کشمیریوں کی بھارت سے نفرت نقطہ عروج پر، مودی نوشتہ دیوارپڑھے، پاکستان آگے بڑھے.





























مقبوضہ کشمیر کے عوام اور قیادت نے ماہ فروری کی 9اور 11تاریخ کو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ 9فروری کا دن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تاریخ و تحریک آزادی کے باب میں ایک نیا اضافہ بن کر سامنے آیا ہے جب 2سال پہلے بھارت نے مقبوضہ وادی کے قصبہ پلہالن کے رہنے والے ڈاکٹر محمد افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکا کر ان کا جسد خاکی بھی وہیں تہاڑ کے بدنام زمانہ قید خانے میں دفن کر دیا تھا۔ محمد افضل گورو پر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا۔ بھارت اور دنیا بھر کے بے شمار قانون دانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے بار بار کہا تھا کہ محمد افضل گورو کو پھانسی دینا صریح ظلم ہو گا کیونکہ مقدمہ کی نہ تو شفاف تحقیق ہوئی ہے اور نہ کسی بھی لحاظ سے انصاف کے تقاضے ہی پورے ہوئے ہیں لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور اس نے افضل گورو کو پھانسی دیدی۔
اس پھانسی کے بعد کشمیریوں نے دنیا بھر میں احتجاج کیا کہ اس کھلے ظلم کے بعد کم از کم محمد افضل گورو کی لاش تو ان کے حوالے کی جائے تاکہ وہ اسے شرعی تقاضوں کے مطابق دفن کر سکیں لیکن بھارت نے 31سال پہلے شہید مقبول بٹ کے جسد خاکی کی طرح یہ جسد خاکی بھی کشمیریوں کے حوالے نہ کیا۔ یہ سفاکیت اور ظلم و دہشت گردی کی وہ انتہا ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے لیکن دنیا بھر میں اس پر نہ تو عالمی قوت زبان کھولنے کو تیار ہے اور نہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ادارہ یا انسانی حقوق کے نام پر بنی کوئی تنظیم۔ سو اب رہ سہ کر کشمیری قوم کے پاس ایک ہی ہتھیار بچ جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر اور اپنے پیاروں پر ہونے والے ظلم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لئے احتجاج کا راستہ اپنائیں۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے 9فروری اور پھر 11فروری کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان ہوا۔ ساری حریت قیادت اس پر یکسو تھی اور سبھی نے یک زبان ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ سنایا۔
بھارت نے حسب روایت ساری مقبوضہ وادی میں اپنی فورسز متعین کیں۔ ساری حریت قیادت بشمول 87سالہ سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور ان کے دیگر ساتھیوں سمیت سبھی کو یا تو بھاری پہرا بٹھا کر گھروں میں قید کر دیا یا انہیں تھانوں اور جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ کشمیری قوم نے اس سب کی ذرہ بھر پروا نہ کی اور کشمیری عوام میدان میں نکل آئے۔ جگہ جگہ مظاہرے ہوئے، پولیس اور فوج نے مار دھاڑ کی، ظلم و ستم گری کا بازار گرم ہوا، ڈنڈے برسائے گئے، کشمیریوں پر بے پناہ زہریلی گیسیں پھینکی گئیں جن سے سینکڑوں لوگ متاثر و معذور ہو گئے۔ افضل گورو کے قصبہ پلہالن میں بھارتی فورسز نے سر اور چہرے پر سیدھی گولیاں مار کر 17سالہ لڑکے فاروق احمد کو شہید کر ڈالا۔ اس کھلی دہشت گردی کے بعد اگلے روز یعنی 10فروری کو ایک بار پھر سارے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال اور احتجاج کا اعلان ہوا۔ شہید فاروق احمد کے جنازے میں شرکت سے روکنے کیلئے سخت سے سخت پہرے بٹھائے اور ناکے لگائے گئے لیکن پھر بھی ہزاروں کشمیری جنازہ کی ادائیگی کیلئے پلہالن پہنچ گئے۔ یہ دن بھرپور ہڑتال اور احتجاج میں گزرا تو اگلا روز کشمیریوں کے بابائے قوم شہید مقبول بٹ کے حوالے سے یوم مقبول تھا۔ اس روز بھی ہر طرف ہڑتال رہی، مظاہرے ہوئے، دنیا بھر میں کشمیریوں نے شہید مقبول بٹ کا جسد خاکی واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔
یاسین ملک نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت کی جبری غلامی کے خلاف کمربستہ ہے اور یہ احتجاج آزادی کی صبح طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔ یوم مقبول پر کشمیریوں نے مقبول منل مائسمہ سرینگر سے جو جلوس نکالا اس پر بھی بھارتی فورسز نے حملہ کر کے وہاں موجود کشمیری قائدین کو گرفتار کر لیا۔ اس روز بھی ساری وادی میں ہڑتال کے ساتھ مظاہرے ہوئے اور یوں یوم مقبول اپنے اختتام کو پہنچا۔ اسی روز پتہ چلا کہ بھارتی فورسز نے اپنی تحویل میں موجود ایک کشمیری نذیر احمد کو شہید کر دیا جس پر ایک بار پھر کپواڑہ میں مظاہرے اور ہڑتال شروع ہو گئی۔ یوں کپواڑہ جو مقبول بٹ کا بھی آبائی ضلع ہے میں 4دن تک نظام زندگی مسلسل مفلوج و معطل رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں گزرے گزشتہ اس ایک ہفتے نے ایک بار پھر ہر لحاظ سے یہ ثابت کر دیا کہ کشمیری قوم کسی صورت بھارت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں۔ وہ سارے سر کٹوانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن بھارتی غلامی انہیں قطعاً گوارا نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزرے ان چار ایام پر عالمی میڈیا میں کوئی تبصرہ نہیں ہوا بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے میں مست اور غرق پاکستانی میڈیا کو بھی کشمیری قوم اور ان کا یہ کئی روز کا تاریخی احتجاج اور بھارت کا بے پناہ ظلم ودہشت گردی نظر نہ آئے۔ اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کشمیری قوم خود کو بھارتی نہیں پاکستانی کہتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جب وہ اپنے حق کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستانی حکومت خاموش نظر آتی ہے۔
آخر پاکستانی حکومت اور سیاستدان اپنے میڈیا کو اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتے کہ وہ کشمیری قوم کے حق میں آواز بلند کرے۔ یوم مقبول پر پاکستانی حکومت، میڈیا اور سبھی جماعتوں کی خاموشی حیران کن امر ہے، جسے ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔ نریندر مودی نے تو حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی کشمیری قوم کو مکمل دبا کر ان کی آزادی کی جدوجہد مٹانے کا دعویٰ اور ارادہ کیا تھا لیکن وہ ناکام ہے۔ کشمیری قوم کو اپنے مؤقف سے ذرہ برابر پسپا کرنے میں وہ ناکام و نامراد ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کے اس سب سے بڑے قانونی مسئلہ کو اس انداز سے نہیں اٹھا رہا جس طرح اس کے اٹھانے کا حق ہے۔ کشمیری قوم کی قربانیاں اپنی مثال آپ ہیں جن پر تاریخ ہمیشہ فخر کرے گی۔ سو ہم بھی کہیں گے کہ بھارت نوشتہ دیوار پڑھے اور پاکستان فوری آگے بڑھے ورنہ نقصان دونوں کا اپنے اپنے لحاظ سے ہو گا۔
===== بھارت کا خطرناک کھیل اور تاپی گیس منصوبہ =====
گزشتہ ہفتے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کھل کر کہا کہ بھارت کنٹرول لائن پر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہو گا اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہو گا۔ انہوں نے کھل کر دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ افغانستان کے راستے دہشت گردی میں ملوث ہے، بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔
جب پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے کھل کر تمام باتیں کہہ دی گئی ہیں تو اب حکومت اور عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت کا محاسبہ کریں اور اس سے وہی سلوک روا رکھیں جس کا وہ حق دار ہے۔ جب تک ہم بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات نہیں کریں گے اور اسے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیں گے وہ باز نہیں آئے گا۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس سے سارے پڑوسی ملک سخت تنگ ہیں اور سبھی چاہتے ہیں کہ اس ملک کا وجود ہی مٹ جائے۔ بھارت کو اگر اس خطے میں کوئی ’’نتھ‘‘ ڈال سکتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے جس سے وہ لرزتا اور کانپتا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے بھارتی دہشت گردی اور پاکستان دشمنی مہم کے پول کھولے جانے کے بعد اب یہ لازم ہے کہ ہم اس کے ساتھ صاف اور واضح الفاظ میں اپنے معاملات طے کریں اور کسی مصلحت کا شکار نہ ہوں۔ یہاں تاجکستان سے افغانستان کے راستے پاکستان آنے والی گیس کے منصوبے کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں اب بھارت کو بھی شامل کر کے اس کا نام (TAPI) کر دیا گیا ہے۔
گیس ہمارے ملک کی بہت ہی بنیادی ضرورت ہے۔ تاجکستان کے راستے ہمیں سستی گیس مل سکتی ہے تو ہمیں اس منصوبے میں بھارت کو اس وقت تک قطعاً شامل نہیں کرنا چاہئے جب تک وہ ہمارے ساتھ بنیادی مسائل حل کر کے امن کے ساتھ رہنے کی کوئی عملی مشق نہیں کرتا۔ اگر ہم نے اسے بدترین دشمنانہ حال میں گیس کے منصوبے میں شامل کر لیا تو ہم بین الاقوامی سطح پر سخت تسلیم کردہ ایسی پابندیوں، اصولوں اور قوانین کے پابند ہو جائیں گے کہ جو ہمارے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ بھارت پاکستان سے زیادہ توانائی کی قلت کا شکار ہے اگر ہم اس گیس منصوبے کو بھی کشمیر، پانی سرکریک، سیاچن اور دہشت گردی جیسے مسائل کے ساتھ منسلک کر لیں تو ایک زبردست دباؤ پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ شاندار موقع ہے جس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے

Post a Comment

0 Comments