علی عمران شاہین کا خصوصی کالم "اہل وزیرستان کے درمیان"



علی عمران شاہین کا خصوصی کالم "اہل وزیرستان کے درمیان"

یہ بنوں ہے۔۔۔ پاکستان کا ایک ایسا ضلع جو گزشتہ کئی سال سے وطن عزیز میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے چند اضلاع میں سے ایک ہے۔ یہ ضلع شمالی و جنوبی وزیرستان کی طرف جانے کیلئے جو گزشتہ کئی سال سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے،مرکزی مقام بھی ہے۔ قدم قدم پر پرشکوہ اور وسیع مساجد رکھنے والے اس شہر میں بسنے والی لاکھوں خواتین میں سے شاید ہی کبھی کوئی بے پردہ خاتون دیکھنے کو ملے ۔بلکہ سر تاپا ٹوپی برقع میں ملبوس خواتین بھی اکا دکا ہی نظر آتی ہیں کیونکہ یہاں کے مرد ہی گھر سے باہر محنت و مشقت کی تمام ذمہ داریاں نبھاتے اور خواتین اپنے گھروں کو سنبھالتی ہیں۔ اس چھوٹے سے شہر کو گزشتہ کئی سال سے پاکستان کے دفاع میں دن رات لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلی لوگوں کی میزبانی کا بھی شرف حاصل ہے۔ دہشت گردی کے بے شمار واقعات اس شہر نے اپنے سینہ پر سہ کر ملک کے باقی حصوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہمیشہ قربانی دی ہے تو کبھی اف تک بھی نہیں کی۔اسلام کے ساتھ پاکستان سے محبت تو یہاں کے ہر فرد میں جیسے کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ گزشتہ سال جب ماہ جون میں شمالی وزیرستان میںآپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا تو جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان کے کئی لاکھ لوگوں کو اس شہر نے خوش آمدید کہا۔ یہاں کے لوگوں نے اپنے گھروں میں اہل وزیرستان کو جگہ دی۔

5 فروری کی رات یوم یکجہتی کشمیر کے پروگرام کے سلسلے میں بنوں پہنچا تو شہر سے تھوڑا ہی پہلے مستی کالا خیل میں جماعۃ الدعوۃ کے مرکز نے استقبال کیا۔ یہ وہی مرکز ہے جہاں سے اہل وزیرستان کی جماعۃ الدعوۃ اور اس کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے کئی مہینے بھرپور خدمت کی۔ سرفراز خاں یہاں کے سالہا سال سے مسؤل ہیں،بتانے لگے کہ ہمارا پروگرام 9 بجے شروع ہو جائے گا۔ بنوں تو مجھے بہت بار آنا ہوا لیکن 5فروری کے موقع پریہاں اس قدر منظم اور پرجوش یکجہتی کشمیر کارواں نے حیران کر دیا کہ اب تو یہاں جماعۃ الدعوۃ کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ پروگرام مکمل ہوا تو واپس جماعت کے مرکز میں آئے۔یہاں کارواں میں شریک ہونے والے اہل وزیرستان کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت شروع ہو گئی۔پاکستان پر فدا میران شاہ اور وانا کے رہنے والے ان قبائلیوں نے بتانا شروع کیا کہ ہم نے تو پاکستان کے بچانے کے لئے سب کچھ قربان کر دیا۔ ہم جب یہاں پہنچے تو جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ تعارف ہوا، ہم بے گھر تھے، سر چھپانے کیلئے مارے مارے پھر رہے تھے۔

جماعۃ الدعوۃ حسب مقدور ہماری مدد کر رہی تھی کہ سر پر عیدالفطر آ گئی۔ سوچتے تھے کہ ہم بڑے تو گزارہ کر لیں گے لیکن ننھے بچوں کیلئے کپڑے، کھلونے کہاں سے آئیں گے؟ انہیں کیسے بہلائیں گے؟ ایک فکر تھی۔۔۔ ایک کسک تھی۔۔۔ ایک اَن دیکھا درد تھا، اچانک پتہ چلا کہ جماعۃ الدعوۃ کے لوگ ہزاروں بچوں کیلئے کپڑے اور کھلونے لے کر بنوں آ گئے ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار خود ہمارے پاس آ کر نئے کپڑے، کھلونے، چوڑیاں اور مہندی تقسیم کر رہے تھے اور ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ کوئی آسمانی فرشتوں کی مخلوق ہے جو ہماری عید کی وہ خوشیاں ہمیں دینے آئی ہے جن کا ہم بس سوچ ہی سکتے تھے۔نماز عید کے بعد ایک لاکھ لوگوں کے لئے کھانے کاخصوصی اہتمام تھا۔ اب اندازہ ہوا کہ یکجہتی کشمیر کارواں میں تو سب سے زیادہ یہی اہل وزیرستان شریک تھے جو کہہ رہے تھے کہ ہمارا جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ پہلی بار تعارف ہوا لیکن ہماری اور ہم جیسے دیگر وزیری قبائل کے لوگوں کی محبتیں تو اب آپ کے ساتھ وابستہ ہیں جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھاما۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔تھوڑی دیر بعد بنوں شہر سے متصل شمالی وزیرستان کی حدود میں قائم ان آئی ڈی پیز کے اس وسیع و عریض کیمپ میں پہنچے جس کا انتظام و انصرام پاک فوج نے سنبھال رکھا ہے۔ یہاں شمالی وزیرستان کے ہزاروں خاندان مقیم ہیں۔ ان سب کے تمام تر انتظامات پاک فوج نے سنبھال رکھے ہیں۔ یہاں بجلی، پانی کے ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی انتظام موجود ہے۔ ایک طرف تاحد نگاہ پھیلی باپردہ بستی ہے تو دوسری طرف ایک بڑی لیکن انتہائی منظم پارکنگ ہے جہاں ان لوگوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سلیقے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی حفاظت کے لئے پاک فوج کا پہرہ ہے تو ساتھ ہی اطمینان کے ساتھ لوگ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاک فوج ان کی میزبان بھی ہے اور محافظ بھی۔۔۔ ملک کیلئے قربانی پیش کرتے اہل وزیرستان کیلئے پاک فوج کی جانب سے ایسا انتظام و انصرام دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور دل سے دعائیں بھی نکلیں کہ اللہ ان کی قربانی قبول کر کے ملک کو امن و سکون عطا کر دے۔یہاں سے نکلے تو اگلی منزل بنوں کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان تھا۔ 

یہ شہر بھی عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ یہ ملک کا وہ واحد شہر ہے جہاں کئی سال موبائل فون اور موٹرسائیکل چلانے پر بھی پابندی عائد رہی۔ اس شہر نے بھی اہل وزیرستان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کر رکھے ہیں۔ یہاں بھی اہل وزیرستان کی بڑی تعداد پناہ گزین ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے رفاہی کام کا دوسرا بڑا مرکز اسی شہر میں تھا جہاں دن رات جماعۃ الدعوۃ کے کارکن مصروف خدمت رہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے مرکز میں نماز جمعہ کیلئے انہی اہل وزیرستان کی بھی بڑی تعداد تشریف لاتی ہے۔جماعۃ الدعوۃ کسی بھی قومی یا بین الاقوامی مسئلے پر جب بھی دفاع اسلام و پاکستان کے سلسلے میں انہیں آواز دے،یہ لوگ جماعۃ الدعوۃ کی محبت میں سارے کام کاج چھوڑ کر دوڑے چلے آتے ہیں ۔یہاں عرصہ چار سال سے جماعت کی زونل مسؤلیت کی ذمہ داریاں برادرم عتیق الرحمن چوہان نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد شہر میں جماعت کے بڑے مرکز کے قیام کی کوششیں شروع کیں۔ پھر شہر کے عین وسط میں اہم ترین مقام و شاہراہ پر مرکز عبداللہ بن مسعودؓ کے نام سے جماعتی مرکز قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آج اس مرکز کی رونقیں اور دعوت دین کی بہاریں قابل دید ہیں۔ اس کا عملی نظارہ مجھے اپنے خطبہ جمعہ میں بھی خوب دیکھنے کو ملا۔شہر کے معززین ہوں یا میڈیا، قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین ہوں یا کارکنان، ان کی ایک کال پر کھنچے چلے آتے ہیں۔

نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو سے آراستہ و پیراستہ عتیق الرحمن چوہان آغاز سے ہی جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں جماعۃ الدعوۃ کے مشن دعوت و جہاد کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہیں جن کے گھر کے دروازے ہمیشہ جماعت کی قیادت و کارکنان کیلئے کھلے رہے اور آج بھی کھلے ہیں۔ انہوں نے ہی آبائی علاقے ہری پور شہر میں ہزارہ ڈویژن کا پہلا جماعتی دفتر قائم بھی کیا اور پھر یہاں جماعتی نشاطات کا سفر شروع ہوا۔ زبان و بیان کے دھنی اور جماعتی مشن و منہج پر دل و جاں سے فدا عتیق الرحمن چوہان کلمہ حق کہنے میں کبھی کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے ۔ امیر جماعت نے انہیں جب اور جہاں کام کی ذمہ داری سونپی انہوں نے بھی ساری جماعت کی طرح بلاچون و چرا اسے قبول کر کے اطاعت کا نمونہ بن کر دکھایا۔ 

چند روز پہلے انہوں نے اہل علاقہ کی آواز بنتے ہوئے ’’گوادر تا کاشغر اکنامک کاریڈور‘‘ کی مجوزہ تبدیلی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی توڈیرہ اسماعیل خان کے قائدین کھنچے چلے آئے اور پھر ان کی آواز حکومتی ایوانوں میں پہنچی تو خبر آئی کہ مطالبہ تسلیم ہو چکا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کے شور کوٹ روڈ پر احباب جمیل خان سدوزئی،سیف الرحمن سدوزئی اور شاہ زمان (منا) نے درس قرآن کا اہتمام اورخصوصی طور پرشکار کردہ جنگلی پرندوں کی ضیافت کر کے جن محبتوں کا اظہار کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔کل ہی خبر ملی، پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ مارچ سے شمالی وزیرستان کے لوگوں کی واپسی شروع ہو جائے گی کیونکہ تقریباً سارا ہی علاقہ اب کلیئر ہو چکا ہے۔دہشت گرد مارے جا چکے ہیں یا تتر بتر ہو چکے ہیں۔ اہل وزیر ستان کے ساتھ محبتوں کا جوسفر شروع ہوااب اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا اور اہل وزیرستان ایک بار پھر پاکستان کے لئے قربانی دے کر اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دے چکے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments