یوم آزادی اور ہم

Allama Hisham Elahi Zaheer

14 
اگست وہ عظیم دن ہے جب مسلمانان ہند کی ایک صدی پر محیط کاوشیں اور قربانیاں رنگ لائیں،مسلمان اس قطعہ ارضی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،جہاں وہ آزادی سے اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنا سکیں گے۔
اس ریاست کے بنیادی خدوخال اسی وقت واضح ہو گئے تھے جب سندھ میں سترہ سالہ محمد بن قاسم نے ایک مسلم دوشیزہ کی عصمت کی حفاظت کے لئے ایک سرکش راجہ کو شکست دے کر اپنی عادلانہ ریاست قائم کی تھی۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ
اس ریاست کی بنیاد تو اسی دن رکھ دی گئی تھی جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ۔
اس ریاست کے قیام کا مقصد صرف علاقائی حدود کی حفاظت نہیں بلکہ نظریاتی حدود کی حفاظت تھا جس کی حفاظت مسلمانان ہند کا مقصد اولین اور ان کی ضرورت تھی ۔
اس لئے کہ دینی، سماجی، معاشی، ثقافتی ،تمدنی اور سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں کا ایک الگ قومی تشخص ہے ۔
1:ہندو گائے کو مقدس ماں کا درجہ دیتے جب کہ مسلمان اس کا ذبیحہ کرتے ہیں۔
2: ہندوں کے مندراور بتوں کی پوجا جبکہ مسلمانوں کی مسجد اور خدائے واحد کی عبادت۔
3؛ہندوں کے ہاں چھوت چھات جب کہ مسلمانوں کے ہاں اخوت و مساوات، غرضیکہ کہیں بھی میل ملاپ کی گنجائش نہ تھی نہ ہے اور نہ ہو گی ۔
پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام تھا جس میں رب ذوالجلال کی حاکمیت کے سائے تلے مسلمان دین متین کے سنہری اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے نعرہء توحید کو اپنا شعار بنایا اور آہستہ آہستہ یہ نعرہ برصغیر میں بسنے والے ہر مسلمان کا نعرہ بن گیا ۔
پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ لا الہ الا اللہ
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ لا الہ الا اللہ

اس ریاست کے حصول کے لئے مسلمانان ہند نے بہت قربانیاں دیں ۔
ہزاروں لوگ تہہ تیغ ہوئے ، عصمتیں لٹیں ، معصوم بچے مارے گئے۔

یہ سب پاکستان کے نام ہو گئے اس لئے کہ پاکستان کا قیام ایک مقصد تھا ایک ضرورت تھی ،ایک نصب العین لے کر مسلمانان برصغیر اپنا تن من دھن قربان کر رہے تھے۔
اسی مقصد کےلئے مسلمانان ہند نے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے انہیں خون کا دریاعبور کرنا پڑا ۔جو وہ بخوشی عبور کرآئے۔۔۔۔ ۔۔۔۔
لیکن یہاں آکر معلوم ہوا ؎
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا،جو سنا افسانہ تھا۔
نصف صدی سے اوپر عرصہ گزر گیا لیکن پاکستان میں اسلام غالب ہو سکا نہ جمہوریت ہی اسے راس آئی۔اسلام اور پاکستان زندہ باد کے خوش کن نعرے ضرور لگتے رہے۔اب ہم گلی کوچوں میں ،سڑکوں اور بازاروں میں سبز ہلالی جھنڈیاں ہاتھوں میں تھامے اس قسم کے گیت گا رہے ہیں۔ ؎
اعلان ہوا آزادی ہے محکوموں کو آزادی ہے
اب پاکستان ہمارا ہے مظلوموں کو آزادی ہے
ہر بیٹی کو آزادی ہےبازاروں میں آوارہ ہو
چہرے سے کرنیں پھوٹیںرنگینی کافوارہ ہو
ہر لیڈر کو آزادی ہےیاں طوفانی تقریر کرے
نفسانیت کے گارے سےاغراض کا گھر تعمیر کرے
آج ہم امریکہ اور مغربی دنیا سے مرعوب ہو کر ان کی قدروں کو سینے سے لگا رہے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے معاشرتی نظام کی تباہی پر ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ہم فیشن پرستی اور ہوس زر کی دوڑ میں اخلاقی ہی نہیں بلکہ حلال و حرام کی قدروں سے بھی بے نیاز ہوتے جا رہے ہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ آقائے نامدار احمد مجتبیٰ محمدمصطفیٰﷺ کی امت ہو کر نافرمانی اور سرکشی کا بار گراں اٹھائے نامعلوم سمت میں بھاگے جا رہے ہیں۔۔کیا یہی آزادی ہے۔۔۔۔؟
یوم آزادی کے موقع پر ہمیں اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا عہد کرنا چاہیے۔ورنہ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ ؎
نہ جا اس کے تحمل پہ کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا؛

Post a Comment

1 Comments

Need Your Precious Comments.