Question about Destiny,Answer by Mufti Abdul Rahman Abid























فیس بک پر ہفت روزہ جرار کا مقبول ترین سلسلہ آپ کے مسائل اور ان کا حل:
ہفت روزہ جرار میں شایع ہونے والے احکام و مسائل:
===== تقدیر کا مسئلہ =====

سوال: کسی بھی انسان کی تقدیر پہلے سے ہی اللہ نے لکھ رکھی ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں اگر اللہ نے سب کچھ لکھ رکھا ہے تو سزا اور جزا کا عمل کیسا؟ 
انسان کو کہاں موت آئے گی، کیسے آئے گی ؟ اللہ نے یہ بھی لکھ رکھا ہے۔ حادثہ یا بم دھماکہ وغیرہ سے مرنا پہلے سے لکھا ہے تو انسان ہر قیمت پر اس حادثہ کا شکار ہو گا، اس میں دھماکہ کرنے والے کا کیا قصور؟۔

جواب: اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے، جو کچھ ازل سے ہے اور جو ہو چکا، کب اور کیسے ہوا، جو ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو گا، کب اور کیسے ہو گا، اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا؟سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ وہ موجود اور معدوم ،ممکن اور ناممکن کو بھی جانتا ہے۔ یہ سب زمین و آسمان کی تخلیق سے 50ہزار سال پہلے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ اسی کا نام تقدیر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے حق و باطل کی راہیں خوب واضح کر کے ان پر چلنے کا انجام بھی بتا دیا اور پھر انسان کو اختیار دیا۔ فرمایا:(بلا شبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے، خواہ ناشکرا)۔ (الدہر:۳)

اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے اختیار کو ہر انسان نے جیسے استعمال کرنا تھا اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے ہی علم تھا، تو اس نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا۔ کسی انسان کو اچھائی یا برائی پر جبری اور زبردستی نہیں لگایا۔ تقدیر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اچھائی یا برائی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے تقدیر لکھ دینے سے انسان کے اپنے ارادے، اختیار اور قدرت کی نفی نہیں ہوتی۔ مثلاً بندے کا گھر سے نکل کر سکول، کالج، یونیورسٹی، دکان، دفتر، فیکٹری وغیرہ جانا یہ ایک ایک حرکت اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت، ارادے اور قدرت سے ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے جو سب جہانوں کا رب ہے)۔ (التکویر:29)

مگر اس سے آج تک کبھی کسی نے نہ سمجھا او رنہ کہا کہ میں گھر سے نکل کر ان جگہوں پر اپنے ارادے ، اختیار اور قدرت کے بغیر گیا۔ کسی نے اس کو جبر قرار نہیں دیا۔ ایسے ہی نیکی اور بدی کا معاملہ ہے۔ اللہ کسی سے نہ زبردستی نیکی کرواتا ہے اور نہ زبردستی بدی کرواتا ہے۔ انسان اپنے اختیار سے نیکی کرے تو جزا اور برائی کی راہ اختیار کرے تو سزا کا مستحق ہوتاہے۔
جیسے ہر جاندار کا رزق اللہ نے لکھ رکھا ہے۔ فرمایا: (اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے)۔ (الحجر:21)
(بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے)۔ (الذاریات: 58)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رزق اللہ ہی دیتا ہے، اسی کے اختیار میں ہے اور جس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے۔۔۔ اور یہ بھی اس نے لکھ رکھا ہے۔ پھر لوگ روزی کی خاطر مارے مارے کیوں پھرتے ہیں۔۔۔ دکانیں، کارخانے، فیکٹریاں کیوں بناتے ہیں، نوکری، ملازمت، کھیتی باڑی وغیرہ کیوں کرتے ہیں۔۔۔ ان سب کو چھوڑ کر گھر میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے، جب تقدیر اللہ نے لکھ رکھی ہے ۔۔۔ تو یہ سارے دنیوی دھندے اختیار کرنے کا عمل کیسا؟؟
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اللہ رزق فراخ کر دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے۔۔۔)۔ (الرعد:26) 

اس آیت سے کوئی یہ سمجھ لے کہ انسان کام کاج کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ناکارہ ہو کر بیٹھ جائے، تو اللہ زبردستی اس کا رزق فراخ کر دیتا ہے۔ اور ایک دوسرا انسان دن رات ایک کر کے خون پسینہ بہا کر محنت کرتا ہے، پھر بھی اللہ زبردستی اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے تو یہ ہرگز درست اور صحیح نہیں، ورنہ تمام لوگ کام چھوڑ کر ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ 
کسی بھی انسان کو کہاں ، کب، کیسے موت آئے گی اللہ کوپہلے سے معلوم ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔ اسی اللہ نے اپنے بندوں کو دوسروں پر ظلم و زیادتی سے بھی منع فرمایا ہے اور کسی کو جان بوجھ کر قتل کرنا، اللہ کی حدود کو توڑنا اور اس کی کھلی بغاوت جو حرام اور دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سنگین جرم ہے۔ فرمایا:(اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی جزا جہنم ہے اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہو گیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے)۔ (النساء: 93)

اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر انسان کی موت کا وقت ، کیفیت وغیرہ لکھا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ نے اس طرح مرنا جبراً اس پر مسلط کر دیا ہے بلکہ ہر کسی کی موت کا وقت، کیفیت وغیرہ اللہ کے علم میں ہے، تو وہ اس نے لکھ دیا ہے۔ اور قاتل کا قصور یہ ہے کہ اس نے اللہ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کیا اور اللہ کی حدوں کو توڑا ہے۔ 
کسی کا دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ ہے مگر اللہ کو پسند نہیں کیونکہ مشیت، ارادہ اور چاہنا اور چیز ہے، راضی ہونا اور پسند کرنا اور چیز ہے۔ عام طور پر لوگ دونوں کو ایک ہی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ الگ ہیں، ایک نہیں۔

Post a Comment

0 Comments