حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "لٹ رہی ہیں مائیں، بہنیں، بیٹیاں کشمیر میں"


کشمیریوں کی بساطِ بدن پر کیسے کیسے زخم لگے ہیں، ان کے خدوخال اور عارض و رخسار پر کتنے گہرے گھاؤ انہیں بے کل کئے ہوئے ہیں۔ اس کے تصور سے ہی جسم و جاں میں برق سی کوند جاتی ہے۔ مگر ہم مصلحت کوشی کے کاشانے میں ڈیرے ڈالے مسرور اور مطمئن بیٹھے ہیں۔ ہم جدید عالمی حالات کے تقاضوں کی چھتری تلے پاؤں پھیلا کر محواستراحت ہیں، چونکہ ہم اقوام متحدہ کے رکن ہیں، چونکہ ہم امریکی اور ناٹو فورسز کے ہم نوا ہیں، سو ہم بھارتی جبر کے باعث کلپتے کشمیریوں سے بے اعتنائی برتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں خبر بھی ہے کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان ایک بنجر اور ریگستان بن سکتا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے احباب بست و کشاد کشمیریوں پر بھارتی جبر و استبداد سے نظریں چرائے بکل مارے بیٹھے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر ہمارے لئے کس قدر اہم ہے اس کو پورے شدومد کے ساتھ باور کرانے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب تکتے تکتے اہل کشمیر کی آنکھیں پتھرا چکیں مگر مسئلہ کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ کے سینے میں اتنی برف جمی ہوئی ہے کہ کشمیریوں کی دل دوز آہ وزاریوں اور چیخ پکار کے باوجود اقوام متحدہ کی چھاتی میں تلاطم تو کجا کوئی خفیف سا ارتعاش تک پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت کی یہ عادت پختہ تر ہوتی جا رہی ہے کہ وہ ہر موقع پر ہمیں دولتیاں مارتا ہے مگر ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ ان دولتیوں کو کسی شوخ والھڑ محبوب کی کج ادائی سمجھ کر بڑے آداب، سلیقے اور خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کر رہی ہے۔ بھارت کی اتنی دلبری اور کشمیریوں سے اس قدر بے رخی اور بے رغبتی نے مسئلہ کشمیر کو کھٹائی میں ڈال رکھا ہے۔
بن چکا ہے ایک مقتل وہ مسلماں کے لئے
کٹ رہے ہیں بوڑھے، بچے اور جواں کشمیر میں
ان کی چیخیں اور آہیں کیوں کوئی سنتا نہیں
لٹ رہی ہیں مائیں، بہنیں، بیٹیاں کشمیر میں

صدیاں بیت چلیں ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہے۔ 1325ء میں یہاں اسلام کے غنچے چٹکنا شروع ہوئے۔ اس خطے کا پہلا مسلم حکمران صدرالدین تھا۔ اسلام کی نکہتیں اپنے تن من میں بسانے سے قبل وہ بدھ مت کا پیرو کار تھا۔ صدر الدین کے اسلام کے سانچے میں ڈھلنے کے بعد جموں و کشمیر میں اسلام کے شگوفے کھلتے چلے گئے۔ 1327 میں صدر الدین فوت ہو گیا تو ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ پھر غیر مسلموں کے تسلط میں چلا گیا۔ 1344ء میں اس ریاست میں باقاعدہ طور پر مسلم حکومت قائم ہو گئی۔ سلطان شہاب الدین نے کشمیر میں مسلم حکومت کی بنیادیں مستحکم کیں۔ 1819ء سے 1839ء تک سکھوں نے کشمیر پر قبضہ کئے رکھا۔ 1822ء میں راجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ گلاب سنگھ کو دے دیا۔ اسلام سے مخاصمت اور عداوت کی وجہ سے سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم وجور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برصغیر پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزوں کو یقین ہو چلا کہ اب وہ ہندوستان پر قبضہ برقرار نہ رکھ پائیں گے، لہٰذا وہ ایسی سازشوں کے جال بننے میں لگ گئے کہ یہاں کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندوؤں اور سکھوں کی غلامی میں دے دیا جائے۔ 3 جون 1947ء کو برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مسلم اکثریتی علاقے مسلمانوں جبکہ ہندو اکثریتی خطے ہندوؤں کے سپرد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کشمیر میں 90 فیصد مسلمان آباد تھے۔ اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق قانونی، مذہبی اور جغرافیائی تقاضوں کے ساتھ ساتھ 3 جون کے تقسیم ہند کے فیصلے کے بھی عین مطابق تھا مگر 3 جون 1947ء کے تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد ماؤنٹ بیٹن اور مہاتما گاندھی فساد کے بیج بونے ایک وفد کے ہمراہ کشمیر گئے انہوں نے مہا راجا سے ملاقات کر کے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی سازش کی۔ ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے ضلع گرد اس پور کے مسلم اکثریتی علاقے کو ہندوستان میں شامل کر دیا۔

اس طرح ہندوستان کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا راستہ آسانی سے مل گیا۔ ڈوگرہ فوج نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کر دیا۔ اس وقت لوگوں نے ایمانی حلاوت کے ساتھ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگائے۔ یہی وہ اصولی اور بنیادی موقف تھا جو اس وقت سے لے کر آج تک اہل کشمیر کے قلوب و اذہان میں رچا بسا ہے اور یہی وہ خواہش ہے کہ جس کی تکمیل کے لئے ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہادت کو اپنے گلے سے لگا چکے ہیں۔ ہمارے بابا حضرت محمد علی جناحؒ نے بڑے تفکر اور تدبر کے بعد کہا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے قبل حکومت پاکستان کا کشمیر کے متعلق ٹھوس اور دو ٹوک موقف تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے مگر گیارہ ستمبر کے بعد یکا یک ایسے جھکڑ چلے جو حکومتی ایوانوں سے اس موقف اور نعرے کو اڑا لے گئے اور پھر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر کشمیری لوگوں کی امنگوں اور آرزوؤں پر برچھیاں چلا دی گئیں۔

خون کے آنسو روتی کشمیر کی وہ دل آویز وادیاں، اداسیوں کے حصار میں مقید تتلیاں، مغموم اور افسردہ وہ بہاریں، وہ لہو رنگ جاسمین و نسترن اور اشک فشاں بلبلیں اور قمریاں ہم سے شکوہ کناں ہیں کہ اور کتنی آستینوں کے بھیگنے کا انتظار کرو گے؟ اور کتنے آنچلوں کے تار تار ہونے کے منتظر ہو؟ اور کتنی بہاروں کے لٹنے کے انتظار میں مصروف ہو؟ اور کتنی گودیں اور سہاگ اجڑنے کے بعد تم کشمیر کی آزادی کے لئے کھڑے ہو گے؟ کشمیر کے سرسبز کوہسار زبان حال سے چیخ چیخ کر فریاد کر رہے ہیں کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ مذاکرات سے کبھی نہیں مانے گا۔ بھارت کے پڑوس میں 67 سال رہنے کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ وہ باتوں سے سیدھا ہونے والا نہیں، سو مذاکرات کی میز سجانے کی بجائے بھارت سے کشمیر چھینا جائے، اس کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں بچا۔

Post a Comment

0 Comments