آپ کے ’’معصوم ہیرو‘‘ تو ہیں ہی ابدی قاتل اور جہنمی!)
’’دی سن‘‘ کے مطابق اس برطانوی ہیرو کمانڈو کی بیشتر وارداتیں ’’آپریشن ہیرک پنجم‘‘ کے دوران میں ہوئیں جب وہ ہلمند (افغانستان) میں تعینات تھا۔ جنگ افغانستان شروع ہوتے ہی صلیبی فوجیوں کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی دشمن پر ہلاکت خیز قوت استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کے بعد ’’گائیڈنس کارڈ الفا‘‘ نامی جنگی اصول سخت کر دیئے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ فوجی صرف اس وقت فائر کھول سکتے تھے اگر دشمن سے ان کابراہ راست ٹاکرا ہو یا دشمن کا فوری حملہ روکنا مقصود ہو۔ جنگ افغانستان میں سنائپرز ایلفا L115 A3 گن سے مسلح ہوتے تھے جو اعشاریہ 338 بور کی گولیاں ایک کلومیٹر سے آگے تک فائر کرتی ہے۔ برطانوی ہیرو جس کا نام چھپایا گیا ہے، آئر لینڈ میں بھی تعینات رہا۔ بیشتر برطانوی سنائپرز نے ’’ڈیلی میل‘‘ کے مطابق ایسی بیس تیس ہلاکتیں ضرور کیں۔ ان کی ذمہ داری ہائی ویلیو ٹارگٹ کا صفایا کرنا اور خفیہ معلومات کا حصول ہوتا ہے۔
امریکی قاتل کرس کائل کی ہائی وڈ میں جو فلم بنائی گئی ہے وہ دو آسکر ایوارڈز کے لئے نامزد ہو چکی ہے اور ریلیز ہونے کے صرف تین ہفتوں میں اس نے تقریباً 25 کروڑ ڈالر کما لئے۔ کلنٹ ایسٹ وڈ (ڈائریکٹر) پر لعن طعن بھی ہو رہی ہے کہ اس نے ایک خونی اور قاتل کو بانس پر چڑھا دیا ہے۔ ہاں، جب صلیبی قاتل نے ان گنت مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں تو وہ مغرب کے بیشتر یہود و نصاریٰ کافی زمانہ محبوب اور ہیرو ٹھہرتا ہے۔ 



Post a Comment

0 Comments