حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "تکفیری چھاج اور چھلنی"

























حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "تکفیری چھاج اور چھلنی" 

یہ بات کسی تجریدی آرٹ کے ایسے فن پارے کی مانند ہرگز نہیں ہے جسے سمجھنے کے لئے کسی خاص فن کا ماہر اور آشنا ہونا ضروری ہو۔ امت مسلمہ میں باہم مودت اور محبت پیدا کرنے کے لئے عین نبویؐ منہج سے عبارت یہ موقف شاعری کی مختلف بحور اور علم عروض کی طرح پیچیدہ بھی نہیں ہے کہ جس کے شناوروں کو طبع آزمائی کے لئے مخصوص قواعد و ضوابط کا سیکھنا ناگزیر ہو۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ ’’دین آسان ہے‘‘ سو یہ بڑی ہی سادہ اور عام فہم بات ہے، اگر اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کی مختلف رنگوں پر مشتمل بھیانک عینکوں کو اتار کر تحمل اور بردباری کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے اور خود کو مسلمان کہلواتا ہے تو اسے اسلام سے خارج کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور کیوں کھپایا جاتا ہے۔

اللہ رب العزت نے ہمیں لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کا فریضہ سونپا ہے، نہ کہ اسلام میں داخل لوگوں کو دھکے دے دے کر باہر نکالنے کا، عقائد میں لغزش ہو سکتی ہے، نظریات میں ٹھوکریں کھائی جا سکتی ہیں، ایمان و ایقان کی کیفیت اور حالت میں کمی اور کجی در اندازی کر سکتی ہے لیکن اگر کوئی شخص ان اعمال شنیع کے باوجود کلمہ پڑھتا ہے تو اسے نہ قتل کیا جا سکتا ہے نہ اس پر کفر کے فتوے عائد کر کے دائرۂ اسلام سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے دعوت و تبلیغ ہی کو شعار بنانا اسلام کا تقاضا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ زندگی کے کسی بھی لمحے اور موڑ پر ان کی طرف سے مایوس ہو کر ان کی زندگیوں کو چھین لینے کی اجازت اسلام کسی کو بھی نہیں دیتا، اس کلمے نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی جان کا تحفظ کیا، حالانکہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ سب جانتے تھے کہ یہ منافق ہے مگر چونکہ وہ کلمہ بھی پڑھتا تھا۔ اس لئے اسے قتل نہ کیا گیا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ حضرت محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں، جب عبداللہ بن ابی جیسے منافق شخص کی جان نہ لی گئی تو پاکستان میں کلمہ گو افراد کو قتل کرنے کا کیا جواز ہے؟

اگر تکفیر کے چھاج اور چھلنی میں دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کی چھان پھٹک کر کے چھاننا شروع کر دیا جائے تو صرف چند لوگ ہی باقی رہ جائیں گے۔ پھر باقی مسلمانوں کا کیا کیا جائے، کیا انہیں چھان بورا سمجھ کر ان پر کفر کے فتوے عائد کر کے انہیں دائرۂ اسلام سے باہر کھڑا کر دیا جائے۔ دل فگار المیہ یہ ہے کہ بات تو یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ تکفیری فتووں کے بانی اور موجد اپنے دانتوں کو کٹکٹاتے ہوئے اس شخص کا خون چوسنے کے درپے ہو جاتے ہیں جو ان کے ذہن رسا میں موجود ایمان کے سانچے میں فٹ نہیں آتا۔ تکفیری فتووں کے قائل اور مائل ملاؤں کو اس کرۂ ارض پر ظلم کی ہر صنف آزماتے یہود و نصاریٰ تو دکھائی نہیں دیتے مگر انہیں کلمہ گو مسلمانوں کو قتل کر کے ایسا کیف اور سکون ملتا ہے کہ وہ خود کو بھی بم دھماکے سے اڑا لیتے ہیں۔ 

جو بھی شخص اس نوع کے باطل عقائد اپنے دل میں پال پوس کر ہٹا کٹا کئے بیٹھا ہے اسے خوب اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ یہ نظریات حقیقت میں آگ اور خون کے ایسے کھیلوں کوا نگیخت دیتے ہیں جن کا ایندھن دوسروں کو بنانے کے بعد وہ خود کو بھی جھلسا لیتا ہے، تکفیری فتووں کی فیکٹریوں کے یہ جنرل منیجرز اپنے تفکر و تدبر کی نگرانی اور نظرثانی کرنے کی بھی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کرتے ان کے نزدیک ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ یہ ہے کہ ہر مسلمان ان کے اپنے نظریات اور عقائد کے ترازو کے مطابق پورا اترتا ہو بصورت دیگر اسے مسلمان کہلوانے اور اس کرۂ ارض پر زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کچھ لوگ ضرور لاشعوری طور پر اس فتنے کا حصہ بنتے ہیں مگر ان کی قیادت عالم کفر کے دیئے گئے ہوم ورک کے مطابق اپنے پر اور جال پھیلاتی ہے، کیا یہ لوگ بصارت و بصیرت سے اتنے عاری ہیں کہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے؟

کیا ان کی آنکھوں میں اس قدر دھندلکے اتر آئے ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ نبی مکرمﷺ کا فرمان ہے کہ ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘۔ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع ایمان کے لمس سے آشنا کہنے والے یہ لوگ کیا اس حقیقت سے بھی نابلد ہیں کہ اللہ رب العزت مہربان ہیں اور مہربانی کرنے والے کو پسند فرماتے ہیں؟ کیا یہ وحشی دل لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ اسلام نے ازراہ تفنن بھی کسی مسلمان کی طرف ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے پھر یہ کس قدر اخلاق باختگی ہے کہ کسی بھی کلمہ پڑھنے والے شخص کو آگ اور بارود میں بھون دیا جائے۔ صحیح بخاری جلد نمبر 1 میں نبیﷺ کا فرمان ہے کہ ایسے لوگ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ آج آپ انسانی کھال میں ملبوس ان درندوں کو دیکھ لیجئے یہ اپنے باطل عقائد کے تحت خود کو مومن اور باقی سب کو کافر کہہ کر قتل و غارت گری کرنے میں مصروف ہیں، ان کے لہجوں کا خروش، ان کے جذبات کا جوش اور آواز کا طنطنہ سب کا رخ یہود و نصاریٰ کے بجائے مسلمانوں کی طرف ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج اور بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی طرف دھیان دیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے مگر ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن پاک فوج کے خلاف یہ اعلان جنگ کر کے عالم کفر کا دل خوش کر رہے ہیں۔ ان کے رگ و ریشے اور تاروپود میں یہ عفونت اور خرافات اس حد تک سرایت کر چکی ہیں کہ یہ معصوم بچوں کو بھی سفاکیت کے ساتھ قتل کرنے سے نہیں چوکتے، فتنہ تکفیر کے یہ جتھے جہاں بھی موجود ہوں گے وہیں امن و سلامتی کو تلپٹ کر کے رکھ دیں گے۔ 

تفسیر ابن کثیر میں سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 175 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’یہ لوگ مسلمانوں پر شرک کا الزام لگا کر انہیں قتل کریں گے‘‘۔ کیا کسی ایک لمحے کے لئے بھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال نہیں کوندا کہ جب یہ کسی مسلمان کو کافر کہیں گے تو جسے کافر کہا جا رہا ہے وہ انہیں مومن اور موحد کے لقب سے تو نہیں پکارے گا، یقیناًایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی مسلمان کو کافر کہیں اور وہ جواب میں آپ کو معزز و مکرم راسخ العقیدہ مسلمان کے نام سے یاد کرے۔ آپ کسی بھی مسلمان کی طرف بھونڈے الفاظ کی یورشیں کریں گے تو ردعمل اتنا ہی شدید ہو گا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’ایسے لوگ اس حد تک عبادت گزار ہوں گے کہ تم ا پنی عبادتوں کو حقیر جانو گے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اگر میں انہیں پاتا تو قوم عاد و ثمود کی طرح قتل کر دیتا‘‘۔ اس کا واضح اور دو ٹوک معنی یہ ہوئے کہ شب گزیدہ متعفن راہوں پر چلنے والے ایسے فتنہ سازوں کی عبادت اور ٹخنوں سے اوپر شلواریں چلتر بازی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔

Post a Comment

0 Comments