بنگلہ دیش کا قیام بھارت کا ”کارنامہ“ ہے‘ ازلی دشمن کو پسندیدہ ملک قرار دینا بدقسمتی ہے: مجید نظامی



لاہور( اشرف ممتاز+ خواجہ فرخ سعید) ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ و چیئر مین نظریہ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی نے کہا ہے کہ مجیب الرحمن بنگلہ دیش بنانے پر تلا ہوا تھا۔بنگلہ دیش کے قیام کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔کوئی بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا ۔بھارت نے بھی سقوط مشرقی پاکستان میں کردارادا کیا اس نے تقسیم ہند کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور آج بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ایک ازلی دشمن کو پسندیدہ ملک قرار دے رہے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے نوائے وقت ،دی نیشن کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔
س1:.... آپ کی رائے میں کون سا ایسا اقدام تھا جس نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے لوگوں میں فاصلے بڑھا دئیے؟ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ج: .... دراصل جب پاکستان بن رہا تھا تو پشاور سے لے کر راس کماری تک تمام مسلمان جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا وہ تقسیم ہند چاہتے تھے۔ ان میں بنگال کے مسلمان بھی ہم سے پیچھے نہیں تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو جغرافیائی فاصلے نے بہت سے مسائل پیدا کر دئیے ان میں سے ایک مسئلہ زبان کا بھی تھا۔ اس کے علاوہ جب دارالحکومت کراچی بنا تو بنگالی 
بھائیوں نے اسے بھی محسوس کیا کیونکہ اکثریت ان کی تھی اور انہیں بہکانے والے بھی بہت تھے۔ پھر اردو زبان ہماری 
قومی زبان بنی۔ 
جاتی ہے اور بنگالی ہندی (سنسکرت) رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں جیوٹ اور پٹ سن کی ایکسپورٹ کو بہت اہمیت دی جاتی تھی کہ اس سے فارن ایکسچینج کمایا جاتا ہے۔ بے شک خواجہ ناظم الدین، نورالامین، خواجہ شہاب الدین اور اس طرح کے بنگالی زعماءوزیر بھی بنے، وزیراعظم بھی بنے، گورنر جنرل بھی بنے لیکن بنگالی لیڈروں میں مولانا بھاشانی اور مجیب الرحمن ایسے لوگ بھی شامل تھے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جب بنگالی ایڈیٹر لاہور آتے تھے اور میں انہیں چائے یا کھانے کے لئے مال روڈ کے کسی ریستوران میں لے جاتا تھا تو وہ بظاہر ہنستے ہوئے ازراہِ مذاق مال روڈ کی سڑک یا بڑی عمارتوں کی طرف اشارہ کرکے ہنس کر کہتے تھے ”جیوٹ“ ، یعنی یہ عمارتیں ہماری جیوٹ / پٹ سن کی ایکسپورٹ سے بنی ہیںحالانکہ یہ تمام چیزیں قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھیں۔ اسی طرح مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں انہیں گورنمنٹ کالج دکھانے کے لئے گیا اور ٹاﺅن ہال دکھایا تو بظاہر انہوں نے ہنس کر ازراہِ مذاق کہا ”جیوٹ“۔ 
جب بنگلہ دیش بن رہا تھا مجیب جیل سے رہا ہوئے تومیں انہیں خواجہ عبدالرحیم بار ایٹ لاءمرحوم کے دفتر ڈنگا سنگھ بلڈنگ میں ملا۔ ان کا قیام ملک غلام جیلانی مرحوم کے گھر واقع گلبرگ میں تھا۔ قیام پاکستان کے بعد گلبرگ بالکل نئی بستی تھی۔ وہ بھی ان کے لئے حیرت کا باعث تھی تو میں نے مجیب صاحب سے کہا کہ الیکشن ہونے والے ہیں غالب خیال یہی ہے کہ آپ کی پارٹی عوامی لیگ جیتے گی تو آپ وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ پھر آپ اپنی اکثریت کی بنا پر ڈھاکہ کو دوسرا دارالحکومت قرار دے سکتے ہیں لیکن انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ سب کچھ فوج مجھے کرنے دے گی؟ میں نے کہا جب قومی اسمبلی آپ کے ساتھ ہو گی تو آپ یہ کر سکیں گے اور ناممکن نہیں ہو گا۔ لمبی بحث کے دوران میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ بنگلہ دیش بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پھر اتفاق سے بھٹو صاحب کی پارٹی مغربی پاکستان میں کامیاب ہوئی الیکشن میں انہوں نے ڈھاکہ میں اِدھر تم اُدھر ہم کا نعرہ لگایا۔ ان کے ذہن میں تو شاید یہی تھا کہ مشرقی بنگال میں جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا وہاں آپ حکومت کریں اور مغربی پاکستان میں ہم حکومت کریں گے ظاہر ہے مرکز میں ہر دو مل کر حکومت کرتے۔ تو میری رائے میں اس قسم کی باتوں نے اور مجیب الرحمن اور ”مولانا بھاشانی اینڈ کو“ کے روئیے نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا۔ صرف یہی نہیں بھارت بھی اپنا ”لُچ“ تلنے کے لئے مکتی باہنی کے نام پر اپنے فوجیوں پر مشتمل بظاہر بنگالیوں کی جنگ آزادی لڑنے والی فوج کو معرض وجود میں لایا۔ ان تمام عوامل نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج اور مغربی پاکستان کی افسر شاہی کا رہنا ناممکن بنا دیا۔ ہمارے فوجی اور افسر اپنے ہی دیس میں اجنبی تھے اور وہ مکتی باہنی اور ہندو بنگالیوں کا نشانہ بنتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں جہاں تک ذمہ داری کا تعلق ہے ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ 
س2:.... آپ کو سب سے پہلے کس وقت اندازہ ہوا کہ ملک کی سلامتی کے معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں؟
ج:....اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب مےں ملک غلام جیلانی کے گھر مجیب الرحمن سے ملاقات کر کے اٹھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ شخص پاکستان کا قائل نہیں ہے اور بنگلہ دیش بنا کر رہے گا۔ 
س3:....سقوط ڈھاکہ کے وقت آپ کے احساسات کیا تھے؟
ج: .... اس زمانے مےں مَےں CPNE مےں بڑا ایکٹو تھا، اور میرا اکثر ڈھاکہ جانا ہوتا تھا اور وہاں بنگالی ایڈیٹروں مانک میاں، ظہور بھائی اور بدرالدین وغیرہ سے بھی میری ملاقاتیں رہتی تھیں۔ پاکستان کی تقسیم کا جہاں تک تعلق ہے تو مےں سمجھتا ہوں کہ ایک حقیقت پسند شخص کی حیثیت سے مجھے بے حد رنج اور افسوس تو ضرور تھا کیونکہ پاکستان اپنی نوعیت کا واحد ملک تھا جو 2ٹکڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے ٹکڑوں کے درمیان 1000 میل کا فاصلہ تھا۔ وہ 2 ملکوں میں مےں تقسیم ہوا اور پھر تجارت لین دین اور تعلقات سب ختم ہوگیا۔ مےں نے یہ سب کچھ ایک حقیقت پسند شخص کے طور پر قبول کیا، لیکن مےں نے میاں محمد شفیع (م۔ش) اپنے ایک سینئر اور بزرگ صحافی کو اپنے گھر فرش پر باقاعدہ ٹکریں مارتا دیکھا۔ بے شمار لوگ ایسی صورتحال سے دوچار تھے۔ 
س4: ....ایوب، یحییٰخان، بھٹو، مجیب کا اس سانحہ کے حوالے سے آپ کیا کردار دیکھتے ہیں؟
ج: ....مےں سمجھتا ہوں کہ یہ چاروں حضرات بنگلہ دیش بنانے مےں اپنا اپنا حصہ ڈال چکے تھے۔ جہاں تک یحییٰ کا تعلق ہے وہ تو لگتا ہے کہ صرف اسی لئے پیدا ہوا تھا کہ وہ پاکستان کی تقسیم پر مہر لگائے۔ بھٹو صاحب نے بھی اِدھر تم اُدھر ہم کا نعرہ لگا کر بادل نخواستہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کو تقویت پہنچائی۔ جہاں تک کردار کا تعلق ہے سب نے بادل نخواستہ اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن مجیب تو 100% بنگلہ دیشی تھا اور بنگلہ دیش چاہتا تھا اور اسی کی بیٹی آج تک پاکستان کو قبول نہیں کر سکی اور نہ ہی اس کے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات نارمل ہوئے ہےں نہ ہو سکتے ہےں اس کے برعکس خالدہ ضیاءوزیراعظم بنی تھیں اگر ان جیسی خواتین وزیراعظم رہتیں تو کم از کم پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کنفیڈریشن کی فضا پیدا ہو سکتی تھی۔ 
س5:.... اگر اقتدار مجیب کو منتقل کر دیا جاتا تو کیا ملک کو بچایا جا سکتا تھا؟
ج: ....یہ مےں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ مےں حلفاً کہتا ہوں کہ جو باتیں میری ملک غلام جیلانی کے گھر ان سے ہوئیں تو مےں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ نوائے وقت کا جہاں تک تعلق ہے نوائے وقت آپ کو سپورٹ کرے گا اور سیاسی ساتھ دے گا بشرطیکہ آپ مشترکہ پاکستان کے حق مےں ہوں اور الگ ملک نہ چاہتے ہوں۔ میری رائے میں اگر انہیں یہ موقع دے بھی دیا جاتا تو یہ پاکستان کی تقسیم بچانے کی صرف کوشش ہوتی وہ اسے قبول نہ کرتے۔ وہ بنگلہ دیشی بن چکے تھے اور اس کے لئے وہ لڑنے مرنے کے لئے تیار تھے جس کا مظاہرہ انہوں نے کیا بھی۔ 
س6:....سیاسی رہنماﺅں میں سے کس کا کردار مثبت رہا اور کیوں؟
ج: .... نورالامین، خواجہ ناظم الدین، خواجہ شہاب الدین، خواجہ خیرالدین اور محمود علی اس قسم کے بے شمار لوگ ہےں جن کا کردار مثبت رہا۔ اگرچہ محمود علی سِرٹ (آسام) کے رہنے والے تھے لیکن تھے تو وہ مشرقی پاکستان کے ہی۔ 
س7:.... بھارت، جس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا، اس کو MFN سٹیٹس دینے کے فیصلے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ 
ج: ....اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو رہنماوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس ناکامی کے بعد بھی بھارت نے تقسیم ہند کو دل سے قبول نہیں کیا اور روز اول سے اُس کی کوشش تھی کہ وہ پاکستان کو destable کرے اور بطور آزاد ملک ختم کردے۔ بھارت آج بھی اپنی اس کوشش میں مصروف ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھی اُس کا ہاتھ ہے اور بنگلہ دیش کا قیام اُسی کا ”کارنامہ “ہے اس کے باوجود اُسے most favourite nation قرار دینا ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ازلی دشمن کو MFN قرار دے رہے ہیں اور اُس کے ساتھ تجارت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ افغانستان میں ہمارے خلاف اُس کا رول نہایت منفی ہے اور اب وہ افغان فوج کو کرزئی کے ذریعے تربیت بھی دے گا۔ تو خود ہی اندازہ لگالیں کہ وہ فوج کس کے خلاف استعمال ہوگی۔ 
س8: ....پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لانے کے لیے آپ کی نظر میں کن کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ 
ج: ....یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جو تلخی ہر دو ممالک میں پیدا ہوچکی تھی اُس کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے کوئی کوشش نہ کی گئی۔ پہلے مجیب اور اب اُس کی بیٹی کے دور میں تو اُنہیں قریب لانے کے لیے اقدامات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن خالدہ ضیاءکے دور میں یہ کام بڑی آسانی سے ہوسکتا تھا لیکن ہم نے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ مثلاً ہم اُنہیں نیشنل فوڈ چاول ایکسپورٹ کرسکتے تھے اور اُس کے علاوہ اُن کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرسکتے تھے۔ پٹ سن کے سوا اُن کے پاس اگر کوئی آئٹم تھی جو ہم اب بھارت سے منگوانا چاہتے ہیں وہ ہم اُن سے منگوا سکتے تھے۔ اُن کی لیبر غیر قانونی طور پر پاکستان میں بالخصوص کراچی میں کام کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے یہ سب چیزیں باقاعدہ قانونی طور پر بھی ہوسکتی تھیں۔ اور اُن سے تعلقات بہتر بنائے جاسکتے تھے۔ اُن کے طلباءکو اپنی یونیورسٹیوں میں وظائف دے کر پڑھایا جاسکتا تھا۔ معیاری دینی مدرسوں میں اُن کے لیے دینی تعلیم کا بندوبست کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اگر ابتداءہوجاتی تو بے شمار ایسے کام ہوسکتے تھے۔ 
س9:....محمود علی مرحوم کا خیال تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ایک کنفیڈریشن بنانی چاہئے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ 
ج: ....میری رائے میں تو دوبارہ یونٹی کے لیے یہ ایک اچھا آئیڈیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے کنفیڈریشن ایک اچھا راستہ ہے۔ بنگلہ دیش تمام عوامل کے بعد بھی بھارت کا پٹھو نہیں بنا۔ ہم اُن کی فوج کو ٹریننگ دے سکتے تھے اور ڈیفنس ایکٹ کے ذریعے مشترکہ دشمن کے خلاف مفاہمت کرسکتے تھے۔ اب بھی میرا خیال ہے کہ ہمیں کنفیڈریشن کا آئیڈیا فراموش نہیں کرنا چاہئے اس پر کام کرنا چاہئے کیونکہ مجیب کی بیٹی نے ہمیشہ حکمران نہیں رہنا۔ وہاں ایسے لوگ اور سیاسی لیڈر اب بھی موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ 
س10:.... بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان جس صورت حال سے دوچار ہے اس سے ملکی سلامتی کو پھر سنگین خطرات لاحق ہیں مثلاً بلوچستان میں علیحدگی پسند سر اُٹھا رہے ہیں اور سندھ کے لوگوں کی وفاداری بھی بھٹوز کے ساتھ زیادہ اور پاکستان کے ساتھ کم ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ 
ج: ....اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند سر اُٹھارہے ہیں لیکن اُن کی کوئی قوت نہیں ہے اور اگر ہم دیکھیں تو بگٹی صاحب کے قتل کے بعد اس شوشے نے سر اُٹھایا ہے۔ بگٹی صاحب نے ایک فعال سردار ہوتے ہوئے پاکستان بنانے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہ خود بھی اینٹی پاکستان نہیں تھے۔ میں اُن سے اُن کے گھر بھی مل چکا ہوں اور جب ایک بار وہ جتوئی ہسپتال کراچی میں کسی مرض کے علاج کے لیے داخل تھے تو مزاج پُرسی کے لیے گیا تھا۔ میں نے اُنہیں ہمیشہ میانہ روی اختیار کرنے والا لیڈر پایا۔ اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ میرے ساتھ اُردو کی بجائے پنجابی میں بات کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اُردو میں نہیں پنجابی میں بات کروں گا۔ اب اُن کے بیٹوں سے صلح صفائی کرکے اس تلخی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور اُن کے مبینہ قتل کے کیس کو باقاعدہ persue کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے وہاں بھٹو ازم خدانخواستہ اینٹی پاکستان نہیں ہے۔ بھٹو کی زندگی میں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ سندھی زیادہ pro bhutto ہیں یا پنجابی۔ وہ لاہور میں بھی اُسی طرح ہر دلعزیز تھے جس طرح لاڑکانہ میں۔ یہ صرف ہماری سیاسی لیڈرشپ کی ناکامی ہے کہ وہ ان مسائل کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دیتے۔ ابھی آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس تلخ ترین ماحول میں بھی نواز شریف ایسے ن لیگ کے لیڈر کو لاڑکانہ میں ایک بھرپور جلسہ کرنے کا موقع ملا ہے جہاں گو زرداری گو کے نعرے بھی لگائے گئے۔ 
س11:.... بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی واپسی کے لیے آپ کے سوا کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ آپ کی رائے میں یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ 
ج: ....ہم سالہا سال سے محصورین پاکستان کے لیے فنڈ اکھٹا کر کے اُنہیں ہر ماہ بھجوا رہے ہیں۔ بے شک یہ آٹے میں نمک کے برابر رقم ہوگی لیکن اس پر وہ ہمارے بہت مشکور ہیں اور ہمارے اس کام کو سراہتے ہیں کہ کوئی تو اُن کا خیال رکھ رہا ہے۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں جو محصورین پاکستان آنا چاہتے ہیں اُنہیں واپس لانا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کے ساتھ بات چیت کرکے اُنہیں واپس لانے کا بندوبست کرے۔ ہمارے ایک وزیر اعلیٰ جن کی وجہ سے نظریہ پاکستان اور ایوان قائداعظم کا کام جاری ہے اُنہوں نے اُن کے لیے لاہور اور اپنے آبائی قصبے میاں چنوں میں کوارٹر بھی بنوائے تھے لیکن اُن کو سنٹرل حکومت (وفاق) کی طرف سے محصورین کو واپس لانے کی اجازت نہیں ملی۔ 
یہ ہماری حکومت کا کام ہے خواہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ کہ وہ اُنہیں پاکستان میں واپس لائے اور آباد کرے۔ یہ ا ُن کا حق ہے۔ وہ 40 سال سے کیمپوں میں پڑے ہیں اور ناگفتہ بہ حالات میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ موجودہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے بھٹو نے کہا تھا کہ ہم ہزار سال کشمیر کے لیے لڑیں گے وہ اُن کے لیے بھی یہ ہی جذبات رکھتے ہوں گے یہ اُن کا وطن ہے اور اُنہیں واپس آنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ بنگالی بھائی کراچی میں ہیں اور وہ محنت مزدوری کر کے اور باورچی کا کام کرکے اپنی روزی کما رہے ہیں۔




Post a Comment

0 Comments