حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "کیا تم واقعی بھول گئے ہو؟"


بھول گئے تم ان درد میں ملفوف شب و روز کو کہ جب لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں آہیں اور سسکیاں گھل گئی تھیں؟ کتنے حرماں نصیب لوگ زخم اوڑھ کر سونے لگے تھے؟ کتنی مائیں بہنیں زخموں کی چادر تانے بیٹھی تھیں اور کتنے ہی بزرگوں کے ناتواں وجود کو حالات کے تازیانے نوچ نوچ کر کھائے جا رہے تھے؟ ایسے دل گیر حالات میں ان گنت لوگوں کے درد کا درماں کرنے اور ان پر خار لمحات کو پر بہار بنانے کے لئے یہ نوجوان کسی اکسیر اعظم کی مانند نکل آئے، کتنی ہی ماؤں کے کرب اندھیروں کی طرح ان کی رگوں میں دوڑنے لگے تھے، مگر آفرین ہے ان نوجوانوں پر جنہوں نے جھلملاتی کہکشانوں کی طرح ان درد کے مارے لوگوں کی زندگیوں سے تمام تیرگیاں سینت لی تھیں۔ کیا تمہیں وہ دل آزار موسم بھول گئے ہیں جب ہزاروں مائیں بہنیں بے گھر اور بے در ہوئی آہ و زاریاں کر رہی تھیں؟ کیا تھر کے صحرا میں بھوک سے بلکتے بچوں کے آنسوؤں کو تم فراموش کر بیٹھے ہو؟ کیا تمہیں چنگھاڑتے اور پھنکارتے سیلاب کی تباہی اور ہلاکت خیزی یاد نہیں رہی؟ کیا تم ان دلوں کو چھیدنے والے زلزلے کی قیامت صغریٰ کو یکسر فراموش کر بیٹھے ہو کہ ان آفت زدہ حالات میں ان نوجوانوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ان ستم رسیدہ لوگوں کی جانیں بچائیں؟ ایمانی جذبوں سے سرشار نوجوان کبھی کشتیوں کو لے آئے تو کبھی خود سیلابی ریلوں میں کود کر تیرتے ہوئے ان سسکیوں تک پہنچے جنہیں سیلاب بہائے لئے جا رہا تھا، کیا تم واقعی بھول گئے ہو کہ کتنی ننھی ننھی جانوں کو طوفانی موجوں سے یہی نوجوان نکال کر لائے تھے۔

تم ذرا رات کے کسی پہر، ریشمی نرم گداز کمبل میں لپٹ کر ضرور سوچنا کہ تم نے ان نوجوانوں کو کتنی تنخواہیں دیں؟ان کی کتنی پذیرائی کی؟ تم نے کون کون سے میڈلز سے انہیں نوازا؟ تم ذرا کروٹیں بدل بدل کر یہ غور کرنا کہ انہوں نے تم سے کتنے چندے مانگے؟ یہ تمہارے سامنے کب کشکول لے کر آئے؟ البتہ انہوں نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے در در پر دستک ضرور دی، انہوں نے لوگوں سے پائی پائی جمع کی اور پھر اپنے آرام و سکون کو تج کر حالات کے مارے لوگوں کی مدد کے لئے پہنچے۔ راحتوں سے مزین ساعتیں سب کو بھلی لگتی ہیں، اپنے اپنے گھروں میں سکون کی نیند ان نوجوانوں کو بھی مرغوب ہے مگر اپنے اللہ کی رضا کے لئے انہوں نے اپنے دن کا چین اور رات کی نیند کو قربان کیا۔ اتنے اجلے اور تابندہ کردار کے دھنی لوگوں کو دہشت گرد کہہ کر پابندیوں کی بات کرتے ہوئے تمہارے ضمیر پر خفیف سی خراش بھی نہ آئی؟ کیا ملامت کا کوئی رتی بھر احساس بھی تمہارے دل میں بیدار نہ ہوا؟ پاکستانی وزارت خارجہ اور داخلہ بھارتی سازشوں اور بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے سے اس طرح گھونگٹ نکال کر کب تک بیٹھی رہیں گی؟ اس کے مطالبات کبھی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔

پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کی زبانیں قینچی کی طرح چل رہی ہیں مگر پاکستانی وزارت عظمیٰ کے دل و دماغ پر ایسی کہر اور دھند چھائی ہے کہ انہوں نے محض بھارتی پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر ان لوگوں پر قدغنیں عائد کی ہیں کہ جو اپنا تن من دھن اسلام، پاکستان اور ملت اسلامیہ پر نچھاور کرنے کا عہد و پیماں کر چکے ہیں۔ جاؤ! جا کر تھر کے لوگوں سے پوچھ لو کہ ان کے لئے ہزاروں راشن کے پیکٹ، سینکڑوں ملبوسات کس نے تقسیم کئے؟ بھوک سے مرتے تھر کے باسیوں سے سوال کرو کہ ابھی اسی مہینے چالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم سے 29 واٹر پروجیکٹ کس نے شروع کئے؟ سیلاب کے مارے بچوں اور عورتوں سے پوچھ کر تو دیکھو کہ عید پر سوا دو کروڑ روپے کی رقم سے کس نے انہیں عید کی خوشیاں تقسیم کیں؟ سیلاب کی تباہ کاریوں کے ستائے لوگوں سے دریافت کرو کہ اڑھائی لاکھ سیلاب متاثرین کو کھانا کس نے کھلایا؟ سیلاب کی طوفانی موجوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا 5528 افراد کو جماعۃ الدعوۃ کے نوجوان باہر نکال کر لائے، ان سے پوچھو کہ یہ جماعت دہشت گرد ہے یا امن کی داعی؟ جماعۃ الدعوۃ پر پابندیوں کی خبریں نشر کر کے بھارت میں جشن کا سماں پیدا کرنے والو! تم کس دشمن کی راج دلاری کر رہے ہو؟ تم کس موذی کو دودھ پلا کر جوان کرنے میں لگے ہو؟ یہ وہی بھارت ہے جس نے عید کے تینوں دن سیالکوٹ، نارووال ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر اندھا دھند فائرنگ کر کے گیارہ پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔ 40 ہزار لوگ بھارتی سفاکیت کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے اور سینکڑوں مویشی ہلاک ہو گئے، تم اس بھارت کی دلداری کرنے پر لگے ہو جس نے واہگہ بارڈر پر خود کش حملہ کروا کر 59 پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا، بھارت واہگہ بارڈر پر آگ اور خون کی ہولی کھیل رہا تھا اس وقت برق رفتار ریسکیو آپریشن کس نے کیا؟ تم بھارتی نیوز چینلز کو دیکھ لو، پاکستان کو مطعون کرنے اور طرح طرح کے طومار باندھنے کے علاوہ کوئی خبر نہیں ملے گی۔

بھارت ہمارے انگ انگ میں چھرا گھونپ رہا ہے مگر حکومت پاکستان اس پر صدقے واری جا رہی ہے، دشمنوں کی پذیرائی اور دل نوازی اور دوستوں اور محسنوں کی سرکوبی کرنا اہل ایمان، اہل وفا اور حب الوطنی کے دعویدارں کو تو زیب نہیں دیتا۔ ظالمو! بتاؤ تو سہی، کوئی ایک مثال پیش تو کرو کہ جماعۃ الدعوۃ نے کب اور کہاں دہشت گردی کی ہے۔ 796096 مربع کلو میٹر رقبے پر محیط اس پاکستان کے کسی ایک انچ رقبے پر بھی آپ کو جماعۃ الدعوۃ کی دہشت گردی کی کوئی علامت یا نشان تک نہیں ملے گا۔ یہ ملک تو ہماری جان ہے، اس سے محبت ہمارا ایمان ہے اور اس پر کٹ مرنا ہماری شان ہے۔

بھارتی زلفوں کے اسیر لوگو! تم بھارت کے جتنے بھی پاؤں دھو دھو کر پی لو، وہ کبھی تم سے خوش نہیں ہو گا، تم جس قدر بھی اس کے ہاتھ پاؤں داب کر اس کی خدمتیں کر لو وہ کبھی راضی نہیں ہو گا، تم صبح شام اس کے بدن پر مالش اور مساج کر لو تب بھی وہ تم سے دل نہیں ملائے گا۔ تم اس کے بالوں میں کنگھی کر لو، اس کی آنکھوں میں کاجل لگا دو، اس کے مطالبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ تم اس کی جتنی بھی نازبرداری کر لو، تم اس کے منہ میں میٹھے میٹھے رسیلے آم چوپنے کے لئے دے دو وہ آگ، بارود اور گولیاں ہی برسائے گا۔۔۔ ماضی بھی اس بات کا گواہ ہے، حال بھی شاہد ہے اور اگر تم بھارتی فریب سے باہر نہ آئے تو مستقبل میں بھی بھارت کا بھیانک روپ دیکھ لینا، بھارت عیاری اور مکاری کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔

Post a Comment

0 Comments