Treatment of terrorism, Islam only, not secularism by Dr. Muzamal Iqbal Hashmi




























ڈاکٹر مزمل اقبال ہاشمی امیر جماعت الدعوہ کراچی کا خصوصی کالم "دہشت گردی کا علاج، سیکولرازم نہیں اسلام ہے"
#UrduArtical

ہم خدا کو مانتے ہیں یا نہیں یہ تو دلوں کی کیفیت ہے، ہم خدا کی نہیں مانتے اس کی گواہی ہمارے اعمال دیتے ہیں۔ یہ اجتماعی ہوں یا انفرادی ہر جگہ ہم نفس کے غلام ہیں۔ ہماری سوچیں، ہماری فکریں، ہمارے رول ماڈل سب وہ ہیں جن سے ہماری آرزوئیں، تمنائیں اور خواہشیں پوری ہوتی ہوں۔ قوم لٹ جائے، ملک برباد ہو جائے، بستیاں اجڑ جائیں اور معصوم بدن خون سے لت پت کر دیے جائیں ہمیں فرق نہیں پڑتا، بلکہ ہم نفس کو خدا بنا کر پوجتے ہیں پھر اس کی رضا سوچتے ہیں۔ ہماری زبان کی تقریریں، ہمارے قلم کی تحریریں سب اسی کو راضی کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ویسے تو خودی کے درس ہیں، خودداری کی باتیں ہیں، پارسائی کے دعوے ہیں مگر دل کے بت خانے میں موجود جھوٹے خدا جنہیں ہم نے کسی کو نظر نہیں آنے دیا سب کچھ انہی کے لیے ہے۔ کیا یہ سچ نہیں؟ ہم اسلام کو طرزِ حیات تو کہتے ہیں مگر ہماری زندگی کی کوئی ادا اس کے مطابق نہیں۔ ہم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رول ماڈل تو مانتے ہیں مگر ہماری زندگی کا کوئی ماڈل ان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم قرآن کو کتاب دستور تو تسلیم کرتے ہیں مگر ہمیں کسی دستور میں اس کا دخل قبول نہیں۔ ہم خدا، رسولؐ، قوم اور ملک سب کے ساتھ چانکیائی سیاست کر رہے ہیں اور پھر دعوت دیتے ہیں کہ سب اسے تسلیم کریں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے دشمن ہمارے وطن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک، کراچی میں قتل و غارت، وزیرستان سے لے کر سوات تک اسلام کے نام پروحشت کا کھیل، بم دھماکے، خود کش حملے، بازار، مارکیٹیں، امام بارگاہیں اور مساجد ہر جگہ آگ اور خون کا کھیل، ہم سب کچھ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے مگر بولتے نہیں۔ مالی کے بم دھماکے، گودھرا ٹرین کا واقعہ، سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ اور پھر الزامات کی سیاست، ہمارے ملک کی بدنامی مگر ہمارے میڈیا پر اور ہمارے ایوانوں میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اگر ذکر ملے گا تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ایک کمزور سا تذکرہ اور ایک لمبی خاموشی۔
امریکی صدر کے دورۂ بھارت سے پہلے پشاور سکول حملہ درحقیقت وطن عزیز پر حملہ تھا۔ خون میں لت پت لاشیں ہمارے گھروں میں آئیں، مگر اس سب کے باوجود عالمی سطح پرہم ایک مجرم اور ہمارے مجرم امن کے داعی اور علمبردار ہیں۔ امریکی صدر نے بھی بھارت میں کھڑے ہو کر جہاں افغان جنگ کے اختتام پر افغانستان میں ہندوستان کے مضبوط کردار کے حوالے سے گفتگو کی اور اس کی سول اور عسکری ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی ضروریات پورا کرنے کے حوالے سے معاہدے کیے، وہیں، پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ بھی کیا۔ اب ہندوستان ممبئی حملوں کے تناظر میں پاکستان کے خلاف ایک نئی قرار داد لانے جا رہا ہے۔

جس کے لیے وہ چین اور روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب ہندوستان امریکا کے ساتھ مل کر دنیا میں چین کے کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ بھارت سفارتی محاذ پر اپنی پلاننگ اور منصوبہ بندی کی بدولت ایک مضبوط پوزیشن پر کھڑا ہے۔ جبکہ ہمارا دفتر خارجہ ایک موثر اور مضبوط حکمت عملی سے محروم ہے۔ سفارتی محاذ پر ہماری دفاعی حکمت عملی سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیا ہمارے خون کا رنگ سرخ نہیں یا ہمارا وجود کسی اہمیت کا حامل نہیں؟ کتنی عجیب بات ہے ہمارے دانشور یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ جب خود کش دھماکے اور قتل و غارت کرنے والے ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں تو ہمیں کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ کوئی شک نہیں جرم کا اعتراف مجرم کی طرف رہنمائی کر رہا ہے مگر یہ آدھی حقیقت ہے۔ کسی ایک گروپ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بیرونی مدد کے بغیر طویل عرصہ خطرناک عسکری کارروائیوں کا ارتکاب کرتا چلا جائے، جبکہ اسے اس حوالہ سے کوئی عوامی حمایت بھی حاصل نہ ہو۔ یہ بیرونی امداد کہاں سے آرہی ہے؟ کون پشت پناہی کر رہا ہے؟

افغان جنگ کے دوران میں افغان جنگجوؤں نے جب اتحادی افواج کو چین سے نہ رہنے دیا تو کس کے قونصل خانے ڈیڑھ درجن سے زیادہ کی تعداد میں جنگ زدہ ملک میں آپریشنل تھے۔ مقصد واضح ہے یہ سب پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول بنانے کے لیے تھا۔ پہلے پہل بلوچستان میں عسکریت پسندی کو پروان چڑھایا گیا اور جب اس کے خاطر خواہ نتائج نہ ملے تو پھر ’’را‘‘ نے بلیک واٹر کے ذریعے سے ہمارے قبائلی علاقوں میں نام نہاد جہادیوں سے رابطے کر کے انہیں پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے تیار کیا، تاکہ وہ ان کے ذریعے سے اپنے کئی ایک مقاصد کو پورا کر سکیں۔ جن میں سے ایک پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا۔ دوم: اس خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر دنیا کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل پروگرام کے خلاف کارروائیوں کے لیے تیار کرنا۔ سوم: کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے، وہاں آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف حریت پسندوں کو پاکستانی عوام کی حمایت سے محروم کرنا۔ چہارم: پاکستانی عوام کے دلوں سے مذہبی محبت کی جگہ سیکولرازم کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ آج وہ اپنے مقاصد میں کامیاب جبکہ ہم دشمن کی جارحیت کے مقابلہ میں کسی بھی حکمت عملی سے محروم نظر آ رہے ہیں۔

آج ہمیں اپنی سوچ کے دھاروں کو بدلنا ہے۔ دین بیزاری ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ اس رویہ سے دہشت گردی کا علاج ممکن ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو گا کہ ہماری نظریاتی بنیادیں جوں جوں کھوکھلی ہوتی جائیں گی، ویسے ویسے ہمارا دشمن اپنی مکاری سے ہمارے گرد سازشوں کے نئے سے نئے جال بنتا چلا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں امریکی اسکالر اور برصغیر کے دفاعی اور سیاسی امور کی ماہر کرسٹین فیٹر کا نیوز ویک کو انٹرویو اس بات کی واضح دلیل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کا محتاج اس وجہ سے ہو گیا کیونکہ افغان جنگ میں ہمارا اسلحہ اور سازوسامان پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ اس وقت بھی اور اب بھی بدترین حکمت عملی ہے۔ میں ہمیشہ سے افغان جنگ کی اسی لیے مخالف رہی ہوں کہ پاکستان کے اتحادی ہوتے ہوئے ہم وہاں فتح یاب ہو ہی نہیں سکتے۔ ہم پاکستان پر مجاہدین کی پشت پناہی روکنے کے لیے دباؤ ڈال ہی نہیں سکتے، کیونکہ ہماری رسد پاکستان سے گزرتی ہے۔ ہم پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام سے بلیک میل ہوتے ہیں اور پاکستان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔
پاکستان نے ہر حال میں جیتنا ہی تھا۔ ہم یہ جنگ اسی دن ہار گئے تھے جب ہم نے جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو اپنا صف اول کا اتحادی بنایا۔

اب دیکھ لیجئے گزشتہ 14سال میں پاکستان نے امریکی اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کون سانقصان نہیں اٹھایا مگر اس سب کے باوجود ہمارے اتحادی ہم سے راضی نہ ہوئے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن نے ہمیں چودہ سو سال پہلے بتلا دی تھی ’’اور تم سے یہودی اور عیسائی ہر گز راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو‘‘ (البقرہ:120)۔ اس لیے ضروری ہے ہم اسلام کے ساتھ چانکیائی سیاست ترک کرکے وطن عزیز کو اصل بنیادوں کی طرف لے کر چلیں۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اسی طرح ہمیں راہ نجات میسر آسکتی ہے۔ کیونکہ اسلام کی غلط تعبیر کر کے انسانی خون بہانے والوں کا علاج صرف اور صرف اسلام پر عمل پیرا ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments