افغان جنگ کے دس سال بعد۔۔آئی ایس آئی پر غصہ کیوں؟ ابو صخر



امریکہ: پاکستانی فوجی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ لڑائی کھل کر نمایاں
امریکی فوجی حکام کی پاکستانی فوجی انٹیلی جنس ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ساتھ لڑائی کھل کر نمایاں ہو گئی۔ ٹاپ امریکی فوجی حکام نے کھل کر الزام عائد کیا ہے یہ انٹیلی جنس ادارہ طالبان اور دوسرے انتہاءپسند گروپوں کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ پینٹاگون کے ترجمان کرنل ڈیوڈ لپان نے کہا پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی جو خود بھی اس ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں، امریکہ کے خدشات سے آگاہ ہیں ۔ غیر ملکی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کو امریکی جاسوس ایجنسی سی آئی اے کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

یہ ادارہ 1948ءمیں قائم ہوا تھا۔ افغانستان پر روسی تسلط کے دوران انیس سو اناسی سے نواسی میں اس کی اہمیت بڑھ گئی اب اسے ترقی یافتہ دنیا کی بہترین نظم و ضبط کی ایجنسی مانا جاتا ہے۔ آئی ایس آئی نے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین تیار کئے تھے۔ اسے عرب ملکوں اور مغرب سے ہتھیار ملتے تھے بعد ازاں اس نے طالبان بنائے۔ القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان نے ان کی حمایت ختم کر دی تھی لیکن افغانستان میں مغربی ملٹری کمانڈروں کا کہنا ہے آئی ایس آئی کا افغان طالبان سے رابطہ قائم ہے۔ فوج اس سے انکار کرتی ہے تاہم اس کا کہنا ہے ایجنٹوں کا عسکریت پسندوں سے تعلق رکھا جاتا ہے کئی سیکیورٹی ادارے اس طرح کرتے ہیں کیونکہ انٹیلی جنس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے۔


افغان جنگ کے دس سال بعد۔۔آئی ایس آئی پر غصہ کیوں؟

ابو صخر

افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج حملے کے دس سال بعد ایک ایسی بند گلی میں آکھڑی ہیں جہاں انہیں واپسی کی راہ دکھائی نہیں دے رہی ۔اس جنگ میں امریکہ ،افغانستان اور بھارت نے مختلف جہتوں میں تعاون کی پالیسی جاری رکھی لیکن دس سال بعد تینوں حکومتیں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو قرار دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف افغانستان کے عوام با لخصوص نوجوان طبقے کی طرف سے امریکی افواج کے انخلاءکے لیے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جو ان ممالک کو پیغام دے رہے تھے کہ جہاں طالبان سے جنگی میدان میں وہ شکست کھا رہے ہیں وہاں عوام بھی ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ بھارت افغانستان میں مختلف مفادات کے پیش نظر اپنا تعاون بڑھا رہے ہیں اور امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیاءمیں ایک ”بدمعاش“ریاست کے روپ میں دیکھنا چا ہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے ہمیشہ افغان بھارت تعاون کی حوصلہ افزائی کی ہے،لیکن دوسری طرف یہ بات بھی عیاں ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں بھارت کی غنڈہ گردی کی راہ میں پاکستان رکاوٹ ہے اور اپنے ملک کے سلامتی کے حوالے سے اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کرداران سے پوشیدہ نہیں ہے ،افغانستان میں بھارت امریکی قیام کی وجہ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اب امریکی انخلاءکے بعداسے اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے جسے بچانے کے لیے وہ ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے ۔
نائن الیون کی دسویں برسی کو گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ افغانستان کے صدرحامد کرزئی نے بھارت یاترا کے بعداس کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں اس معاہدے کی دلچسپ بات بھارت کی طرف سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت اور جنگی آلات مہیا کرنا ہے۔افغانستان کے ساتھ اس معاہدے پر بھارت کے اندرونی حلقے بھی شدید اعتراض کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حامد کرزئی کی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو رہی ہے اور طالبان کی واپسی کے چانس بہت ذیادہ ہیں۔دلی کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسس کے تجزیہ کار اروند گپتا کہتے ہیں کہ ”بھارت کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں “
بھارت کے بعض مبصرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت کو افغانستان کے دیگر تمام فریقوں سے بات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے بھی مذاکرات کرنے چاہیں۔ قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر ستیش چندر کہتے ہیں کہ’ ’ہمیں افغانستان میں مغربی مداخلت سے دوری پیدا کرنی چاہیے اور ساتھ ہی طالبان پر غیر ضروری نکتہ چینیوں سے احتراز کرنا چاہیے اس سے طالبان سے بات چیت شروع کرنے کے لیے راہ ہمورار ہو سکے گی“۔
بھارت یاترا سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت اور نیٹو افواج ملک میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے دس برس بعد بھی افغانوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔حامد کرزئی اپنی ہی نہیں بلکہ امریکہ کی قیادت میں لڑنے والی نیٹو فورسز کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اور افغانستان کے لیے پاکستان کی مجموعی پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان پاکستانی مدد کے بغیر انگلی بھی ہلاسکیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صدر اور وزیراعظم افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ایسا پاکستانی حکومت کے افغان انتظامیہ کے ساتھ طالبان کے محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف وہ اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ آئندہ مذاکرات طالبان سے نہیں بلکہ پاکستان سے کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں (طالبان)کے خلاف جنگ میں دوہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں(ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا) سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا ’حقیقت میں ہمیں حکومتوں کا سامنا ہے اور ان قوتوں کا نہیں جن کا دارومدار ان حکومتوں پر ہے۔انھوں کہا ’اس لیے ہمیں مرکزی قوتوں سے بات کرنی چاہیے جن کے پاس اختیار ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
افغانستان ،بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر ہرزہ سرائی کر نے میں کسی سے پیچھے نہیں اور افغانستان میں ہر لگنے والے زخم کا ذمہ دار اسے گردانتا ہے۔
امریکہ فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے الزام لگایا ہے کہ کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملوں میں ملوث شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آلہ کار ہے اور مزید کہا کہ وہ پہلے بھی لشکر طیبہ کے افغانستا ن میں کاروئیوں کہ جس نے انکے ناک میں دم کر رکھا ہے ،نشاندہی کر چکے ہیں۔
امریکی کمانڈر نے سینیٹ کے ارکان کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل میں نیٹو اور امریکی فوج کے اڈوں پر حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس کی مشاورت اور معاونت سے تیار کیا تھا۔
یڈرمرل مولن نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان تشدد برآمد کر رہا ہے جس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف دس سالہ جنگ کا نتیجہ بھی ناکامی میں نکل سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے سامنے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتے قبل اپنے آخر بیان میں انہوں نے کہا افغانستان میں کامیابی حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروپوں کو پاکستان کے تعاون خطرے میں پڑ گئی ہے۔مولن نے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے تشدد کو ایک پالیسی کے تحت اختیار کیا ہے، پاکستان تشدد برآمد کر کے اپنی داخلی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور خطے میں اپنی ساکھ کو بھی مجروح کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا بھی کانگرس کے سامنے اس سماعت میں موجود تھے۔لیون پنیٹا نے کہا کہ پاکستان کے فوجی حکام کو واشگاف الفاظ میں بتایا دیا گیا ہے کہ سرحد پار ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
پنیٹا نے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیویڈ پیٹریئس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل شجاع پاشا سے اپنی حالیہ ملاقات میں یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔
پنیٹا نے کہا پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’ہم اس بات کی اجازت نہیں
دے سکتے کہ اس طرح کے شدت پسندوں کو سرحد پار کر کے ہماری فوجوں پر حملہ کرکے واپس پاکستان اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔‘
امریکہ بھارت اور افغانستان کے آئی ایس آئی اور پاکستان کے خلاف اس ناپاک مہم سے یہ بات تو سامنے آرہی ہے کہ جنوبی ایشیا ءمیں بھارت کی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سے انہیں کس قدر پریشانی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کرمحفوظ راستہ تلاش کر سکتا ہے ؟؟؟جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو حالات ثابت کر ہے ہیں کہ اس خطے میں سی آئی اے جس طرح بھارتی ایجنسی ”را“کو اس خطے کے سیاہ سفید بنانا چاہتی ہے اسے اس میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔


Post a Comment

0 Comments