علی عمران شاہین کا خصوصی کالم "کشمیری قوم یا بھارت کیلئے لوہے کا چنا"


آج سے ٹھیک ایک سال پہلے کی بات ہے، بھارتی حکومت نے فیصلہ سنایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سمیت ملک بھر میں حریت پسندوں سے لڑنے والی اپنی مسلح افواج کیلئے دو لاکھ نئی اور جدید بلٹ پروف جیکٹس خریدے گی۔ بتایا گیا کہ مسلح افواج کے پاس موجود پہلی بلٹ پروف جیکٹس ناقص بھی ہیں اور کم بھی ہیں۔ اس کے بعد ایک سال کا وقت گزرا اور 2015ء کا آغاز ہوا تو پتہ چلا کہ کشمیری مجاہدین کا سامنا کرنے والی بھارت کی سب سے مایہ ناز سکیورٹی فورس ’’سنٹرل ریزرو پولیس فورس CRPF‘‘ کے 30ہزار سے زائد سپاہی اور افسران جانیں بچانے کیلئے نوکریاں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں ،بھارت اپنی مسلح افواج میں افرادی کمی کو پورا کرنے کے لئے کئی سال سے طرح طرح کے جتن کر رہا ہے لیکن عام سپاہیوں کی نفری تو کجا تینوں مسلح افواج میں بطور افسر بھرتی کیلئے بھی خوفزدہ نوجوان تیار نہیں ہیں اور تینوں مسلح افواج میں افسران کی کمی 10ہزار سے زائد ہے۔

جی ہاں! یہ اس بھارت کا تذکرہ ہو رہا ہے جو امریکہ کے پاؤں میں گر کر اور ایڑیاں رگڑ اور ناک سے سات سات سو لکیریں نکال کر بارک اوباما کو راضی کرنے میں مصروف ہے کہ اسے کسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا چھٹا مستقل رکن بنا دیا جائے کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ تو دیوانے کا ایک خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا لیکن وہی اقوام متحدہ جہاں بھارت 1948ء میں کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد روتا دھوتا پہنچا تھا کہ فی الحال اس کی مجاہدین اور قبائلی لشکروں سے جان بخشی کروائی جائے جو کشمیر کا بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے چکے ہیں۔ پھر اقوام متحدہ حرکت میں آئی اور اس نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ کشمیری مجاہدین کو واپس بلائے تاکہ وہاں استصواب رائے کروا کر کشمیری قوم کو مرضی اور منشا کے مطابق ان کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ یوں 1948ء کا وہ دن اور آج کا دن، نہ تو کشمیر میں استصواب رائے ہوا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے بھارت کو اس معاملے پر آمادہ کرنے کی کوئی ٹھوس تو کجا معمولی کوشش کی۔ اپنی مسلح جہادی کشمکش سے بھارت کے دانت کھٹے کرنے اور اسے الٹا لٹکانے والی کشمیری قوم 27اکتوبر 1947ء کے دن جب بھارتی افواج سرینگر ایئرپورٹ پر اتری تھیں، کی مناسبت اور یاد کے حوالے سے آج بھی دنیا بھر میںیوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ یوں کشمیری قوم نے بھارت کے اس قبضہ کو اول دن سے ناجائز قرار دے کر ایک ہی فیصلہ سنا رکھا ہے کہ وہ بھارت کا تسلط تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

بھارت جب اقوام متحدہ پہنچا تھا تو وہاں 13اگست 1948ء کو پہلی قرارداد منظور ہوئی جو کہ نامکمل تھی۔اس کے بعد 5جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے مکمل اور جامع قرارداد منظور کی جس میں کھل کر کہا گیا کہ کشمیر میں فائربندی کر کے اقوام متحدہ کے زیراہتمام آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو اس بات کا موقع دیا جائے گا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنے مستقبل کو وابستہ کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ ان قراردادوں کو پاکستان اور بھارت دونوں نے تسلیم کر لیا لیکن آج اس سارے واقعہ کو 67سال ہونے کو آئے، بھارت اپنے زیرقبضہ علاقہ میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق کیا دیتا، اس نے تو سارے کشمیر سے عالمی نمائندوں اور میڈیا کو بھی نکال باہر کیا، پھر اقوام متحدہ کی خود تسلیم کردہ قراردادوں سے ایسا منحرف ہوا کہ دوبارہ ان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا گوارا نہ کیا۔کشمیری قوم نے عالمی اداروں اور عالمی منصفوں کے جاگنے کے کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد بالآخر 1987ء میں ہتھیار اٹھانے اور آزادی کیلئے راہ جہاد میں جانوں کے نذرانے پیش کر کے بڑی جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ یہ موسم گرما کے دن تھے اور مقبوضہ وادی بھارت اور دنیا بھر سے آئے سیاحوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کہ سرینگر سمیت وادی کے تمام شہروں اور قصبوں میں آزادی کے نعرے بلند کر کے ہزاروں لاکھوں کشمیری سڑکو ں پر تھے۔ ایک ہی دن سارے کشمیریوں نے اپنی گھڑیوں کا وقت پاکستان کے ساتھ ملا لیا تھا اور پھر ہزاروں کے قافلے کنٹرول لائن کو عبور کر کے آزاد کشمیر آنے لگے۔

بچے بچے کی زباں پر نعرہ تھا ’’سرحد پار جائیں گے ، کلاشنکوف لائیں گے‘‘ بھارت نے کشمیریوں کی اس یک دم ابھرنے والی آواز کو دبانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں مزید فورسز روانہ کر دیں اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے جنت کشمیر جہنم زار بن گیا۔ علاقوں کے علاقے جلا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیئے گئے۔ ہر طرف خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔وہی کشمیر جہاں اس سے پہلے صرف ایک یتیم خانہ تھا، وہاں آج قدم قدم پر یتیم خانے قائم ہو چکے ہیں کہ سوا لاکھ سے زائد بچے بھارتی فورسز کے ہاتھوں والدین کے قتل کے بعد اب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سوا لاکھ سے زیادہ کشمیری جیلوں کی نذر ہوئے، 7ہزارسے زائد پس دیوار زنداں موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تو ایک لاکھ کے قریب مجموعی طور پر موت کی وادی میں اتارے گئے۔ 10ہزار سے زائد خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں۔ مقبوضہ کشمیر کا کوئی ایسا گھرانہ نہیں جہاں سیاس عرصے میں کوئی شہید، قیدی یا زخمی نہ ہو۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ اتنے مختصر علاقے میں اتنے طویل (27سال) عرصہ کیلئے 8لاکھ مسلح فورسز متعین رہی ہوں کہ انہوں نے وہاں کے لوگوں کے دل کی آواز کو دبانا ہے۔

بھارت نے اس پر بس نہیں کیا، اس نے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین کشمیریوں کی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے جو ممکن تھا ،کر کے دکھایا۔ کنٹرول لائن پر لاکھوں مسلح فوجی متعین کئے، قدم قدم پر بارودی سرنگیں نصب کیں۔ ہر درخت کے پیچھے مسلح فوجی کھڑے کئے۔ چند چند قدم کے فاصلے پر چیک پوسٹیں بنائیں، جدید ہتھیاروں سے لیس پٹرولنگ پارٹیاں مقرر کیں، جب اس سے بات نہ بنی تو اسرائیل سے سبق اور معاونت لے کر ساری کنٹرول لائن ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ملنے والی ساری بین الاقوامی سرحد پر بھی اربوں ڈالر خرچ کر کے کئی تہوں پر مشتمل مضبوط و بلند خاردار باڑ نصب کی۔ اس پر لاتعداد کیمرے اور سنسرز نصب کئے۔ ساری کنٹرول لائن اور سرحد پر رات کو دن میں بدلنے والے انتہائی طاقتور روشنی والے ہزاروں ٹاور نصب کئے۔ پھر بھی بات نہ بنی تو علاقے میں جاسوسوں کا جال پھیلایا، پھر ڈرون طیاروں سے جاسوسی شروع کی اور پھر خلائی سیاروں کے ذریعے چپے چپے کی نگرانی شروع کر دی گئی۔ یوں بھارت آج روزانہ کی بنیاد پر اپنی اس نام نہاد سکیورٹی پر اربوں روپے برباد تو کر رہا ہے لیکن کشمیری قوم کو اس کا حق خودارادیت دینے کو تیار نہیں۔ کشمیری قوم اس بھارت ’’جس کے ساتھ سارا عالم کفر ملا ہوا ہے‘‘ ،کیلئے لوہے کا وہ چنا ثابت ہوئی ہے کہ بھارت ان کے کسی بچے اور بوڑھے کا بھی سر جھکانے میں ناکام ہے۔

وہی کشمیری قوم جس کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے ہمیشہ امن کے ساتھ رہنے اور زندگی گزارنے کو ترجیح دی، کبھی جنگوں میں حصہ نہیں لیا، وہی اپنے حق آزادی کے حصول کی خاطر میدان کارزار میں اترے تو انہوں نے شجاعت و دلیری کی ایسی لاتعداد داستانیں رقم کیں کہ آج کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔کشمیر کی موجودہ تحریک آزادی جوگیارہ فروری 1984ء میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے والے شہید مقبول بٹ کے خون سے شروع ہوئی تھی، ان کے تین بھائی بھی اس راہ پر جانوں کی قربانی پیش کر گئے۔ اسی مقبول بٹ کی 75سالہ نحیف و نزار والدہ شاہ بیگم میدان عمل میں آج بھی ڈٹی ہوئی ہیں۔ آزادی کیلئے چار بیٹوں کی قربانی دے کر ان کا چہرہ آج بھی روشن ہے جس کی پرچھائیوں سے بھارت لرزتا ہے اور آج تک بھارت نے شہید مقبول بٹ کے پھانسی پر لٹکائے جانے والے لاشے کو بھی تہاڑ جیل سے نہیں نکالا کہ مبادا کہیں وہ اس کی بربادی کا پیغام نہ بن جائے۔شبیر شاہ اور سید علی گیلانی نے قید و بند جھیلنے میں نیلسن منڈیلا کو مات دے دی۔ وہ کشمیر جسے بانی پاکستان محمد علی جناح نے شہ رگ قرار دے کر اپنے سب سے پہلے فوجی جنرل کو حملہ کر کے کشمیر کو آزاد کروانے کا حکم دیا تھا، آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔

کشمیریوں کی ایک کے بعد دوسری نسل نے بھارتی بندوقوں، بوٹوں، گولیوں، بارود کی بارش کے سائے میں سانس لینا شروع کیا لیکن وہ بھارت کے ظلم و جبر سے ڈرے نہیں، جھکے نہیں،بکے نہیں۔۔۔ قائد کشمیر سید علی گیلانی آج بھی کہتے ہیں کہ ہماری ہوائیں راولپنڈی سے چلتی ہیں، ہمارے سارے قدرتی راستے پاکستان کی طرف جاتے ہیں۔ پانیوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے، مذہب ہی نہیں قدرتی و فطری اور رنگ و نسل کے اعتبار سے بھی ہم پاکستانی ہیں لیکن ان کشمیریوں کو یہ حق کب اور کیسے ملے گا؟ پاکستان میں 5فروری کو ہر سال یوم یکجہتی کشمیر پر چھٹی منا کر گھروں میں آرام سے بیٹھنے والی پاکستانی قوم کیلئے یہ ایک کڑا سوال ہے کہ ان کے ملک کی تکمیل اور بھارتی چنگل سے آزادی کیلئے کشمیری جوان ہی نہیں بچے، بوڑھے اور عورتیں تو خون کے دریا پار کر رہے ہیں، پھر کشمیر کی آزادی سے اپنے ملک کی تکمیل و بقا کو وابستہ کئے پاکستانی کہاں ہیں۔۔۔؟

Post a Comment

1 Comments

Need Your Precious Comments.