ابو حماد کا خصوصی کالم "ہم ہیں پاسبان حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم "


محبت انتہائی قابل توقیر اور لائق تکریم جذبات و احساسات کا نام ہے مگر محبت کے انتہائی منزہ، مطہر اور مقدس زینے پر وہی دل جلوہ افروز ہوتا ہے جس کا گوشہ گوشہ نبیﷺ کی محبت سے دمکتا ہے۔ آپ دنیا کی عظیم المرتبت شخصیات اور ان کے عقیدت مندوں کو دیکھ لیجئے۔ اتنی بے کراں محبتیں کسی بھی شخصیت کے حصے میں نہیں آئیں جتنی محمد عربیﷺ سے مسلمان کرتے ہیں، اتنی بے پایاں عقیدتیں اور اس قدر بے بہا اطاعتیں دنیا کے کسی اور انسان کے لئے دلوں میں نہیں جگمگاتیں۔ صدیاں بیت چلیں، کتنے ہی ماہ و سال افق کے اس پار ڈوب چلے، محبت اور الفت کی اس نزہت اور تقدیس میں بال برابر فرق نہ آیا۔ جو بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ نبیﷺ کے ساتھ ایک مستحکم پیمان وفا میں خودبخود بندھ جاتا ہے اور یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ عقیدتوں کے اتنے گراں مایہ رشتے خودبخود کس طرح دلوں میں موجزن ہو جاتے ہیں کہ کائنات کے اس سب سے عظیم انسان کی توہین، استہزاء اور تضحیک دلوں کو چیر ڈالتی ہے۔

کسی بھی مسلمان کی آنکھیں کسی بھی گستاخ رسولﷺ کو زندہ دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ جو بھی نبی مکرمﷺ کی تضحیک کرتا ہے، کروڑوں انسانوں کے دل کملا جاتے ہیں، عقیدتوں کا یہ بحر بے کراں دیکھ کر یہود و نصاریٰ حسد کی بھٹی میں بھن جاتے ہیں، نبی مکرمﷺ کے ساتھ اس قدر والہانہ چاہتوں پر کفار کے دلوں میں عناد و فساد صدیوں سے پھن پھیلائے پھنکار رہا ہے۔ شاید وہ مادہ پرست لوگ غلط فہمیوں کے اس اندھیرے میں سرگرداں ہیں کہ جذبات و احساسات پر قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں۔ ممکن ہے ان کے دلوں پر یہ پردہ پڑ گیا ہو کہ چاہتوں اور عقیدتوں کو پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ خیالات کو بیڑیاں پہنا دی جائیں۔ یقیناًجسموں کو زنجیر بہ پا کیا جا سکتا ہے، انسان کے وجود کو دہشت گرد قرار دے کر اسے آگ اور فاسفورس میں بھونا جا سکتا ہے مگر کسی کے دل میں موجود محبت کو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے کسی ایک مسلمان کے دل سے بھی رحمۃ للعالمینﷺ کی محبت کو کم نہیں کیا جا سکتا، اگر ہم اپنی ذات سے نبیﷺ کو جدا کر دیں تو اللہ کی قسم ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔
مجھے حیرت ہے کہ میرے پاس باقی کچھ نہیں رہتا
میں اپنی ذات سے جب بھی تمہیں تفریق کرتا ہوں

وہ 2005ء تھا جب یورپ کے ایک ملک ڈنمارک نے دنیا کی سب سے اعلیٰ و ارفع شخصیت کے خاکے شائع کروانے کا مقابلہ شروع کیا، دنیا کے ہر مسلمان کے سینے میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی، 30 ستمبر 2005ء کو اخبار جیلنڈ رپوسٹن نے نبیﷺ کے بارہ خاکے شائع کئے اور پھر کئی یورپی ملکوں نے ڈنمارک سے اظہار یکجہتی کے لئے ان خاکوں کو شائع کیا۔
فرانس کے صدر فرانسو اولاند نے کہا کہ فرانس پر ابھی شدت پسندی کا خطرہ کم نہیں ہوا۔ شدت پسندی کی آگ خود بھڑکانے والے یہ یورپی ممالک کس منہ سے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ جب کروڑوں جانوں سے بڑھ کر چاہے جانے والے نبیﷺ کے خاکے بنائے جائیں گے، جب امریکی پادری قرآن مقدس کو نذر آتش کریں گے، جب مساجد کو شہید کیا جائے گا تو پھر شدت پسندی کم ہو گی یا زیادہ :
اہل دل کے دلوں کی ہیں تسکین آپؐ
اہل ایماں کا سارا جہاں آپؐ ہیں

اسی ہفتے بدھا دہشت گردوں نے ایک مدرسے پر حملہ کر کے قرآن پاک کے چالیس حفاظ کرام نوجوانوں کو زندہ جلا دیا۔ سویڈن میں جا کر دیکھ لو، دو مساجد شہید اور پانچ مسلمان زندہ جلا دیئے گئے، کیا یہ دہشت گردی ہے یا نہیں؟ وہ مغرب ہو یا امریکا اور یورپ، انہیں ذرا توقف کر کے اس پہلو پر سوچنا ہو گا کہ تہذیب اور تعلیم کے سانچوں میں ڈھلے قلوب و اذہان یوں پیغمبروں کی شان اقدس پر یاوہ گوئی نہیں کیا کرتے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کرتاکہ ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کے ارمانوں اور محبتوں کا یوں خون کر دیا جائے۔ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو اس قدر سرکشی اور بغاوت پر نہیں اترنا چاہئے کہ محترم المقام شخصیتوں ہی کو ہدف بنا لیں۔ اگر یہود و نصاریٰ محبتوں کے اس توانا ایمانی رشتے کو اپاہج کر دینے کے لئے یہ سب پاپڑ بیل رہے ہیں، اگر وہ یہی چاہتے ہیں کہ عقیدتوں کے اس انوکھے رشتے میں دراڑیں ڈال کر مسلمانوں کو ان کے نبیﷺ کی محبت کے معطر حصار سے باہر نکال لیں گے، تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں، اظہار رائے کی ایسی تخریبی آزادیاں زہریلی نفرتوں کو جنم دیا کرتی ہیں۔ جب کسی کی محبتوں کے محور و مرکز کے خاکے بنا کر تضحیک کی جائے گی تو پھر امن و امان کس طرح قائم رکھا جا سکتا ہے۔

مسلمان ظلم کی ہر بھیانک صنف برداشت کر سکتا ہے مگر نبی آخر الزماںﷺ کی ذات مقدس کی توہین ہماری روحوں کو لرزا جاتی ہے، جب نبی رحمتﷺ کی شان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ہمیں اپنی زندگیوں کے ماہ و سال بے معنی، بے رنگ اور بدذائقہ دکھائی دیتے ہیں، پھر جدید یورپی تہذیب کی گود میں بیٹھ کر اپنی زندگی گزارنے والے مسلمان بھی وہ کام کر جاتے ہیں، جس کا تصور ہی محال ہے۔ یورپی مسلمانوں کی اس کارروائی سے ثابت ہو گیا کہ اب دنیا میں قیام امن کی دوہی صورتیں ہیں: یا تو تم محمدﷺ اور قرآن مجید کی توہین سے باز آ جاؤ یا پھر ساری دنیا کے کلمہ پڑھنے والے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر آگ میں بھون ڈالو، مگر یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جب تک دنیا میں ایک مسلمان بھی زندہ ہے وہ یہ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ محمد عربیﷺ کی ذات کی خفیف سی بھی توہین کی جائے، ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم ہیں پاسبان حرمت رسولؐ۔

Post a Comment

0 Comments