انصار عباسی کا خصوصی کالم "ہم کس منہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کریں گے"


اسلامی دنیا اور اس کے رہنماؤں کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پیرس واقعہ کے بعد تو عمومی طور پر اْن کے رویہ نے گویا دل چھلنی کر دیا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی کھلی گستاخی کرنے والوں کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں کوئی بولنے والا نہیں بلکہ الٹا گستا خی کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پیرس واقعہ کے بعد تو گستاخی کرنے والے اپنے گھناؤنے کرتوتوں کے ساتھ اور کھل کر سامنے آ گئے۔ ویسے تو بڑے بڑے اسلامی ممالک اور اْن کے بڑے بڑے حکمران ہیں مگر کوئی نہیں جو اس مسئلہ کو مغرب کے سامنے سنجیدگی کے ساتھ اٹھائے اور ایک ایسا لائحہ عمل بنائے کہ اسلام کے خلاف اس ناپاک سازش کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ویسے تو ہم ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان ہیں مگر جو کچھ چارلی یبڈو اور اْس جیسے دوسرے اخبار و جرائد کر رہے ہیں اس پر نہ کوئی ملین مارچ ہے نہ متعلقہ ممالک کے ساتھ سفارتی احتجاج۔ الٹا اْن سے ہمدردیاں جتائی جا رہی ہیں۔

غیروں سے کیا شکایت، دکھ تو اپنوں سے ہے کہ وہ اختیار رکھتے ہوئے بھی اس پاک ہستی کی حرمت کے مسئلہ پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جن سے ہماری محبت ہماری اپنی جان، اپنے ماں باپ، اولاد کی جانوں اور مال سے زیادہ ہونا قرآن اور حدیث کے مطابق لازم ہے۔ آخرت میں ہم تو اللہ کے حکم سے نبیؐ کی شفاعت کے محتاج ہوں گے مگر جب ہمارا یہ رویہ ہو تو ہم کس طرح اپنے نبیؐ سے درخواست کریں گے کہ اللہ سے ہمارے لئے بخشش اور ہمارے گناہوں کی معافی کی سفارش فرمائیں۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق جب قیامت کا دن ہو گا اور لوگ انتہائی پریشان حال ہوں گے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے شفاعت کریں۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میںیہ نہیں کر سکتا اور وہ لوگوں سے کہیں گے کہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں۔

جب پریشان حال لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور یہی درخواست کریں گے تو آپؑ بھی اْن سے فرمائیں گے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا اور اْن سے کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام بھی لوگوں سے فرمائیں گے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا اور انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جانے کو کہیں گے تو آپؑ بھی فرمائیں گے کہ میں یہ نہیں کر سکتا اور لوگوں سے کہیں گے شفاعت کے لیے حضرت محمدؐ کے پاس جاؤ۔ جب لوگ یہ درخواست لے کر آپؐ کے پاس آئیں گے تو آپؐ فرمائیں گے کہ ہاں میں شفاعت کروں گا کیوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی اجازت مانگی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اجازت عطا فرمائی۔ پھر آپؐ کو اللہ تعالیٰ ایک خاص قسم کی حمد و ثنا الہام فرمائیں گے جو پڑھ کر آپؐ سجدہ میں گر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ سے فرمائیں گے کہ اے محمدؐ اپنا سر اٹھائیے اور کہیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیںآپؐ کو سنا جائیگا اور مانگیے آپؐ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس پر نبیؐ فرمائیں گے ’’یا رب اْمتی اْمتی (اے میرے رب میری امت پر رحم فرمائیے)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نبیؐ کو فرمائیں گے کہ جائیے جہنم والوں میں سے جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو لے آئیں۔ آپؐ پھر دوبارہ سجدہ میں گر جائیں گے۔ وہی مکالمہ ہو گا اور پھر اللہ تعالیٰ آپؐ سے فرمائیں گے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو اسے لے آئیں۔

آپؐ پھر سجدہ میں گر پڑیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ آپؐ سے فرمائیں گے کہ جس کے دل میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا بھی ایمان ہو اس کو لے آئیں اْس کو بھی اللہ کے حکم سے جہنم سے نکال لیا جائے گا۔جو ہستی چودہ سو سال قبل ہمارے لیے دن رات روتی رہی، جس نے ہماری آخرت سنوارنے کے لیے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا اور پوری پوری رات جاگ کر ہمارے لئے ہدایت اور آخرت میں کامیابی کے لیے دعائیں کیں اور جو اللہ کے حکم سے آخرت میں ہماری بخشش کاواحد سہارا ہوں گے اس پاک ہستی کی توہین ہو اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ میں نہ گولی کی بات کرتا ہوں اور نہ بندوق کی میری درخواست تو دنیا ئے اسلام کے حکمرانوں اور رہنماؤں سے یہ ہے کہ اس موجودہ سردمہری ترک کریں اور پرامن احتجاج کا ہر وہ راستہ اختیار کریں جس سے ہم مغرب کو مجبور کر سکیں کہ وہ ہمارے نبیؐ کے متعلق گستاخانہ رویہ ترک کردیں۔ چاہے وزیر اعظم نواز شریف ہوں، یا عمران خان اور آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، الطاف حسین ، اسفندیار ولی یا کوئی دوسرا۔ سب کو اس معاملہ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اپنی اپنی سیاست کے لیے تو یہ لوگ روز احتجاج کرتے ہیں، ملین مارچ کی کال دیتے ہیں مگرپیغمبر کی حرمت کے تحفظ کے لیے کوئی کچھ نہیں بول رہا اور یہی حال تقریباً تمام اسلامی ممالک کا ہے۔ میڈیا کا حال بھی برا ہے۔ شعیب ملک ثانیہ مرزا کی شادی ہو یا عمران خان اور ریحام خان کا بندھن، کسی اداکار اداکارہ کی برسی ہو یا سالگرہ یا کوئی اور تماشا، میڈیا کے پاس ایسے کاموں کے لیے وقت کی کوئی کمی نہیں مگر افسوس کہ پیرس واقعہ کے بعد رونما ہونے والی صورت حال میں نہ کوئی ٹاک شو ہو رہا ہے نہ خبروں میں کوئی تبصرے۔ مسلمانوں کو ایک پرزور اور پر امن احتجاج کے لیے تیار کرنے کیلئے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور علماء کا بہت اہم کردار ہے مگر افسوس ہر طرف ہو کا عالم ہے اور لگتا ایسا ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اے میرے رب ہم کس منہ سے نبیؐ کا آخرت میں سامنا کریں گے۔

Post a Comment

0 Comments