حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "کردار کے پھولوں کی پنکھڑیاں"
























حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "کردار کے پھولوں کی پنکھڑیاں"
آبرو یافتہ کردار کی مہک کو زنجیر بپا نہیں کیا جا سکتا، کردار کی خوشبو کو نہ پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے، نہ بیڑیاں پہنائی جا سکتی ہیں، انسانی کردار اگر سنت رسولﷺ کے حسن و جمال سے مزین اور مرتب ہو تو اس کی پرکیف اور نشاط انگیز لپٹ دل و دماغ کو معطر ضرور کرتی ہے، حسن کردار کے علاوہ یہ اعزاز کسی اور شے کو حاصل نہیں جو دلوں میں جاگزیں ہو کر ان پر حکومت کرے۔ آپ اوراق گزشتہ کو کھنگال لیجئے، کردار کے دھنی لوگ ہی انسانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے دکھائی دیں گے۔ آپ محمد بن قاسمؒ کی تاریخ پڑھ لیں، سندھ کو فتح کرنے کے بعد وہ تین برسوں تک یہاں رہے، ان تین برسوں میں محمد بن قاسمؒ نے اپنے حسن کردار اور حسن عمل سے اہل سندھ کو اس قدر اپنا فریفتہ اور گرویدہ بنا لیا کہ جب وہ واپس عراق جانے لگے تو لوگوں کے دل غموں سے لد گئے، ہزاروں لوگوں کے دلوں میں محمد بن قاسمؒ کی جدائی کے متعلق سوچ سوچ کر اضطراب اور بے کلی مچ گئی، لاریب اگر آپ لوگوں کے دلوں اور آنکھوں میں بسنے کے متمنی ہیں تو اپنے کی شبیہ کو وجیہ بنانا انتہائی ناگزیر ہے۔

آپ وادی نجران سے پوچھ لیں کہ اس کے تمام باشندوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب کیوں بنا لیا تھا؟ تاریخ کا ورق ورق گواہی دے گا کہ یہ خالد بن ولیدؓ کے کردار کی تمکنت تھی جس نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا، آپ جو کی روٹی زیتون کے تیل سے تناول فرمانے والے عظیم فاتح اور خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے کردار کی سادگی اور عاجزی سے شاداب کردار کو ملاحظہ کر لیں کہ آپ فرماتے کہ جب اسلامی سلطنت میں ہر کسی کو گندم کی روٹی میسر نہیں تو عمرؓ بھی گندم کی روٹی نہیں کھائے گا۔ عجز و انکسار کا یہ نیر تاباں جب یروشلم میں داخل ہوا تو خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوجود اونٹ کی مہار پکڑ رکھی تھی جبکہ غلام اونٹ پر سوار تھا، فاتح شام اور روم کا یہ کردار دیکھ کر راہبوں کے دل بھی تڑپ اٹھے اور کتنے ہی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلام ہی ایسا دین ہے جو امن و سلامتی اور عدل و انصاف مہیا کرتا ہے، چشم فلک نے مسلمانوں کے اس عظیم فاتح کو پیوند لگے کپڑوں میں چٹائی پر بیٹھے ہوئے متعدد بار دیکھا۔

ساری انسانیت کے لئے سراپا رحمت بن کر آنے والے حضرت حمدﷺ کے مہرو ماہ کی مانند چمکتے دمکتے کردار کو دیکھ لیں، رحمت، محبت اور شفقت آبشاروں کے جھالوں کی مانند برستی دکھائی دیں گی جب مکہ فتح ہو چکا تو کفار کو یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کا قتل عام کر کے نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا، وفور رحمت سے مہکتی رسول رحمتﷺ کی صدا بلند ہوئی کہ مجھے بتاؤ! میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں۔ رحم و کرم کے تشنہ لبوں نے کہا کہ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ رحمتوں کی برکھا بن کر آنے والی زبان محمدﷺ نے محبتوں بھرا جواب دیا کہ آج میں تمہیں وہی کہوں گا کہ جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ آج تم پر کوئی سختی نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو اور پھر اسلام کی بہاریں امڈ آئیں، لوگ جوق در جوق اسلام کے سایہ عاطفت تلے جمع ہوتے چلے گئے۔ عکرمہ بن ابو جہل کی بیوی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، پھر خود عکرمہ بھی مسلمان ہو گیا اور حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبا ڈالنے والی عورت ہند نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

ممکن ہے جدید گلوبل ویلیج کی ساخت اور انداز کے سانچے میں ڈھلا کوئی باشندہ ان ایمان افروز تماثیل کو اوراق پارینہ کی داستانیں اور آثار قدیمہ کی نشانیاں کہہ کر ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کرے تو آیئے! میں آپ کو سعودی عرب لے چلوں جہاں دو ایمان آفریں واقعات نے قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کر کے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی عقیدت کو مزید راسخ کر دیا۔ ریاض میں وہ شخص مہمان بن کر آیا ہوا ہے جس سے ملاقات کرنے کو دنیا کے ہر ملک کا سربراہ اپنے لئے ایک اعزاز اور افتخار سمجھتا ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز السعود، امریکی صدر اوباما اور اس کی اہلیہ مشل اوباما کے استقبال کے لئے اپنی کابینہ کے ہمراہ موجود ہے۔ گارڈ آف آنر بھی استقبال میں مصروف ہے۔ اذان عصر کی آ واز سماعتوں سے ٹکرائی، یہ آواز ساری دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی طرف بلاوے کے لئے ہوتی ہے۔ سو سعودی عرب کے فرمانروا نے فوراً ہی اوباما کو کہا کہ اذان ہو چکی ہے، میں نماز کی اجازت چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی وزیر داخلہ و خارجہ بھی تیز تیز قدم اٹھاتے مسجد کی طرف چل دیئے۔ کتنے ہی لوگ ایمانی حلاوت میں گندھا یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے، کروڑوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر داد و تحسین سے نوازا، سلمان بن عبدالعزیز کے متعلق ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں محبت اور احترام کے وہ جذبات امڈ آئے جو کسی بھی ملک کے سربراہ کے لئے دلوں میں موجزن نہیں۔

آیئے! ایک اور منظرآپ کو دکھاؤں، ایک ایسا منظر جس کو دیکھ کر پانچ سو چینی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، یہ سعودی فرمانروا عبداللہ بن عبدالعزیز کا سفر آخرت تھا، شاہ عبداللہ کی میت دنیوی تزک و احتشام کے بغیر ایک ایمبولینس کے ذریعے سے مسجد میں لا کر چٹائی پر رکھ دی گئی۔ انہیں شریعت کے مطابق ایک سادہ اور عام کپڑے کا سفید کفن دیا گیا اور ایک بے نشان کچی قبر میں اتار دیا گیا، پانچ سو چینی باشندوں کے دلوں کو اس منظر نے جھنجوڑ کر رکھ دیا اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ ثابت ہوا کہ بے نام و نشان قبروں میں دفن ہونے والوں کے بھی اگر کردار محمد عربیﷺ کے طریقے کے مطابق ہوں گے، تبھی دنیوی عز و شرف، دین کو تقویت اور آخرت میں نجات ہو گی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جتنے بلند مرتبے اور عہدے پر متمکن ہو گا، اس کے کردار کی عظمت کی تابناک کرنیں اتنی ہی دور تک جائیں گی اور اگر مقتدر شخصیتوں کو سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص تک نہیں آئیں گی تو ایسے تشنج زدہ اور پولیو کے مارے کردار کے ساتھ بلندیوں پر چڑھنا تو کجا، شفاف اور مستقیم راہوں پر چلنا بھی دوبھر ہو جائے گا۔ محض دنیوی عہدوں اور اقتدار پر ریجھ بیٹھنے والوں کو یہ ممیز، ممتاز اور منفرد مقام کیسے مل سکتا ہے، لوگوں کے دلوں پر براجمان ہونے کے لئے کردار کے حسین و جمیل پھولوں کی پنکھڑیاں کھلانا پڑتی ہیں۔

Post a Comment

0 Comments