محسن فارانی کا خصوصی کالم "ایک امریکی صحافی کا کالم، کچھ کچھ باتبصرہ"


نکولس کرسٹوف انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز کا قلمکار ہے۔ وہ 16 جنوری کے اخبار میں عالم اسلام پر قلم اٹھاتے ہوئے اپنے کالم کا عنوان دیتا ہے: An Islamic Reformer Lashed (ایک اسلامی مصلح نے کوڑے کھائے)۔ گویا اسلام کی تنقیص کرنے کا مجرم رائف بداوی اس کے نزدیک ’’اسلامی مصلح‘‘ ہے۔ اس نے کالم کا آغاز کیا ہے: ’’جب اسلامی عسکریت پسندوں کا ایک گروہ پیرس میں جنگ کر رہا تھا۔ ایک اور گروہ باگا (شمالی نائیجیریا) میں شہریوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر رہا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بقول 2000 مقتولین جبکہ حکومت نائیجیریا کے مطابق صرف 150۔ اس دوران میں القاعدہ نے یمن میں بیسیوں لوگ اڑا دیئے اور پاکستانی طالبان نے ایک سکول میں 150 افراد قتل کر ڈالے۔ ادھر لیبیا کے انتہا پسندوں نے وزارت خارجہ کی عمارت بم دھماکے سے اڑا دی کیونکہ ایک افسر نے لوگوں کو Merry Christmas (کرسمس مبارک) کہا تھا‘‘۔

لگتا ہے نکولس مشرقی یورپ کا عیسائی (کرسٹوف) امریکی ہے۔ وہ دہشت گردی کی مثالیں پیش کر کے ’’عقیدے اور برداشت کے بارے میں مسلمانوں کے مابین گفتگو‘‘ کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور دور کی کوڑی لاتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’اسلامی مصلحین بتا سکتے ہیں کہ قرآن توہین کے مرتکب افراد کے لئے کوئی سزا لاگو نہیں کرتا بلکہ ان سے دوری اختیار کرنے کو کہتا ہے(اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما) جبکہ واحد مقدس کتاب جو توہین پر سزائے موت کا حکم دیتی ہے بائبل ہے (قضاۃ 16:24)‘‘۔ اسے شاید خبر نہیں کہ قرآن مجید کے ساتھ سنت نبوی کو بھی تشریعی حیثیت حاصل ہے اور اول روز سے لاگو توہین رسالت کا قانون اسی پر مبنی ہے۔ وہ وہ ملحد رائف کی تحسین کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’لبرل (آزاد خیال) سعودی رائف بداوی نے خوش قسمتی سے اپنے بلاگ پر اسلام اور جدیدیت کے متعلق عوامی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اس قسم کی بحث کو آگے بڑھانا بہت اچھا ہے‘‘۔ ساتھ ہی کرسٹوف اظہار افسوس کرتا ہے: ’’سعودیوں نے بداوی کو توہین اسلام پر 10 سال قید اور 1000 کوڑوں کی سزا سنا دی ہے اور جمعہ کو اسے عوام کے سامنے پہلے 50 کوڑے لگا دیئے گئے جبکہ ہر جمعہ کو 50 کوڑے لگتے رہیں گے، حتیٰ کہ 1000 پورے ہو جائیں‘‘۔

’’رائف نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، آنکھیں بند کر لیں اور اس کی کمر کمان ہو گئی‘‘۔ ان الفاظ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک عینی گواہ کا کوڑوں کی سزا کا مشاہدہ بیان کر کے کرسٹوف کہتا ہے: ’’کارٹونسٹوں کو ہلاک کرنے اور بلاگرز کو کوڑے مارنے کے مابین ایک فرق ہے مگر پھر بھی۔۔۔ سعودی عرب ایک رہنما کردار ادا کر سکتا ہے، بیسویں صدی کے وسط میں شاہ عبدالعزیز السعود ان روایت پسندوں پر غالب آئے تھے‘‘۔ فرنگی قلمکار یہاں مبالغے کی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آیا۔ اس کے خیال میں توہین رسالت کے مجرم کارٹونسٹوں کی ہلاکت ظلم ہے، حالانکہ یہ عین انصاف ہے۔
کرسٹوف کو افسوس ہے کہ ’’سعودی حکومت مسیحی گرجوں کی اجازت نہیں دیتی اور اس نے بارہا بائبل کے نسخے ضبط کئے ہیں‘‘۔ پھر اپنی ایک شرارت کا انکشاف کرتا ہے کہ ’’ایک بار میں نے وہاں اس خیال سے بائبل سمگل کی کہ بھلا دیکھوں تو پکڑے جانے پر کیا ہوتا ہے مگر سعودی کسٹم نے غلط بیگ چیک کیا‘‘ اسے قلق ہے کہ وہاں ’’گزشتہ ماہ دو خواتین کو کاریں چلانے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا‘‘۔ اس نے سعودی عرب پر یہ الزام لگانے کی جسارت بھی کی کہ وہ ’’اسلامی بنیاد پرستی اور عدم برداشت کو روا رکھے ہوئے ہے‘‘۔ اس کے بقول ’’پاکستانی حکام بھی یہی کھیل کھیل رہے ہیں‘‘۔ پھر لکھتا ہے: ’’پاکستان کبھی برداشت والا ملک تھا جس کا پہلا وزیر خارجہ ایک احمدی (قادیانی) تھا‘‘۔ اسے دکھ ہے کہ ’’اب احمدیوں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی مبینہ توہین رسالت میں سزائے موت کا سامنا کر رہی ہے‘‘ حالانکہ آسیہ کو اس کے بلاجبرواکراہ اقرار جرم پر سزا ہوئی ہے اور کسی احمدی کو اگر سزا ہوئی ہے تو ملکی قانون کی خلاف ورزی پر ہوئی ہے۔

نکولس کرسٹوف پاکستانی اخبار ’’ڈان‘‘ کو شاباش دیتا ہے کہ اس نے عرفات مظہر کا ایک مضمون آن لائن شائع کیا ہے جس میں اس نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف ’’اسلامی قانونی دلائل‘‘ دیئے ہیں۔ ظاہر ہے عرفات مظہر کے ’’اسلامی قانونی دلائل‘‘ مستشرقین یہود و نصاریٰ کی فکری بھٹی میں ڈھلے ہیں، چنانچہ کرسٹوف فکری گمراہی میں مبتلا اس شخص کو داد دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’یہی کام ہے جس کی ہمیں مزید ضرورت ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ ایک خطرے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’مغرب اسلامی دہشت گردی کے جواب میں اسلامو فوبیا اور عدم برداشت میں مبتلا ہو گا جس سے مذہبی کشیدگی بڑھتی ہے اور دہشت گرد اسی کو ہوا دینے کی امید رکھتے ہیں‘‘۔ کرسٹوف بھلا یہ اعتراف کیوں کرے گا کہ عالمی دہشت گردی کا آغاز تو بش، بلیئر اور پوٹن جیسے مسیحی دہشت گردوں نے عالم اسلام پر نئی صلیبی جنگ مسلط کر کے کیا ہے جس میں ان کا بغل بچہ اسرائیل بھی سرگرم ہے۔ کرسٹوف کے بقول ’’مغربی ردعمل سے فرنچ نیشنلسٹ میرین لی پین کے موقف کو تقویت ملی ہے اور روپرٹ مردوخ (میڈیا لارڈ) اور دوسرے لوگوں کی آراء سامنے آئی ہیں کہ اسلامی دہشت گردی کا الزام بہرحال 1.6 ارب مسلمانوں پر آتا ہے‘‘۔ یہ بات ہے تو پھر افغانستان اور عراق میں دہشت گردانہ حملوں کا الزام 2 ارب عیسائیوں پر آئے گا!

کرسٹوف لکھتا ہے کہ ’’گزشتہ ہفتے جب میں نے یہ لکھا کہ دنیا کو تمام مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے تو ’’فوکس نیوز‘‘ پر بل اورائلی اور شیان ہانیٹی نے میری مذمت کی اور اخبار ’’ویکلی سٹینڈرڈ‘‘ نے مجھے ’’سیاہی سے آلودہ بزدل‘‘ قرار دیا۔ میں کہتا ہوں جب بل اورائلی آئرش ری پبلکن آرمی کے بم دھماکوں اور مسیحی سربوں کی طرف سے (بوسنوی مسلمانوں کی) نسل کشی پر معذرت کرے گا تو مسلمان بلاشبہ پیرس کی ہلاکتوں پر معذرت کر لیں گے‘‘۔ یہ کرسٹوف کی خام خیالی ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کی حرمت تمام علائق سے بالاتر ہے۔ پیرس کے جہنمیوں کو جہنم رسید ہونا ہی تھا۔ خود چارلی ہیبڈو کے بانی نے اس کے ملعون مدیر شارب ’’ضدی اور کوڑھ مغز‘‘ قرار دیا ہے جسے انہوں نے توہین آمیز خاکے شائع کرنے سے منع کیا تھا۔

کرسٹوف نے مذکورہ بالا امریکی صحافیوں کو تکبر کے ساتویں آسمان سے نیچے اترنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر وہ زیادہ مسلمانوں سے گفت و شنید کریں تو پھر ان کے قلم سے ایسی احمقانہ باتیں نہیں نکلیں گی۔۔۔ یہ کہ ’’پاکستان ایک عرب ملک ہے‘‘ یا ’’برمنگھم‘‘ Birmingham (انگلینڈ) تمام تر مسلم ہے اور عیسائیوں کے لئے نوگو ایریا بن چکا ہے‘‘۔ فوکس نیوز کے ایک ’’ماہر‘‘ کی طرف سے برمنگھم کے متعلق یہ دعویٰ بعد میں واپس لے لیا گیا مگر اس دوران میں ایک اور صحافتی افلاطون اس پر یوں گرہ لگا چکا تھا کہ ’’اس شہر کو برمنگ ہیم کے بجائے اب صرف برمنگ Birming کا نام دے دیا گیا ہے کیونکہ مسلمان ہیم (hamسور کی ران) سے بدکتے ہیں‘‘۔

امریکی صحافی اعتراف کرتا ہے کہ ’’ماضی میں اسلام کے متعلق ہمارا فزوں تر ردعمل لاحاصل ثابت ہوا ہے، بش انتظامیہ صومالیہ میں اسلامک کورٹس یونین کی حکومت سے اس قدر خائف تھی کہ 2006ء میں ایتھوپیا کے صومالیہ پر حملے میں اس کا ہاتھ تھا جس کے نتیجے میں وہاں دہشت گرد الشباب ملیشیا کو ابھرنے کا موقع ملا اور اب ہم (اس خطے میں) کہیں کم محفوظ ہیں‘‘۔ اوباما کے مخالف ری پبلکن اس پر معترض ہیں کہ اس نے پیرس یکجہتی کانفرنس میں اپنا اعلیٰ نمائندہ کیوں نہ بھیجا۔ کرسٹوف اس اعتراض کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’لیکن ہمیں چاہیے کہ علامتی اظہار سے آگے بڑھ کر عالم اسلام میں اعتدال پسندوں کی عملی حمایت کریں جو تبدیلی کے لئے سرگرم ہیں۔ ان پر بعض اوقات کوڑے بھی برستے ہیں لیکن وہ ہمارے حقیقی اتحادی ہیں‘‘۔ گویا عالم اسلام کو اپنی راہ پر لانے کے مغربی ابلیسی ایجنڈے کی تکمیل میں ہمارے اعتدال پسند ان کے ایجنٹ ہیں۔

Post a Comment

0 Comments