HUM TO DOBAIN GAIN SANAM, TUMAIN B LAY DOBAIN GAIN


میں گیا تو اپوزیشن بھی جائے گی اور ہماری زندگی میں الیکشن نہیں ہونگے: گیلانی


اسلام آباد + پشاور (نوائے وقت رپورٹ + بیورو رپورٹ) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ اگر آج استعفیٰ دے دوں تو کیا اپوزیشن حکومت بنا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت نہیں بنا سکتی وہ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جو ان کے بس میں نہیں، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ میں بھی جاوں اور آپ بھی جائیں اور پھر ہماری زندگیوں میں کبھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ سینٹ کے اجلاس میں مختلف سینیٹروں کے نکتہ اعتراضات کے جواب میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ میمو کیس سپریم کورٹ میں لے جانا پارلیمنٹ کے خلاف سازش ہے، آئین کی پاسداری ہی سے ملک مضبوط ہو گا۔ آئین سے انحراف ہوا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پلی بارگین اور این آر او ایک ہی چیز کی دو صورتیں ہیں۔ ماضی میں جو چوروں سے معاہدے کئے گئے کیا یہ این آر او نہیں، تھوڑی رقم لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے کیا یہ این آر او نہیں ہے۔ ہم باہر سے نہیں لائے گئے آپ ہی میں سے ہیں ہمیں ملک کو، اداروں کو اور جمہوریت کے استحکام کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ یہاں مولانا مودودی، ولی خان اور اکبر بگٹی کو ڈکٹیٹر کہا گیا، یہ روش اب ختم ہونی چاہئے، اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو اس ملک کے ساتھ خدانخواستہ وہ ہو گا جو پہلے ہو چکا ہے۔ اگر کسی کو میری شکل پسند نہیں تو وہ دوسرا وزیراعظم لے آئیں۔ یہ وہ پارلیمنٹ ہے جس کے مشترکہ اجلاس میں پہلی بار آرمی چیف، سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی پیش ہوئے، اس پارلیمنٹ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد ہوا۔ نیٹو سپلائی بند کرنے اور شمسی ایئر بیس امریکہ سے دو ہفتوں میں خالی کرانے کے فیصلے وہ جرات مندانہ فیصلے ہیں جو اس سے قبل نہیں لئے گئے۔ بون کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے نجانے کون کون سے دباو آئے مگر ہم نے ان تمام دباو کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے بون کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ ماضی میں ایک فون کال پر سب کچھ مان لیا جاتا تھا، ہمیں اپنے ملک کی خودمختاری اور سلامتی عزیز ہے، ہم نے وہ فیصلے کئے جو ملک کے عوام کے فیصلے تھے۔ نیٹو کے ساتھ معاملات ہوں، بھارت، افغانستان کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے معاملے پر پالیسی ہو یا نیوکلیئر پالیسی اب تمام فیصلے پارلیمنٹ کرے گی۔ صدر شوریٰ کا اہم جزو ہیں، اس میمو کی کوئی وقعت نہیں یہ بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی بیک گراونڈ نہیں، اس شخص کو معتبر بنایا جا رہا ہے جس کے ساتھ ایک بھی پاکستانی نہیں اس شخص کے میمو کو عدالت لے گئے ہیں۔ میمو کو عدالت میں لے جانے کا کیا مقصد ہے؟ کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا ہی ہے تو ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہئے، ہمیں کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، سہروردی کی بات نہ مانی گئی اور ملک ٹوٹ گیا۔ حسین حقانی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر وہ آیا اور اس نے استعفیٰ بھی دیا۔ ہر انسان بیمار ہو سکتا ہے، بیمار ہونا کوئی سزا یا گناہ نہیں، صدر بھی ایک انسان ہیں وہ بیمار ہوئے، وہ پمز منتقل ہونا چاہتے تھے مگر انہیں جان کا خطرہ تھا۔ صدر کو ان کی فیملی اور ہم نے علاج کے لئے باہر جانے پر رضامند کیا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے، ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے جو انسانیت کے خلاف ہوں۔ ہر چیز کرپشن یا بدانتظامی نہیں ہوتی، اس کی 101 وجوہات ہوتی ہیں، میں ایوان میں اس پر تفصیلی بحث کرنے کو تیار ہوں۔ ماضی میں دوتہائی اکریت رکھنے والی جماعتوں کو بھی برطرف کیا گیا۔ حکومت یا وزیراعظم اہم نہیں یہ ملک اور پارلیمنٹ اہم ہیں، جمہوریت رہنی چاہئے، بھٹو اور محترمہ نے وزارت عظمیٰ کے لئے نہیں جمہوریت کی بقا کے لئے جانیں قربان کیں، عوام اب کسی ڈکٹیٹر کو قبول نہیں کریں گے۔ میڈیا اور عالمی برادری بھی کسی ڈکٹیٹر کو قبول نہیں کرے گی۔ جب عوامی حکومت آتی ہے تو اس میں کوتاہیاں نظر آتی ہیں مگر جب وہ حکومت چلی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ کام ہوا ہے۔ 3ڈکٹیٹر دس دس سال کے لئے آئے اور کہا کہ ہم کرپشن ختم کر دیں گے، ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف چلے گئے مگر کرپشن ختم نہیں ہوئی، مشرف نے انہی کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت چلائی۔ بھارت میں 1960ءتک ایک ہی لیڈر نے ملک چلایا، ہماری لیڈر شپ کو تو 1958ءمیں ختم کر دیا گیا اور پھر انڈر 19 ٹیم کو حکومت چلانے کے لئے لایا گیا۔ ملک کیسے ترقی کرتا کسی کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ کمزور دل حضرات کو پلی بارگین کے ذریعے نجات ملی جو ہم جیسے سخت تھے ان کے لئے این آر او بنا، این آر او اور پلی بارگین ایک ہی چیز کی مختلف صورتیں ہیں، اگر ہم نااہل ہیں تو آپ ہی میں سے ہیں ہم باہر سے نہیں آئے، ہم اسی ایوان میں سے ہیں، آپ ہماری حمایت نہ کریں مگر پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں، جمہوریت کی حمایت کریں اگر میری شکل پسند نہیں تو عدم اعتماد لے آئیں اگر صدر زرداری پسند نہیں مواخذے کی تحریک لے آئیں۔ آئینی راستہ اختیار کریں۔ مستقبل میں بھی اتحادی حکومت بنے گی، کوئی جماعت اکیلی حکومت نہیں بنا سکتی۔ جو لوگ ”میوزیکل کنسرٹ“ میں اعلان کر رہے تھے کہ ہم نے نیٹو سپلائی لائن بند کرا دی ہے، وہ یاد رکھیں کہ میوزک کنسرٹ سے سپلائی لائن بند نہیں ہوتی۔ سپلائی لائن اب بند ہوئی ہے جسے ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ اس سے قبل پشاور میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ملک کو مستحکم کرنے کے لئے افواہوں کا کلچر ختم کرنا ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات کی پالیسی عوامی حمایت سے تشکیل دیں گے، شرپسند اور انتہا پسند عناصر سے مذاکرات نہیں ہوں گے، ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے خواہشمندوں سے بات چیت ہو سکتی ہے، ابھی ہم امریکہ سے روٹھے ہوئے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ناراضی برقرار ہے جب مانیں گے تو پھر دیکھیں گے تاہم امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع ہو گا۔ ضمانت چاہتے ہیں کہ نیٹو حملے جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر مشترکہ اجلاس میں بحث کریں گے اور پھر فیصلے کریں گے۔ نیٹو سپلائی کو روکنا پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عملدرآمد ہے۔ ہم نے ان قراردادوں پر عمل کر کے سارا گلہ ختم کر دیا۔ ملکی سلامتی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ عالمی برادری کو ہماری سلامتی، خودمختاری کا احترام کرنا ہو گا ہم سرحدی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔ سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہمیں ورثہ میں ملی۔ ہم اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ نیٹو حملے جیسے واقعات مستقبل میں رونما نہ ہوں۔ مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہم نے اس خطے میں ہی رہنا ہے امریکہ نیٹو اور ایساف سے برابری کے تعلقات چاہتے ہیں۔ فوجی مداخلت کی باتیں افواہیں ہیں تمام ادارے آئین کے دائرہ کار میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، امریکہ کو واضح کر دیا کہ اب بہت ہو گیا قومی سلامتی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے، اتحادی ممالک کو یاد کرایا ہے کہ پاکستان خودمختار ملک ہے، ایساف سے نئے تعلقات کار پر بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں ڈیڑھ ٹریلین کے ترقیاتی منصوبے مکمل کئے ہیں۔ سفیروں کی کانفرنس میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے فیصلوں کی مکمل توثیق کی۔ 
پشاور (بےورو رپورٹ) وفاقی کابینہ نے سٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے سمیت پبلک سیکٹر کے 8 اداروں کو خسارے سے نکالنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس مقصدکیلئے کابینہ کے اجلاس ہفتہ وار بنیادوں پر ہوں گے، کابینہ نے مصر اور برازیل کے ساتھ فنی تعاون کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے 270 ملین ریال قرضہ لینے کی بھی منظوری دی یہ رقوم آپریشن سے متاثرہ مالاکنڈ ڈویژن اور فاٹا کے علاقوں میں تعمیرنو و بحالی پر خرچ کی جائیں گی۔ گورنر ہاﺅس پشاور میں پہلی بار وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا جس میں گورنر خیبر پی کے مسعود کوثر اور وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے خصوصی شرکت کی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایاکہ وفاقی کابینہ نے سٹیل مل کو اب تک 30 ارب روپے کا بیل آﺅٹ پیکج دیا ہے۔ اجلاس میں سٹیل ملز کو خسارہ سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنانے پر تفصیلی بحث ہوئی۔ وزیراعظم نے متعلقہ محکمہ کو ہدایت کی کہ سٹیل مل کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر ایک ہفتہ کے اندر اندر سی ای او اور ڈائریکٹرکی خالی تین آسامیوں پر جلد سے جلد تعیناتی عمل میں لائی جائے جس کے بعد سٹیل مل کی بحالی کیلئے نئی انتظامیہ کی ترجیحات کی روشنی میں مزید بیل آﺅٹ پیکج دیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ گذشتہ سال افراط زر کی شرح 25 فیصد تھی جو اس سال کم ہو کر 12.5 فیصد رہ گئی ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ افراط زرکی شرح میں مزیدکمی لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ وزیراعظم نے چاروں صوبوں کو ہدایت کی کہ وہ مسیحی برادری کیلئے کرسمس بازار کا انعقاد کریں۔کابینہ نے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا بھی جائزہ لیا گیا، اس حوالہ سے کابینہ کو بتایا کہ 19 اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ دالوں، چکن اور آلو سمیت 10 آئٹمز کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے امیر حیدر خان ہوتی نے تسلیم کیاکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر چیک رکھنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلا س میں پاکستان سٹیل ملز کےلئے 11 ارب روپے کے بیل آوٹ پیکج کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں سٹیل ملز اور دیگر اداروں کو منافع بخش بنانے اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا۔


Post a Comment

0 Comments