وہ پاکستان کے خلاف ایک آواز ہیں، ہم پاکستان کیلئے ایک آواز کیوں نہیں؟ بھارت کیا سوچ رہا ہے…محمودشام



ہم جب آپس میں دست و گریباں ہیں، ایک دوسرے کو لٹیرے، سیکیورٹی رسک، وعدہ شکن، رہزن کہہ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں۔ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی بجائے ماضی کے گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں، تنظیم کی بجائے تقسیم ہو رہے ہیں۔ اتحاد کی بجائے انتشار میں مبتلا ہیں۔ جب ہمارے عظیم وطن کے ایک بڑے حصے میں ہمارے سجیلے جوان اپنے ہی ہم وطنوں کی دہشت کا مقابلہ کر رہے ہیں، جب غیر ملکی بے پائلٹ جاسوس طیارے ہماری سرزمین پر حملے کر رہے ہیں۔ ہماری سرسبز وادیاں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ہمارے بچے، بچیاں اسکولوں پر دہشت گردوں کی کسی بھی وقت کارروائی سے ہراساں ہیں، ایسے میں ہمیں اتنی فرصت کہاں کہ دیکھ سکیں۔ ہمارے ہمسائے ہمارے لئے کیا سوچ رہے ہیں۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ہمارے ہاں تو پاکستان نیشنلزم فروغ نہیں پاسکا۔ ہم ایک قوم نہیں بن سکے، لیکن ہمارے آس پاس تو بہت گہری قوم پرستی پائی جاتی ہے۔ امریکہ اور مغرب کا ہدف ایران ہو یا امریکیوں اور ناٹو فوجوں کی زد میں افغانستان، ادھر دنیا کی معیشت پر راج کرتا چین ہو یا وہی ہمسایہ جس سے ہم تین جنگیں لڑ چکے جہاں 21 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، جہاں اہل کشمیر مستقل مظالم کا شکار ہیں، ان سب ممالک میں نیشنلزم پورے زوروں پر ہے ہم تو اپنے مستقبل کی فکر بھی نہیں کرپاتے، وہاں صرف اپنے اپنے مستقبل کی فکر نہیں، پاکستان کے آئندہ کی بھی پریشانی ہے اور وہ اس روشنی میں تدابیر بھی اختیار کر رہے ہیں،تجاویز بھی،عملی اقدامات بھی،اور دنیا کو خبر دار بھی کررہے ہیں کہ پاکستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ ان آبادیوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سب سے زیادہ متفکر بھارت ہے، اس کی سرکار بھی اور لوگ بھی پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کس صورت میں کیا کرنا ہے۔ چند سرخیاں ملاحظہ کریں، میں تو یہ سب پڑھ کر کانپ گیا ہوں۔ معلوم نہیں کہ وہ ادارے، ایجنسیاں، شخصیات، تجزیہ کار، دانشور جن کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ ان تحریروں کو پڑھیں، ان کے عزائم کا جائزہ لیں۔ دیدہٴ بینا سے دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، کیا کرنے والے ہیں، ہمیں اس کے جواب میں کیا کرنا چاہیے۔ وہ اگر روڈ میپ بنا رہے ہیں، اپنے لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں، تیاریاں کر رہے ہیں تو ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ ایک قدر تو ان سب سرخیوں، آوازوں میں مشترک نظر آتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں ان کی سوچ ایک ہے۔ ان کی اسٹیبلشمنٹ نے جو خارجہ پالیسی تشکیل دے لی ہے سب اس سے اتفاق کرتے ہیں، کبھی کوئی اختلافی آواز سنائی دیتی ہے۔ وزراء، سیاستدان، تجزیہ کار، تاجر، دانشور سب ایک ہی عزم رکھتے ہیں اور اس وقت سب امریکہ سے دوستی کو مضبوط اور وسیع تر کرنے کی فکر میں ہیں اور اس وقت وزیراعظم من موہن سنگھ جب امریکہ کے دورے پر ہیں تو پورے بھارت کی آشیر باد ان کے ساتھ ہے۔ امریکہ سے دوستی کوکوئی کوئی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کہہ رہا، غیرت کا سوال نہیں اٹھ رہا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس واحد سپر طاقت سے تعلقات بہتر کر کے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی سیاسی، اقتصادی اور سماجی طاقت بنا جائے۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اور وہ خوش ہیں کہ اس کے بارے میں انہیں کوئی پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان خود بھی ایک دوسرے کو بدعنوان، لٹیرا، غیر جمہوری، دہشت گرد ثابت کر رہے ہیں۔ یہ مغرب کے ساتھ چلنا ہی نہیں چاہتے۔ جمہوریت ان کے ہاں پائیدار نہیں ہوئی۔ فوج کا سیول امور پر غلبہ رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں منظم نہیں ہیں۔ ایک بڑے بھارتی رسالے کا سرورق ہے کیا پاکستان بچ سکتا ہے۔ بھارت کو کیوں فکر ہو۔ پاکستان وجود و عدم کی سرحد پر، پاکستان ٹوٹنے کے قریب، کیا اسے بچایا جاسکتا ہے، اس رسالے کے ایک اور سرورق کی سرخیاں۔ بڑے خطرات، نکسلائٹس، دہشت گردی، پاکستان، چین، بھارت کو کیا کرنا چاہیے“ اس رپورٹ میں سابق جنرلوں، سفیروں، پروفیسروں، تجزیہ کاروں کی رائے لی گئی ہے۔ ایک تو اس سے یہ سبق سیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے وطن کی فکر کس طرح کر رہے ہیں، اس کے لئے کیا کیا راستے اختیار کر رہے ہیں۔ دوسرے ان سب کی پاکستان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ بنیاد یہ رکھی گئی ہے۔ ”بھارت کو ایک ضدی اور ہٹ دھرم پاکستان سے کیسے نمٹنا چاہیے۔“ ایک صاحب کا کہنا ہے اگر پاکستانی فوج طالبان پر فتح حاصل کرتی ہے تو ہمیں مشکل کا سامنا ہوگا، اگر جہادی جیتتے ہیں تو ہمیں اور زیادہ مشکل ہوگی اور ایک کا کہنا ہے 26 نومبر کے واقعات کے بعد ہی بھارت دنیا پر ثابت کر سکا کہ پاکستان ایک بدمعاش ملک ہے۔ پاکستان کو افغانستان اور ایران دونوں میں مسائل کا سامنا ہے، ہمیں ان دونوں صورتوں میں کام کرنا چاہیے۔“ پاکستان کو یہ احساس دلا دیں کہ کسی بھی دہشت گردی کی صورت میں اسے قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ نہ صرف سفارتی بلکہ دوسری بھی، ایک اور خطرناک تجزیہ، ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان یوگو سلاویہ بن رہا ہے۔ مملکت اور معاشرے کے درمیان بے اعتمادی ہے۔“ ایک سابق جنرل کہتے ہیں ”میں اس نظریئے سے اتفاق نہیں کرتا کہ بھارت کو پاکستان کے استحکام کے لئے کام کرنا چاہیے، اگر پاکستان خود ہی گڑھے میں گرنا چاہتا ہے تو اسے گرنے دیں، ہمیں تو اس کے مابعد اثرات کے لئے اپنی تیاری کرنی چاہیے۔“
کاش ہمارے ارباب اقتدار اپوزیشن، تجزیہ کار، یہ سب رپورٹیں تفصیل سے پڑھیں اور دیکھیں کہ ہماری بربادیوں کے کیا مشورے ہو رہے ہیں اور ہم آپس میں لڑ کر ان کے کام آسان کر رہے ہیں امریکہ میں موجود بھارتی سفارت کار، تجزیہ کار، تاجر بھی اس دوڑ میں آگے آگے ہیں۔ وہ بھی اس وقت یہی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ آخر میں ایک امریکی جریدے کے بھارتی نژاد مدیر کی رائے بھی ملاحظہ کریں۔ ”میک کرسٹل جیسے جنرل کتنے اسمارٹ اور سخت ہوں انہیں پالیسی بنانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ میدان جنگ کے لوازمات وسیع تر تناظر میں فرق نہیں کرپاتے، اوباما کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنوبی ایشیا ایک جنگل ہے جو ناکام اور غیر فعال ملکوں سے بھرا ہوا ہے۔ سوائے ایک مستحکم جمہوریت، ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ملک کے جو دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی دوسری معیشت ہے جو چین کے بڑھتے ہوئے عزائم کی سدّ راہ بھی ہے اور امریکہ کی فطری اتحادی بھی۔ امریکی دانشور پاکستانکی بگڑتی ہوئی صورت حال کو اجاگر کر کے افغانستان میں بھارت کو زیادہ سے زیادہ کردار دینا چاہتے ہیں ان کا استدلال ہے کہ مضبوط جمہوری نظام اور تیزی سے ترقی کرتا بھارت ہی افغانستان کو ایک سول سوسائٹی دے سکتا ہے پاکستان نہیں۔
ہم پاکستان کے عوام کو آس پاس ابھرتی ان سوچوں، خدشات سے باخبر ہونا چاہیے، ہمیں بھی دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے لئے اصل خطرات کیا ہیں۔ حقیقی مسائل کیا ہیں۔ حکمرانوں، فوجیوں، دانشوروں، اپوزیشن سب کو پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات کے لئے تو ایک سوچ رکھنی چاہیے۔ ایک سوچ کے لئے آپس میں مل کر ایک پالیسی اختیار کرنی چاہیے ورنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں…


Post a Comment

0 Comments