Pakistani 18+ Media


پیچیدہ تخلیق
آج کل کچھ اتنی عجیب باتیں سننے اور واقعیات دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ عقل کے نام پر ایک بھرپور ماتم کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے . کبھی کسی زمانے میں سنا کرتے تھے کہ اکا دکّا ہی زنا جیسے غلیظ واقعیات کا پر اب تو یہ روز کا معمول بن گیا ہے اور افسوس صد افسوس کہ معصوم بچیاں بھی اس سے محفوظ نہیں رہی ہیں اور واقعیات ایسے کہ لکھنے بیٹھوں تو انگلیاں دماغ کا ساتھ دینا چھوڑ دیتی ہیں زبان گنگ ہو کر رہ جاتی ہے اور سوچ اس راہ سے ہی پلٹ کھا جاتی ہے کہ جس سوچ کی بنا پر یہ قبیح فعل انجام پایا گیا .

پچھلے دنوں کچھ واقعیات اور کرتوت لکھے تھے میڈیا کی حد سے بڑھتی ہوئی آزادی پر تو کچھ دوستوں نے کہا ارے یار اس میں میڈیا کا کیا قصور ؟ یہ تو انسان کی اپنی سوچ کے اوپر ہوتا ہے اب میں کیا کہوں کہ میرے یہ ناداں دوست "آزاد میڈیا" کے سرپرست ا علیٰ "ابلیس" کی زبان استعمال کر رہے ہیں جیسے وہ روز محشر کھے گا " میرا کیا قصور میں کوئی ہاتھ پکڑ کر تھوڑی نہ کہا تھا " .

ارے پورا دن ننگ دھڑنگ اور واہیاتی کا بازار سجا کر رکھو گے تو کیا توقع رکھتے ہو پھر ؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں مادیت کی بنا پر نکاح کو مشکل سے نا ممکنات کی طرف لے جایا جارہا ہے وہاں نوجوان نسل ہر وقت لباس کے نام پر چیتھڑے پہنے ہوئی بنت حوا دیکھیں گے تو نتیجہ کیا ہوسکتا ہے ؟

بےحیائی اس دھیمے زہر کی طرح ہے جو خاموشی سے موت کی طرف لےکر جاتا ہے اور پتا تب چلتا ہے جب مریض آخری سانسیں لے رہا ہو مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں جب ہم پی ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھا کرتے تھے اور اگر اس میں کوئی خاتون کسی مرد سے ہاتھ ملاۓ تو ہم آنکھیں بند کرلیتے تھے کہ یہ کیا بے شرمی ہے اور پھر گھر میں پابندی لگ جایا کرتی تھی کہ یہ ڈرامہ کوئی نہیں دیکھے گا پر آج دھیرے دھیرے یہ خاموش زہر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہاتھ ملانا تو دور کی بات کچھ بے شرم تو بوسہ لینا بھی "کردار کی ڈیمانڈ" سمجھنے لگے ہیں پر کوئی کچھ نہیں کہتا کہیں بھی اس فحاشی کی روک تھام کی کوئی آواز نہیں اٹھتی اگر کوئی آواز اٹھاۓ بھی تو اسے تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے "پڑھے لکھوں" کی محفلوں میں .

میرے استاد جی ایک دن مجھے ایک قصّہ سنا رہے تھے کہ " جہانگیر پتر میرا ایک رشتےدار یہاں کراچی میں نوکری کی غرض سے آیا اور فشری کے پاس ہی کسی علاقے میں رہنے کے لئے مکان لیا اب وہاں مسئلہ یہ ہوا کہ مچھلیوں کی بو کی وجہ سے اس محلے میں قدم رکھنا بھی محال ہوتا تھا کسی دوسرے محلے والے کے لئے. پر یہ صاحب بہت ہی صفائی پسند تھے انھوں نے مجھ سے کہا آپ دیکھنا میں اپنے گھر سے اس بو کو ختم کر کے ہی رہوں گا . اور پھر وہ روزانہ دن میں ٢ سے ٣ بار پورا گھر دھوتا اور مختلف پرفیومیں چھڑکتا اور پھر کچھ ہفتوں بعد بقول اسکے اس نے بو ختم کردی تو استاد جی کو اپنے گھر بلایا اور بڑی فخر سے کہا کہ دیکھو اب میرا گھر ہی کیا بلکہ پورے محلے میں ہی کوئی بد بو نہیں رہی .. تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا پر جہانگیر پتر بد بو تو اب بھی آ ہی رہی تھی ...

ارے استاد جی جب بدبو آ رہی تھی تو آپ نے اسکی بات پر اعتراض کیوں نہیں کیا اور اسنے جھوٹ کیوں بولا کہ بدبو نہیں آرہی ؟؟

" جہانگیر پتر دراصل بدبو میں رہتے رہتے اسکے دماغ نے اسے قبول کرلیا تھا اور جس چیز کو دماغ قبول کرلے پھر چاہے وہ کچھ بھی ہو اسکا نقص مر جاتا ہے ویسے ہی دماغ نے اس بو کو قبول کرلیا تھا لہٰذا وہ اسکی نظر میں بدبو ہی نہیں رہی تو اسے کیا سمجھ لگتی یا میں کیا سمجھاتا ؟؟

آج یہ واقعیہ کچھ دوستوں کی حالتوں پر پورا اترتا ہے بے حیائی دیکھتے دیکھتے ان کا دماغ اسکے زیر اثر آگیا ہے لہٰذا اب انہیں بے حیائی روشن خیالی اور جدت پسندی دکھنے لگی ہے کیوں کہ ان کے دماغ نے اسے قبول کرلیا ہے ان کے پاس ہزاروں خود ساختہ وجوہات ہیں یہ بتانے کی کہ بوسہ لینا تو بے حیائی ہے ہی نہیں اور پھر جیسے جیسے یہ "سلوو پائیزن " اپنا اثر دکھاتا رہے گا ان کی حیا والی حس مرتی جاۓ گی اور ایک دن یہ بے لباسی کو بھی بے حیائی کے زمرے سے نکال پھینکھیں گے جیسے مغرب آج کر چکا ہے . 

میرے سوہنے نبی پاک (ص) نے صدیوں پہلے ہی کہ دیا تھا

جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو . ( الحدیث ) 

یعنی جب حیا ہی نہ ہو تو ساری برائیاں برابر ہیں پھر اگر کسی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی ہو تو سب سے پہلے خود کو پیٹو تم بھی اتنے ہی قصوروار ہو جو بے حیائی کو غلط نہیں سمجھتے اور میڈیا کی مثال تو وہی ہے کہ انہیں سٹوریاں مل جاتی ہیں پہلے بے حیائی کا بیچ بوتے ہے پھر ہوس کا پودا اگ کر جب درخت بن جاتا ہے اور اپنی شاخیں کسی کے آنگن میں اتارنے لگتا ہے تو یہ واویلا کرنا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو ظلم ہوگیا پر کوئی ان سے یہ تو کہے کہ وہ تم ہی تو ہو جس نے یہ بیچ بوۓ . 

( ملک جہانگیر اقبال کی کتاب Tangled Creation پیچیدہ تخلیق سے اقتباس ) 

Post a Comment

0 Comments