محسن فارانی کا خصوصی کالم "مغربی میڈیا کی یہود نوازی اور اسلام دشمنی"



کچھ برس پیشتر جرمنی کی سرکاری ادبی تنظیم ’’لٹریری ورک سٹارٹ‘‘ نے معروف ناول نگار اور سیاح مستنصر حسین تارڑ کو ان کے ناول ’’راکھ‘‘ کی پذیرائی کے لئے برلن مدعو کیا۔ تقریب پذیرائی میں اپنے اختتامی کلمات میں تارڑ صاحب نے مسمار شدہ دیوار برلن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’کیا آپ لوگ آگاہ ہیں کہ دنیا کے ایک اور خطے میں دیوار برلن سے طویل اور بہت بلند ایک تقریباً ناقابل عبور دیوار تعمیر ہو چکی ہے، جس نے لاکھوں معصوم لوگوں کو ایک زندان میں ڈال دیا ہے۔ ان کے زیتون کے باغ اجڑ گئے اور ان کے گاؤں اس دیوار کی زد میں آ کر تباہ ہو گئے۔ آخر اس دیوار کے خلاف کسی کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا؟ ان کا تذکرہ کیوں نہیں ہوتا؟۔۔۔ صرف اس لئے کہ وہ دیوار مغرب کے ایک ملک میں نہیں، دنیا کے ایک اور خطے میں ہے، کیا اسے ظلم اور درندگی کا استعارہ قرار دے کر ڈھا دینے کا نعرہ بلند نہیں ہو گا؟ کیا آپ اس الجھن کو سلجھا سکتے ہیں؟‘‘ تقریب کے بعد ’’لٹریری ورک سٹارٹ‘‘ کی انچارج خاتون نے ان سے شکایت کی: ’’آپ نے بہت ناروا باتیں کیں، ہم مشکل میں پڑ سکتے ہیں اور آپ کے خلاف اگرچہ نہ ہو گی، پرکارروائی ہو سکتی ہے کہ جرمنی میں یہودیوں اور اسرائیل کے خلاف اظہار کرنا ایک جرم ہے‘‘۔

تارڑ صاحب لکھتے ہیں: ’’میں نے ان سے کہا کہ خاتون! میں نے صرف ایک دیوار کا حوالہ دیا ہے، نہ کہ اسرائیل کا اور نہ یہودیوں کیخلاف کچھ کہا ہے، تو انہوں نے کہا: آپ نے زیتون کے باغوں کا حوالہ دیا ہے، یہی کافی ہے۔ (دیوار برلن اور دیوار فلسطین ’’نئی بات‘‘ 7 جنوری 2015ء)
قارئین کرام! دیکھیے، قرون وسطیٰ میں یہودیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے اور انہیں زندہ جلانے والے مسیحی ممالک اب یہود کے ہشت پا مالیاتی اور اطلاعاتی شکنجے میں گرفتار ہو کر ان سے ’’محبت‘‘ یا خوف میں اس قدر مبتلا ہیں کہ پورے یورپ میں یہود کی ناجائز ریاست اسرائیل کے خلاف کچھ کہنا بہت بڑا جرم ہے، کیسی حیرت کی بات ہے کہ ایک مشہور برطانوی مورخ ڈیوڈ ارونگ فروری 2006ء میں آسٹریا گیا تو وہاں اسے تین سال قید کی سزا سنا دی گئی، محض اس لئے کہ اس نے 1989ء میں اس اسرائیلی پروپیگنڈے کو جھٹلایا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران (1939-45ء) میں جرمن نازیوں نے 60 لاکھ یہودی ہلاک کر دیئے تھے۔

مغربی مسیحی ممالک اس 6 ملین (ساٹھ لاکھ) کے عدد کو اس قدر مقدس گردانتے ہیں کہ محض اس عدد کو جھٹلانا فوجداری جرم قرار دے دیا گیا، حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ جیوئش انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دوسری جنگ عظیم سے پہلے دنیا بھر میں یہود کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی۔ چلیے مان لیا ان میں سے 60 لاکھ نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کی عملداری میں مار دیئے گئے تو باقی بچنے والے 90 لاکھ یہودی جنگ عظیم کے فوراً بعد ایک کروڑ 60 لاکھ کیسے ہو گئے جبکہ یہ اعداد و شمار بھی انہی کے فراہم کردہ ہیں؟۔۔۔ اک معما ہے سمجھنے نہ سمجھانے کا!
اب مسیحیان یورپ و امریکہ کا اسلام کے بارے میں خبث باطن دیکھیے کہ نازی برقی بھٹیوں میں 60 لاکھ یہود کے جل کر بھسم ہو جانے کے ابلیسی پروپیگنڈے کو مقدس جاننے والوں نے اسلام کی مقدس ترین ہستی رسول اکرمﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے اور دنیا کی مقدس ترین اور سب سے سچی کتاب قرآن مجید جلانے کو آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے نام دے رکھے ہیں اور ان قبیح جرائم پر کوئی تعزیر، کوئی گرفت نہیں۔

فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو نے مسلمانوں کے لئے دل آزار اور اشتعال انگیز خاکے بار بار شائع کئے مگر فرانسیسی حکومت اسے آزادی صحافت قرار دے کر ٹس سے مس نہ ہوئی جبکہ اسی چارلی ہیبڈو نے صدر فرانس چارلس ڈیگال کا جب مذاق اڑایا تھا تو اسے کئی ماہ کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ اب جو دو تین دل جلے عرب مسلمانوں نے اس اخبار کے دفتر پر حملہ کر کے اس کے ملعون مدیر اور خاکے بنانے والے چار موذیوں سمیت 12 افراد ہلاک کر دیئے تو پورے مغرب میں ہا ہا کار مچ گئی۔ اس پر چالیس ممالک کے سربراہوں اور وزرائے اعظم نے پیرس میں جمع ہو کر فرانسیسی حکومت، فرانسیسی عوام (اور توہین آمیز خاکے بنانے اور شائع کرنے والے ملعونوں) سے اظہار یکجہتی کیا۔ اس اکٹھ میں جہاں نائیجیریا کا مسیحی صدر گڈلگ جوناتھن اور غزہ (فلسطین) کے ہزاروں مسلمانوں کا قاتل اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو شامل تھے، ادھر ہمارے میڈیا کا یہ عالم ہے کہ روزنامہ ایکسپریس (13 جنوری 2015ء) میں وسعت اللہ خان نے جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے نبیؐ کے مکی زندگی میں صبر و تحمل کو مثال بناتے ہوئے لکھا: ’’یہ ہونا چاہیے تھا کہ مکہ میں آپؐ پر آوازے کسنے والوں کو اگر آپ کے سامنے نہیں تو آپ کے وصال کے بعد ہی کوئی صحابی یا خلیفہ راشد چن چن کر مار دیتا، کوئی اس غلاظت پھینکنے والی بڑھیا کی قبر کھود ڈالتا، کوئی لشکر طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا، بھلے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں‘‘۔ ان حضرت کو علم ہی نہیں کہ سچے دل سے اسلام قبول کر لینے والوں کو نبی کریمﷺ نے فتح مکہ کے بعد لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت نہیں) کہہ کر معاف کر دیا تھا اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اسلام لانے پر پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ جو چند عادی مجرم اور توہین رسول کے مرتکب ہٹ دھرم کافر تھے، انہیں مدینہ میں بھی اور فتح مکہ کے بعد بھی سزائیں دی گئی تھیں۔ وسعت اللہ خان نے کالم کے �آخر میں یہ بھی لکھا کہ پیرس میں اردن کے شاہ عبداللہ، فلسطین، مالی، گیبون اور نائیجیریا کے صدور اور امیر قطر کے بھائی کی عالمی یکجہتی مظاہرے میں موجودگی اتنی ضروری نہیں تھی جتنی کہ افغان صدر اشرف غنی حیدر العبادی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی تھی‘‘۔ اس مریضانہ سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

ادھر یورپ والوں کی ہٹ دھرمی دیکھیے کہ ’’چارلی ہیبڈو‘‘ جو عموماً ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے، اس کی انتظامیہ نے چند روزہ تعطل کے بعد توہین آمیز مواد اور خاکوں پر مشتمل اخبار کی 30 لاکھ کاپیاں شائع کر دیں اور رسالے کے مدیر اعلیٰ جیراڈبیارڈ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہم نے یہ کر دکھایا۔ اس پر فرانسیسی وزیراعظم مینوئل ویلز نے اس اشتعال انگیز اقدام کی مذمت کرنے کے بجائے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ان کے ملک کی لڑائی شدت پسندوں سے ہے، تاہم یہ جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ اسرائیل اور اس کی ہر شے کو مقدس جاننے والوں کے اس جھوٹ کو کوئی حقیقت پسند انسان تسلیم نہیں کر سکتا۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے ڈھٹائی سے یہ کہا: ’’کسی کی ذاتی رائے سے قطع نظر ہم چارلی ہیبڈو کے اس طرح کی چیزیں شائع کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ نیز آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے بھی یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’’ہم چارلی ہیبڈو میں اس کارٹون کی اشاعت کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس میں معاف کرنے کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے‘‘۔

عجیب عذرلنگ ہے! جو چیز دنیا کے ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کے لئے دل آزار ہے، اسے بار بار شائع کرنے کی یہ کہہ کر حمایت کی جا رہی ہے کہ اس سے معاف کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ عقل کے دشمنو! مسلمان تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام بشمول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں اور یہ بات ہر مسلمان کے ایمانی عقیدے میں شامل ہے۔ پھر تم عالم اسلام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج کرنے والے بعض انتہا پسندوں کی ضد میں آخری نبی سیدنا محمدﷺ کی توہین کر کے ڈیڑھ دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کیوں کرتے ہو؟
ہم وزیراعظم ترکی احمد داؤد اوغلو اور صدر رجب طیب اردوان کی جرأت ایمانی کو سلام کرتے ہیں کہ حکومت ترکی نے واشگاف کہا ہے کہ توہین رسول ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے، ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند!

Post a Comment

0 Comments