منکرین حدیث کی شناختی علامات



منکرِ حدیث کو منکرِ حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ منکرین حدیث کی شناختی علامات کیا ہیں ؟

عالمی کلیہ ایک یہ ہے کہ :
کسی بھی چیز کواس کی اصل حیثیت میں تسلیم نہ کرنا ہی درحقیقت اس چیز کا انکار ہوتا ہے !
مثلاً : ایک شخص اپنی اولاد کو اپنی اولاد ماننے کو تیار نہ ہو بلکہ بھانجا ، بھتیجا یا اور کوئی بھی رشتہ جو آپ منوانا چاہیں، ماننے کو تیار ہو تو کیا اس شخص کو اپنی اولاد کا منکر نہیں کہا جائے گا ؟؟
اسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوں کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں منکرحدیث نہیں تو اور کیا کہا جائے گا ؟؟!!

قرآن کریم بنیادی طور پر عقیدہ اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر و بیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کےلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنا از بس ضروری ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میں مبتلا افراد کو "منکرین احادیث" کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برا مان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں "منکر حدیث" نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کا محافظ یا ناموس رسالت کی حفاظت کرنے والا کہا جائے۔

ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔
منکرین حدیث کی "شناختی علامات" کو واضح طور پر بیان کردیا جائے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہوا ہے اپنا محاسبہ خود کرلے اور اس گمراہی سے تائب ہوجائے ۔۔۔۔
اور
عوام الناس منکرین حدیث کو ان کی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کر ان کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہ سکیں !!

اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اور یہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جو صحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!

منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسر بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔

منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جو کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کو چھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہے 

منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں

ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں

منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں
اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں
بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں
ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
اقتباس:
بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506

"کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کو علم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کو اس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں
منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے اس لئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کا پردہ بھی چاک کر دیا جائے
تاکہ معلوم ہو جائے کہ

قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے
اور کہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ؟


اولاً : عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں
اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :

بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے
( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے

اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کا انجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :

(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤ میں بتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ کھلاہو یا چھپاہو اورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲ نے حرام کیا ہو یہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کا حکم دیا جارہا ہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہیں تھیں اور ان احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہے تاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کو اپنے اوپر کوئی بوجھ نہ سمجھیں

عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے
لیکن منکرین حدیث کے سرخیل پرویز صاحب نے صرف اسی کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جو تمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ''علم '' کے معنی ہی'' جاننا '' ہیں
اورعلامہ کا مطلب ہے بہت زیادہ جاننے والا
یعنی عالم دین اسی شخص کو کہاجائےگا جو قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کوجانتا ہو کیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں اقوال ،افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں ۔

اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبراورعلم منطق کے ماہرافراد کے راستےکو صراط مستقیم ہونا چاہیے تھا جبکہ ایسا نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اورحصول علم کے طریقوں کے بھی منکرہیں !!

ورنہ پرویز صاحب علماء کرام کے متعلق حوالہ جات کی فہرست اورمحض حافظ جیسے الفاظ استعمال کرکے اہل علم سے بدظن نہ کرتے !
اوراب اس کانتیجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کے پیروکارحضرات اپنے گھر میں کبھی کوئی قرآن کی تفسیر یا حدیث کی کتاب یااس کی شرح نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔
انجام کار جو پرویز صاحب نے کہا پرویز صاحب کی روحانی اولاد بھی آج وہی کہہ رہی ہے
اور جس کے حوالے جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح اپنے ہی دینِ حنیف کے علماء کرام کو مولوی / ملا کہہ کر اپنی عقل کو برتر اور علماء کو پستی کا شکار بتایا جا رہا ہے !!

اپنی عقلی برتری کی تصدیق یا تردید کا کوئی بھی ذریعہ جناب پرویز اور ان کے متبعین کے پاس نہیں ہے اس طرح بے علمی کے ساتھ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔

منکرین حدیث کی ایک چھٹی شناختی علامت بھی ہے :
جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جوانکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پرنہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں
ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں ماننے

مثلاً بعض حضرات اپنے آپ کو منکرحدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنااور اطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اوراحادیث پرعمل ہے ، لہذا جہاں قال اﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی

ان صاحبان نے قرآنی آیت اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طورپر نامکمل اورغلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث ، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اورتقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہاجاتاہے
یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کو بھی حدیث کہا جاتا ہے اوراس کے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
اسی طرح ہر وہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہاجاتا ہے۔
پس معلو م ہوا کہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ — 


Post a Comment

3 Comments

  1. السلام علیکم بھائی بہت خوب صورت تحریر ہے میں اسے فیس بک پہ پیسٹ کر رہا ہوں اجازت ہے؟محمدشھباز

    ReplyDelete
  2. بہت خوب صورت تحریر ہے۔ماشاء اللہ

    ReplyDelete
  3. اللہ آپ کو اس کی جزاء ادے گا۔

    ReplyDelete

Need Your Precious Comments.