الیاس حامد کا خصوصی کالم "چناروں کا دیس جھلس رہا ہے"


رگ جان جب دشمن کے خونخوار پنجوں میں جکڑی ہوئی ہو، اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ وہ حالت کیسی ہو گی۔ ہماری رگ جان یعنی شہ رگ پاکستان (کشمیر) اس ظالم کے ہاتھوں میں سسک رہی ہے جو دنیا کے بدترین ظالموں میں شمار ہوتا ہے۔ چناروں کا دیس انگاروں میں جھلس رہا ہے۔ پنجہ ہنود جنت نظیر کو خون میں نہلا رہا ہے۔ ہندو ظالم کے ہاتھوں تار تار ہوتی عفت مآب دختر کشمیر نوحہ کناں ہے۔ خواب غفلت میں خوابیدہ ابن قاسم کی منتظر ہے، جانے کب وہ لمحہ آئے گا جب ہندو کے ہر ظلم کا حساب چکتا کیا جائے گا۔ کشمیری بیٹی اور بہن کے سر پر اترا ہوا آنچل دیا جائے گا۔ ننھے کشمیری بچے کے ابو جان بے خوف و خطر اس کے لئے اچھی اچھی کھانے کی چیزیں اور کھلونے لے کر آئیں گے۔ ماں اپنے لخت جگر کو آئے روز تڑپتا نہ دیکھے گی۔ بہن اپنے بھائی کا خون آلود لاشہ دیکھ کر بے ہوش نہ ہو گی، جس کی عزت کا محافظ کھو چکا اب کس آس اور سہارے دنیا کے کٹھن حالات کا سامنا کرے گی۔
قارئین کرام! مقبوضہ کشمیر میں یہ مناظر اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ہر روز سورج ایسی درد بھری داستانیں لے کر طلوع ہوتا ہے اور شب کا اندھیرا یہ اندوہناک لمحات لے کر آتا ہے۔ اگلے دن یہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے، جبر و تعدی اور ظلم و ستم کا یہ لامتناہی سلسلہ دائرے کی صورت جاری ہے جس کے ختم ہونے کی امید نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں ان مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی کے لئے پانچ فروری کا دن مختص ہے۔ ایک دن کشمیریوں کے نام کرنے سے اور قومی سطح پر چھٹی کرنے سے آیا ہمارا فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔ کیا ایک دن کی ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار سے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط بھارت کے ظلم و ستم کو روک لگے گی؟ یقیناًیہ اپنی جگہ ٹھیک ہے، اظہار ہمدردی اپنے بھائیوں سے ضرور ہونا چاہئے مگر صرف ایک رسمی اظہار تک سلسلہ محدود نہیں رہنا چاہئے۔ ایک دن کی قومی چھٹی کو صرف ریت (Formalty) کے طور پر مناکر ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہئے کہ ہم نے کشمیریوں کی آزادی کے لئے اور بھارت کے ظلم و استبداد کے خلاف اپنا فرض ادا کر لیا ہے۔ ظلم کی چکی میں برس ہا برس سے پستی بہن کو آزادی کی نعمت سے آشنا کرنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

عالمی فورم پر بھارت کی کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو باور کرانے کے لئے ہماری حکومتیں نہ ہونے کے برابر کردار ادا کرتی چلی آئی ہیں۔ معمول کی طرح ہر دور میں کشمیر کو حل طلب مسئلہ سمجھا ہی نہیں گیا۔ ایک رواج طور پر کشمیری کمیٹی تو ہر حکومت بناتی ہے جس کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔ اس کمیٹی کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ بھارت کے ریاستی گناہوں اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کو عالمی فورم اور دنیا کے سامنے بیان کرنے سے بھی حجاب اور جھجک سے کام لیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم جموں و کشمیر ہیومن رائٹس موومنٹ جو ہر سال بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں، عورتوں اور جوانوں کے اعدادوشمار بیان کرتی ہے۔ اسے نقل کرنے اور دہرانے کی ہمت اور توفیق بھی نہیں ہو پاتی، ہماری حکومتیں وہ ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بیان کرنے اور نشر کرنے سے کتراتی ہیں جن کو یہ ادارے بیان کر چکے ہوتے ہیں۔ اپنی شہ رگ اور رگ جان بچانے کے لئے انسان کیا کچھ کرتا ہے مگر ہم نے شاید قائد کے اس فرمان کو سمجھا ہی نہیں ہے یا من حیث القوم خود غرضی اور بے حمیتی اس قدر جاگزین ہو چکی ہے کہ اس حساس مسئلے پر اس قدر غافل ہیں۔

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ظلم بھری داستان عشروں نہیں نصف صدی تک بلکہ اس سے بھی زائد عرصے پر محیط ہے۔ عالمی حکمرانوں کو اگر حقوق انسانی کی رپورٹیں نظر نہیں آتیں، جا کر کہیں کشمیر کے ہسپتال دیکھ لیں۔ کشمیر کے ہسپتالوں میں دماغی امراض کے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے جنہیں بھارت کی چیرہ دستیوں نے ذہنی مریض بنا دیا ہے ایک طرف بھارت اپنے دہشت گرد دستوں کے ذریعے جنہیں جدید اسلحے سے لیس کر کے کشمیریوں کے سروں پر سوار کیا ہوا ہے تو دوسری طرف نہتے کشمیری اپنا سینہ تان کر ان کی بندوقوں اور رائفلوں کے سامنے جرأت سے کھڑے ہیں۔ دنیا کے نام نہاد عدل و انصاف کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ جڑ رہا ہے جنہیں کشمیر کے ظلم و ستم کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں عیسائیوں اور غیرمسلموں کے ساتھ ذرہ سے کھٹکے پر اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی منافقت اور دہرا معیار یقیناًاس احساس اور تاثر کو تقویت دے رہا ہے جس کے تحت مسلم برادری میں یہ شعور پایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے حق سلب کرنے اور ان پر ظلم کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لئے بنی ہے۔ اپنی ہی قراردادوں پر عشروں بیت جانے کے باوجود کچھ نہیں ہو سکا۔ بھارت نے حق خودارادیت کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ اگر مسئلہ عیسائیوں یا غیرمسلموں کی مسلم ممالک سے آزادی کا ہو تو اسے فوراً حل کر لیا جاتا ہے اور پل بھر میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مسلم ممالک کو توڑ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر امریکہ، یورپ سمیت دنیا بھر کے امن اور انصاف کے ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہے حقوق انسانی کو پامال کرے، کشمیریوں کے خون سے کھلواڑ کرے، کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے اس عمل میں اسے خاموش حمایت حاصل ہے۔

ہمیں اغیار سے خیر کی توقع نہیں رکھنا چاہئے۔ اس سلسلے میں خود آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہئے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو حکومتی سطح پر موثر انداز میں دنیا کے سامنے عیاں کیا جائے۔ یہ اصولی اور تسلیم شدہ استصواب رائے کا موقف دلانے کے لئے سفارتی اور ابلاغی سطح پر کوششیں کی جائیں۔ ریفرنڈم کشمیریوں کا وہ جائز اور بنیادی حق ہے جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہر کسی کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ نہ جانے اس اصولی موقف کو بھی دنیا کے سامنے بیان کرنے سے حکومت کس لئے گریزاں ہے۔ بھارت اپنے ناجائز قبضے کو عالمی سطح پر لابنگ کر کے جائز رکھا ہے اور ہم اس ظلم و ستم پر مبنی بھارتی کردار کو بھی بیان نہیں کرتے، شاید اس ڈر سے کہ بھارت کہیں ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

Post a Comment

0 Comments