بشریٰ امیر کا خصوصی کالم "سراج منیر پر پروانہ بن کر فدا ہو بشریٰ امیر"




آج دل پارہ پارہ ہے۔۔۔ آج دل بے چین و مضطرب ہے، دل غمگین و افسردہ ہے، روح پریشان ہے، روح کرب میں مبتلا ہے، روح غم ناک اور ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے، روح و دل تڑپیں کیوں ناں، کہ ان مغرب کے ناہنجاروں اور آزادی اظہار رائے کا راگ الاپنے والوں نے میرے رسول رحمۃللعالمینﷺ کے کارٹون چھاپ کر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو نے یہ مذموم حرکت پہلی دفعہ نہیں کی، اس سے پہلے بھی کر چکا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ایک مسلمان کے لئے اس کے نبی کی حرمت اس کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور جب اس کے نبی پر وار کیا جائے تو مسلم اس کے دفاع کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
کیونکہ! ایک مسلمان اس وقت تک مومن ہو نہیں سکتا جب تک وہ اپنی جان سے زیادہ رسول کریمﷺ سے محبت نہ کرے۔ اللہ کے رسولؐ کا بھی یہی فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے باپ، اپنی اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے۔ ایک دفعہ حضرت محمد کریمﷺ نے حضرت عمرؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسی اثناء میں سیدنا عمرؓ نے کہا، اے اللہ کے رسول آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ سوائے اپنی جان کے، رسولؐ اللہ نے فرمایا، نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، حضرت عمرؓ نے عرض کی، آپ مجھے جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپؐ نے فرمایا، اے عمرؓ اب تم مومن ہو۔

جی ہاں! یہ ہے مسلمان کا ایمان، اے کافرو! تم مسلمان کے ایمان پر ضرب لگاتے ہو، مسلمانوں کے نبیؐ کی توہین کر کے ہر مسلم کو اشتعال دلاتے ہو، تم یہ سب جانتے ہو کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ ایک اسرائیلی طالبعلم کے جملے پڑھیے جو اس نے اپنی ریسرچ کے حوالے سے لکھے کہ تم مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کر لو وہ سب کچھ برداشت کر لیں گے، مگر ان کے پیغمبر حضرت محمد کریمﷺ کے خلاف کوئی توہین آمیز بات زبان پر لاؤ گے تو وہ تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ مغرب کے ناپاک جریدے والو! کاش تم مسیحی مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’دی ہنڈرڈ‘‘ (سو بڑے آدمی) کی ہی لاج رکھ لیتے جو تمہارے ہی مسیحی بھائی نے لکھی اور تاریخ کے تمام بڑے ناموں میں سے نام محمدﷺ کو پہلے نمبر پر رکھا۔
اے جریدے کے پشتیبانو! ذرا اس نبی رحمتؐ کی سیرت کا مطالعہ تو کر کے دیکھو، جب رسول کریمؐ دعوت دین دیتے ہوئے طائف کے میدان میں پتھر کھاتے ہیں اور لہولہان ہو جاتے ہیں۔ آپؐ اوباشوں سے بچتے ہوئے ایک باغ میں چلے جاتے ہیں، وہاں عتبہ اور شیبہ کا غلام عداس آپ کو دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت اور محبت سے بھرا چہرہ زخموں سے چور ہے، لیکن چہرے پر مسکراہٹ بدستور ہے، وہ آپ کو انگور پیش کرتا ہے، آپ ملائمت بھرے انداز میں اس سے پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو؟ وہ کہتا ہے میں مسیحی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔ رسول کریمﷺ اس کے کہنے پر فرماتے ہیں کہ ہاں حضرت یونس بن مَتّٰی میرے بھائی ہیں۔ مسیحی لوگو! جان لو یہ ہے میرے نبی رحمۃ للعالمینؐ کا کردار اور انسانوں سے محبت کا انداز۔

قارئین! اب جبکہ جریدے والوں نے کارٹون چھاپ کر ہمارے نبی محترم کی توہین اور گستاخی کی، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں میں غم کا لاوا ابلا تو انہی مسیحیوں کے روحانی پوپ جس کا نام ’’فرانسس‘‘ ہے، انہوں نے بھی اس زیادتی کا نوٹس لیا اور کہا کہ اظہار رائے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اس بہانے کسی عالمی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی، پوپ نے کہا میری ماں کے خلاف اگر کوئی نازیبا الفاظ کہے تو ’’مکا‘‘ کھانے کے لئے تیار رہے۔
جی بالکل! تمہارے پوپ نے صحیح سبق سکھایا کہ کسی کی ماں کی توہین کرو گے تو مکا کھاؤ گے اور سچ یہ ہے کہ رسول کریمﷺ تو ایک مسلمان کے لئے کئی کروڑ ماؤں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ جریدے والو! تم نے ان ماؤں کی دل آزاری کی ہے جن ماؤں کو رسول رحمتؐ نے باپ کا ایک حق اور ماں کے تین حق دے کر بلندیوں پر فائز کر دیا۔ ان بہنوں کے دلوں پر چھرے چلائے جن کو باپ سے حقوق دلا کر بہنوں کے برابر درجے پر رکھا۔ ان بیٹیوں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے جنہیں رسول کریمؐ نے لخت جگر کے لقب سے نوازا، زندہ درگور ہونے سے بچایا، بیٹی سے محبت کے بدلے جنت میں اپنے ساتھ جنت میں محل دینے کا عہد دلایا۔ ان سب عورتوں کے دل کرچی کرچی ہو گئے جنہیں آپ نے ’’آبگینے‘‘ قرار دے کر ان کی نزاکت کا احساس دلایا۔ قسم خدا کی! مسلمان عورت اسلام کے دیئے گئے اس ا عزاز و اکرام کو دیکھتی ہے تو اپنے نبی کریمﷺ کی حرمت پر ایک جان تو کیا کئی ارب جانیں لٹا دے تو حق ادا نہیں کر سکتی۔ یاد رکھو! ہر مسلمہ رسول کریمؐ کی محبت میں اس صحابیہؓ کے نقش قدم پر ہے جن کا نام حضرت ہند بنت عمرو بن حرام ہے۔ مدینہ کے باہر کھڑی ہیں، اس انتظار میں کہ کوئی خبر مل جائے، ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے کہ احد میں تمہارا باپ شہید ہو گیا۔ کہتی ہے کوئی پروا نہیں، فاطمہؓ کے بابا کا بتایئے کیا حال ہے۔ پھر آدمی آیا کہنے لگا تمہارا بھائی شہید ہو گیا، کہتی ہے کوئی پروا نہیں، شیما کے بھائی کا حال سناؤ۔ پھر کہا گیا تمہارا خاوند شہید ہو گیا، کہنے لگی حضرت عائشہؓ کے سرتاج کا کیا حال ہے؟ کہا گیا تمہارا بیٹا راہ حق میں کٹ گیا، صحابیہ رسولﷺ کہتی ہیں آمنہ کے لعل کا کیا حال ہے؟ اتنی دیر میں نبی کریمﷺ آتے ہیں۔ آپ کا پر نور چہرہ دیکھتی ہے چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے خوش ہوتے ہوئے آپ کو دیکھ کر کہتی ہے آپ سلامت ہیں تو کیا غم ہے۔

ہر مسلمان عورت یہ عقیدہ بھی رکھتی ہے۔ جو عقیدہ حضرت عفراءؓ کا تھا۔ گستاخ رسولؐ کی سزا موت ہے۔ حضرت عفرا نے اپنے دو بیٹوں معاذ اور معوذ کو ابو جہل کو قتل کرنے کے لئے روانہ کیا، ابوجہل انتہا درجے کا گستاخ رسول تھا۔ عفراء کے سدھائے ہوئے باز ابو جہل پر جھپ پڑے اور اسے مار کر جہنم واصل کر دیا۔ گستاخو! اب پتہ چلا کہ مسلم بچے ہوں یا عورتیں وہ اپنے دلوں میں اپنے رسول کریمؐ سے محبت کا کس قدر والہانہ انداز اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضور پر فدا فدا ہوئے جاتے ہیں۔ ظالمو! میرے پیارے رسول کریمؐ کے کارٹون چھاپتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔ اللہ کی قسم! جان سے زیادہ محبوب رحمت رسولؐ کے ساتھ توہین آمیز اشاعت کرنے پر بشریٰ امیر کا خون کھول رہا ہے، دانت پیس رہی ہوں اس بات پر کہ 57 مسلمان ملکوں کے حکمران ان گستاخی کرنے والوں کو سزا دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کیوں نہیں اٹھ کھڑے ہو جاتے۔

گستاخ رسولؐ شیطان رشدی کو پناہ دینے والے ملعونوں کے خلاف کیوں کردار ادا نہیں کرتے کہ جس سے برطانیہ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ رسول کریمؐ کی گستاخ تسلیمہ نسرین کو اپنے چرنوں میں جگہ دینے والوں کے حوصلے کیوں نہیں پست کرتے۔ اللہ کی قسم! مسلمانوں کی برداشت کی حد ختم ہو گئی ہے۔ محمد کریمﷺ کی توہین اور گستاخی سے ہر مسلمہ کے دل میں جو غم کا لاوا ہے وہ پھٹ چکا ہے، انتظار کرتے جاؤ۔ باز نہ آئے تو اس لاوے میں جل کر بھسم ہوتے چلے جاؤ گے۔ آخر میں اپنے پیارے رسولؐ کے لئے جذبات کا اظہارٖ!
عورت کو آبگینہ کہا جس نے وہ سراج منیر
پروانہ بن کر بار بار فدا ہو اس پر بشریٰ امیر

Post a Comment

0 Comments