How much People of Kashmir Hate Indian, A True Face of Indian Terrorism




















سرینگر (خصوصی رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کا طوفان، 9 سے 11 فروری تک مسلسل ہڑتال، مظاہرے، احتجاج، سارا مقبوضہ کشمیر افضل گورو اور مقبول بٹ کے اجساد خاکی بھارت سے واپس مانگنے سے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر سراپا احتجاج رہا۔ ساری حریت قیادت قید رہی جبکہ کاروبار زندگی تین دن تک ٹھپ رہا۔ تفصیلات کے مطابق پہلی ہڑتال 9 فروری کو افضل گورو کے یوم شہادت پر ان کا جسد خاکی طلب کرنے کے لئے ہوئی۔ محمد افضل گورو کی برسی کے موقع پلہالن پٹن میں کرفیو جیسی صورتحال کے دوران پلہالن پٹن میں احتجاجی مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے ایک 16 سالہ طالب علم فاروق احمد بٹ شہید اوردیگر زخمی ہوگئے جن میں سے ایک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ پولیس نے فائرنگ کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکی نسبت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

اس دوران افضل گورو کے آبائی علاقہ سوپور اور پائین شہر سمیت وادی کے کئی حساس علاقوں میں بھی سخت پابندیاں نافذ رہیں جبکہ وادی میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی اور انتظامیہ نے ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر لوگوں کی نقل وحرکت پر پابندیوں کیلئے اضافی تعدادمیں پولیس اورفورسزاہلکاروں کو تعینات کیا تھا۔واضح رہے کہ افضل گورو کو 9 فروری013 2ء کو 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔محمد افضل گورو دہلی کی تہاڑ جیل کے مخصوص وارڈ میں قید تھے اور پھانسی کے بعد انہیں جیل کے احاطے میں ہی دفنا دیا گیا۔افضل گورو نے ہمیشہ اس جرم سے انکار کیا جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ افضل گورو کا مقدمہ منصفانہ نہیں تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اتوار کو پولیس نے ایک مقامی شہری غلام محمد بٹ کے گھر پر چھاپہ ڈالا اور کہا کہ وہ اْس کے بیٹے عاشق احمد کی تلاش کررہے ہیں کیونکہ وہ مبینہ طور پر سنگ بازی میں ملوث ہے۔بٹ کے اہل خانہ نے بتایا کہ چھاپے کے دوران میں پولیس نے گھر کا سارا سامان تہس نہس کیا اور افراد خانہ کو بھی تنگ کیا۔
اس واقعہ کے خلاف نوجوانوں نے ٹولیوں کی شکل میں احتجاج کرتے ہوئے شاہراہ کی طرف آنے کی کوشش کی اور فورسز نے فوری کارروائی کی۔اس دوران میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کے بعد آنسو گیس شیلنگ کرکے انہیں شاہراہ کی طرف آنے سے روک کر اندرونی علاقوں تک ہی محدود رکھااور سہ پہر کو جھڑپوں میں شدت پیدا ہوئی اور پھر بھارتی پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ افضل گورو کی برسی کے سلسلے میں ممکنہ احتجاج کے پیش نظر حریت کانفرنس کے تینوں دھڑوں اور دیگر کئی مزاحمتی تنظیموں کے رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا جبکہ کچھ ایک کو باضابطہ طور گرفتارکرلیاگیا۔حریت (گ) ترجمان ایاز اکبرجو خانہ نظر بند تھے ،انہیں بھی باضابطہ طور گرفتار کرلیا گیاجن یلڈروں کو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ان میں ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ، حریت(گ) کے محمد اشرف صحرائی اور نیشنل فرنٹ چیرمین نعیم احمد خان کے نام قابل ذکر ہیں۔
لبریشن فرنٹ چیئرمین کو اتوار کو ہی گرفتار کرکے سینٹرل جیل سرینگر پہنچایا گیا تھا۔پائین شہر اور سوپور میں سخت ترین بندشوں اوروادی بھرمیں مکمل ہڑتال کے بیچ پلہالن پٹن کے نوجوان فاروق احمد کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا جسکے فوراً بعد نہ صرف پلہالن بلکہ کولگام ،کیموہ ،بیہامہ گاندربل اور اننت ناگ میں پتھراؤ کے واقعات پیش آئے جس دوران پولیس کے ایک سب انسپکٹر سمیت نصف درجن سے زائد فورسز اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نائد کھے میں پولیس کے 2عارضی شیڈ نذر آتش کئے گئے۔اس دوران فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمدشاہ کو یو این او آفس تک مارچ کرنے سے روکا گیا اور پولیس نے انہیں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ 11 فروری کو محمد مقبول بٹ کی 31ویں برسی پر بدھ کو وادی بھر میں ہمہ گیر ہڑتال کے نتیجے میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اور مرحوم کے جسد خاکی کو کشمیری عوام کو سونپ دینے کا مطالبہ دہرایا گیا۔
شہرکے 6پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں اور پلہالن پٹن میں غیر علانیہ کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔پلہالن میں فورسز کی فائرنگ سے ایک نوجوان کے شہید ہونے اور محمد مقبول بٹ کی برسی کے تناظر میں بدھ کو مسلسل تیسرے روزغیرعلانیہ کرفیو سختی کے ساتھ نافذ رہا۔مائسمہ، کیموہ اور بانڈی پورہ میں احتجاجی مظاہروں کے دوران فورسز اور مشتعل مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ آنسوگیس شلنگ کی۔اس دوران شہید کے آبائی گاؤں ترہگام کپواڑہ میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے تاہم مزاحتمی لیڈروں کو ترہگام جانے سے روکنے کیلئے بدستور گرفتار اور خانہ نظر بند رکھا گیاجبکہ پولیس نے سرینگر میں لبریشن فرنٹ کے ’یو این او‘چلو مارچ کو ناکام بناتے ہوئے فرنٹ کے وائس چیئرمین سمیت درجن بھر کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔واضح رہے کہ31سال قبل یعنی 1984ء آج ہی کے دن ترہگام کپواڑہ کے رہنے والے محمد مقبول بٹ کو دلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔
محمد مقبول بٹ کا جسد خاکی اْن کے لواحقین کو نہیں دیا گیا تھا اور انہیں جیل احاطے میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ دیگر علاقوں میں مکمل ہڑتال رہی اور کسی بھی امکانی گڑبڑ سے نمٹنے کیلئے قصبہ جات میں سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ادھر شوپیاں،بارہمولہ ،پلوامہ اور قصبہ جات میں ہمہ گیر ہڑتال سے نظام زندگی تیسرے روز بھی درہم برہم رہا۔کولگام سے خالد جاوید نے اطلاع دی ہے کہ ضلع میں ہمہ گیر ہڑتال سے معمولات زندگی درہم برہم ہوئے۔ ہڑتال کی وجہ سے قصبہ میں کرفیو جیسا سماں دکھائی دے رہا تھا۔ باری پورہ،کیموہ ،دیوسر ،قاضی گنڈ، فرصل اور دیگر علاقوں میں بھی مکمل ہڑتال دیکھنے کو ملی۔کیموہ اور کھڈونی میں نوجوانوں کی ٹولی نے اننت ناگ کولگام روڈ پر ایگریکلچر یونیورسٹی کے قریب دن بھر فورسز پر پتھراؤ کیا جس کے دوران میں فورسز نے انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اورشیلنگ کی۔

Post a Comment

0 Comments