فوج براہ راست مداخلت نہیں کرے گی، عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں کردار ادا کریگی



فوج براہ راست مداخلت نہیں کرے گی، عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں کردار ادا کریگی
ـاسلام آباد (جاوید صدیق) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پیپلز ڈیلی کو دئیے جانے والے انٹرویو میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی طرف سے سپریم کورٹ میں میمو سکینڈل کے سلسلے میں دئیے گئے بیانات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا تو یہی توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ فوج سخت ردعمل ظاہر کرے گی۔ وزیراعظم نے چینی اخبار کو یہ انٹرویو ایسے وقت دیا جب آرمی چیف چین کے دورے پر تھے۔ وطن واپسی پر آرمی چیف نے وزیراعظم کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے رفقا اور قانونی مشیروں سے مشورے کے بعد سخت ردعمل ظاہر کیا۔ فوج کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ فوج نے جو بیانات سپریم کورٹ میں جمع کرائے وہ سپریم کورٹ کے حکم پر وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کے توسط سے جمع کرائے اس لئے یہ اقدامات غیر آئینی نہیں تھے، فوج کے ردعمل سے ملک میں اچانک بھونچال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے سیکرٹری دفاع کو برطرف کرنے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ حکومت آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بھی ختم کرنا چاہتی ہے مگر وفاقی وزیر خورشید شاہ نے اس کی تردید کر دی۔ حکومت ایک طرف تو این آر او کے معاملے پر سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اب اس نے فوج کے ساتھ بھی ٹکر لے لی ہے۔ باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اس کی کوشش ہے کہ وہ لڑتے لڑتے اقتدار سے جائے اور عوام کو یہ تاثر دے کہ مقتدر اداروں نے سازش سے انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا ہے ورنہ وزیراعظم کو ایسے موقع پر جب آرمی چیف چین کے دورے پر ہیں چینی اخبار کو انٹرویو دے کر ان پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ عدلیہ کے ساتھ حکومت نے گزشتہ دو سال سے محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکومت خاص طور پر صدرکو سخت پریشان کر رکھا ہے۔ منگل کی رات ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ قومی اسمبلی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا مگر بدھ کو فوج کا ردعمل سامنے آنے کے بعد اب حکومت کو دو محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اب شاید حکومت کا ساتھ نہ دے سکیں۔ کچھ حلقوں کا دعوی ہے کہ بعض نادیدہ قوتیں کوشش کر رہی ہیں کہ حکومت قومی اسمبلی میں اپنے اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہو جائے تو پھر اس کے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ آئندہ اڑتالیس گھنٹے بہت اہم ہیں۔ اسلام آباد میں کچھ باخبر حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ 16 جنوری کو جو لاجر بنچ این آر او کے معاملے پر سماعت کرے گا وہ وزیراعظم اور بعض کلیدی کرداروں کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق فوج براہ راست مداخلت نہیں کریگی مگر وہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے بھرپور کردار ادا کرے گی۔ بہرصورت اگلے دو ہفتے ملکی سیاست میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ اب اس حکومت کے قدم جم نہیں سکتے، ملک نئے انتخابات کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔


Post a Comment

0 Comments