Baby and Baba by Ali Imran Shaheen















’’پائلٹس، Merceneries
(جانباز)، پیراٹروپرز (ہوا باز) اینڈ وٹ ناٹ، نائن الیون سے لے کر فدائین اٹیک کے ہر طرح کے اٹیکس کر سکتے ہیں‘‘۔ اجے

’’سر ہمارا ایک سابق آفیسر تھا جمال، جس نے مجھے وارن کیا تھا کہ اس سال بہت ساری دیوالی ہونے والی ہے۔ جماعۃ الدعوۃ ایک فورٹ نائٹلی (پندرہ روزہ) میگزین پبلش کرتی ہے، بچوں کیلئے، ننھے مجاہد، پاکستان نے اسے بین کیا ہوا ہے۔ ہمیں آج ہی پتہ چلا ہے کہ ننھے مجاہد کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ It will be an independent militant wing (یہ ایک آزاد مسلح بازو ہو گا)‘‘
یہ ڈائیلاگ ہے دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والے بھارتی فلم ساز ادارے بالی وڈ کی تازہ ترین فلم کا جس کا نام ہے ’’بے بی‘‘ اور جو بھاری سرمایہ خرچ کر کے کئی ملکوں میں بنائی گئی ہے۔

بالی وڈ کی یہ فلم 23جنوری 2015ء کو نمائش کیلئے پیش ہوئی لیکن پاکستان میں اسے آنے سے پہلے ہی بین کر دیا گیا۔۔۔ کیوں؟ کیا اس لئے کہ اس میں پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ ہے؟ پاکستانی سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔۔۔؟ جی ہاں! آپ بھی یہی کہیں گے کہ ’’بالکل نہیں‘‘ کیوں کہ بھارت کی ہر دوسری تیسری فلم تو پاکستان کے خلاف ہوتی ہے جس میں پاکستان کو کسی نہ کسی طرح سے دہشت گرد ثابت کیا جاتا ہے، اسے بدنام کرنے کے لئے فلم میں ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن وہ سبھی فلمیں پاکستان میں اول دن سے بلاروک ٹوک دیکھی اور دکھائی جا رہی ہیں تو پھر۔۔۔ پابندی کی وجہ؟ اب یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اور دوسری طرف بھارت ہے کہ دن رات اپنی فلموں کے ذریعے سے ایک زمانے سے دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ’’دنیا میں ہم سے بڑھ کرکوئی نہیں۔

بہادری میں، ذہانت میں، جانفشانی میں، ملک سے محبت سمیت ہر میدان میں‘‘۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ بھارت کی جانب سے اس فلم کی نمائش کے صرف دو ہی دن بعد اسی بھارت کا وزیراعظم منتوں ترلوں سے اپنے ملک میں آنے والے امریکی صدر باراک اوباما کے سامنے یوں ’’صدقے واری‘‘ جا کر پاکستان، جماعۃ الدعوۃ اور حافظ محمد سعید کے حوالے سے منتیں زاریاں کر رہا تھا، ایک قابل دید منظر تھا اور جیسے باراک اوباما بھارتی وزیراعظم کی کمر اور کندھوں پر بار بار ہاتھ رکھ کر اس کے ساتھ کسی ’’چھوٹے بالکے‘‘ کا سلوک کرتا رہا بالکل ایسے کہ جیسے امریکی صدر کو پتہ چل گیا ہے کہ بھارت نے تو دو روز پہلے ہی خود اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اپنا نام خود ہی ’’بے بی‘‘ رکھ لیا ہے تو اس کے ساتھ سلوک بھی تو وہی ہونا چاہئے یعنی ’’بچوں والا‘‘۔۔۔ سو مودی سے ویسا ہی سلوک ہوتا رہا اور دنیا خوب تماشا دیکھتی اور محظوظ ہوتی رہی۔ لیکن کیا کریں کہ اس میاں مٹھو اور سرکس کے بھی نہیں بلکہ کاغذی شیر کی اصلیت اس سے بھی دن رات چھپائے نہیں چھپتی۔۔۔ ورنہ بھارت دو کشمیری نوجوانوں کی لاشوں سے اتنا کیوں ڈرتا، کانپتا اور لرزتا کہ جنہیں اس نے سالہا سال بدترین مظالم کا نشانہ بنانے کے بعد اپنی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا تھا کہ یہ زندہ تھے تو اس کیلئے تباہی کا پیغام لانے والے، کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھے۔ اسی لئے تو فلمی ہیرو بھارت ان کی لاشیں بھی ان کے لواحقین کو دینے کو تیار نہیں۔

وہ 11فروری 1984ء کا دن تھا جب بھارت نے کنٹرول لائن کے قریب واقع ضلع کپواڑہ کے گاؤں ترہگام کے رہنے والے کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی پر لٹکایا تھا۔ بھارت کا خیال تھا کہ اس پھانسی کے بعد کشمیری قوم اور ان کی تحریک آزادی اپنی موت آپ مر جائے گی اور وہ اس پھانسی کو دیکھ کر آزادی کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیں گے لیکن ۔۔۔ بھارت کے اندازے ویسے ہی فلمی ثابت ہوئے جیسے وہ خود کو دکھاتا ہے۔ کشمیری قوم تو ایک طرف۔۔۔ شہید مقبول بٹ کی والدہ نے ایک کے بعد ایک بیٹا کشمیر کی آزادی کیلئے پیش کرنا شروع کر دیا اور یوں اس بہادر ماں کے چار بیٹے شہادت کی منزل پا گئے لیکن مقبول بٹ کی والدہ کے سر کو نہ جھکایا جا سکا۔ مقبول بٹ کی والدہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ’’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے چار پھول شہید ہوئے۔ سب سے پہلے مقبول بٹ، پھر حبیب اللہ بٹ، پھر غلام نبی بٹ اور پھر منظور احمد بٹ۔ مقبول بٹ کی والدہ شاہ بیگم کی عمر 75سال کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ ان کی آنکھوں میں کشمیر کی آزادی کیلئے دعائیں مانگتے تو آنسو تیرنے لگتے ہیں لیکن بھارت سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے اپنے چار جگر گوشوں کی یاد پر ہمیشہ مسکرا اٹھتی ہیں۔

شہید مقبول بٹ کو کشمیریوں نے ’’بابائے قوم‘‘ قرار دے دیا۔ بھارت واقعی ’’بے بی‘‘ ثابت ہوا جو کشمیری قوم کو شکست کیا دیتا؟ ایک بڑھیا کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہو گیا۔ 31سال پہلے شہید مقبول بٹ کی پھندے پر جھولتی لاش سے بھی بھارت اس قدر خوفزدہ تھا کہ اسے جیل میں دفنانے پر مجبور ہوا اور اس کی لاش کے خوف سے آج تک بھی اس کے اعصاب اس فلمی ہیرو کی طرح شل ہیں کہ وہ اسے جیل کے ہزاروں پہروں سے باہر نکالنے کو تیار نہیں۔ بھارت کی جنگ شہید مقبول بٹ کی ایک لاش سے 1984ء سے جاری تھی کہ اس نے 2سال پہلے 9فروری 2013ء کو ایک اور کشمیری ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر خود کو فاتح عالم ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن۔۔۔ وہ اپنے اس عمل کے بعد اپنے ہی سائے سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس کے رعشہ زدہ اعصاب نے اسے اتنی ہمت نہ دی کہ وہ افضل گورو کی لاش بھی تہاڑ جیل سے باہر نکال پاتا اور اسے اس کے پیاروں کے حوالے کر دیتا۔ سرینگر میں افضل گورو کی والدہ، بیوہ اور اکلوتا بیٹا بغیر کوئی آنسو بہائے ’’بے بی بھارت‘‘ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہیں اور بھارت کو ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں۔ دنیا کو بہادری کی فلمیں دکھانے والا بھارت اب دو لاشوں سے لڑنے پر مجبور ہے اور دنیا اس کی بے بسی کے تماشے فلموں میں دیکھ رہی ہے کہ کیسے اس کے فلمی ہیرو بڑی بڑی فوجوں اور ان کی ہیبت ناک قوت کو ایک ٹھوکر سے ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیتے ہیں لیکن اسی بھارت کے سارے کرتا دھرتا اور ان کا میڈیا دن رات حافظ محمد سعید کا نام لے کر روتے چلاتے ہیں۔ کتنے سال گزرے بھارتی نیتا ساری دنیا کو ’’المدد، المدد‘‘ کی دہائیاں دیتے ہیں۔ ہر جگہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک کے سامنے ’’بے بی‘‘ بن جاتے ہیں لیکن اپنی ایک ضرب سے سارے عالم کو فتح کرنے والے ہیرو نہیں یہاں کسی کام نہیں آتے۔

انہی کشمیریو ں سے لڑنے کیلئے بھارت نے لاکھوں فورسز روانہ کیں ظلم کی ہر حد پار کی لیکن۔۔۔ اسی بھارت کی مایہ ناز فورس سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 30ہزار جوان اور افسران تھوڑے ہی عرصہ میں جانیں بچانے کیلئے بھاگ چکے ہیں۔ امریکہ کے گلے لگ کر ’’بے بی‘‘ جیسی فریادیں کرنے والے بھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے پھانسی کے پھندے پر جھولنے اور خود کو سرکاری بندوقوں سے گولیاں مار کر خودکشیاں کرنے والے فوجی اور افسران تعداد میں امریکہ کی فوج کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ فلموں میں بہادری و شجاعت کی تاریخ الٹ پلٹ دینے والے بھارت کی مسلح افواج کو دس ہزار جوانوں کی کمی کا سامنا ہے۔ بھارت میں ایک طرف 30کروڑ لوگ بجلی سے سرے سے محروم ہیں۔ بھوکے ننگے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ بھاری اکثریت کے پاس طہارت خانہ تک نہیں لیکن۔۔۔ بھارت کے یہ بے بی پھر بھی فوج میں بطور افسر بھی بھرتی کیلئے تیار نہیں۔۔۔
فلم بے بی کے اختتام پر جس طرح بھارتی ہیرو خود کو ہی بے بی قرار دیتے ہیں، اس سے ہی ان کی ذہنیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بھارت کو بھی اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ وہ اتنا بہادر ہو کر کشمیری جوانوں کی دو لاشوں سے کب تک لڑتا رہے گا اور کب تک ’’بے بی‘‘ بن کر اور ہر دروازے پر فریادیں کر کے جان بچاتا رہے گا۔

Post a Comment

0 Comments