بھارتی فوج کو افغانستان میں نیٹو فورسز کا حصہ بنانے کی تیاری



شیطانی اتحادِ ثلاثہ کے اس ٹریپ کو سمجھیں اور دفاعِ وطن کیلئے یکسو ہوجائیں
افغانستان میں بھارتی افواج کو نیٹو فورسز کا حصہ بنانے کیلئے امریکہ اور بھارت کے مابین باضابطہ طور پر حکمت عملی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس سلسلہ میں ایک خصوصی اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھارت اور امریکہ کے مابین مذاکرات میںجو 11 نکاتی فارمولہ طے پایا تھا اسکی بنیاد پر آئندہ سال جنوری میں واشنگٹن میں بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر اس اہم معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے تحت بھارتی افواج امریکی مقبوضہ ملک افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی افواج افغانستان میں مختلف فوجی آپریشن میں نیٹو فورسز کی مدد کے علاوہ افغانستان کے عسکری اداروں میں ٹریننگ کا کام بھی سرانجام دیں گی۔ دوسری جانب بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی فوجیں 30 دسمبر سے مشترکہ طور پر راجستھان میں فضائی جنگی مشقیں کریں گی جن میں اسرائیل کے 26، بھارت کے 36 اور امریکہ کے 30 جنگی جہاز حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے ان تینوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں ”را“ ، ”موساد“ اور ”سی آئی اے“ کے اعلیٰ افسران کا بھارت میں اجلاس ہوا تھا جس میں خطے میں جاسوسی کے مشترکہ نیٹ ورک کو منظم کرنے کے پلان پر غور کیا گیا۔
یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ امریکہ ہمارا اتحادی نہیں بلکہ امریکہ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحادِ ثلاثہ پاکستان کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی نیت سے اسکی ایٹمی تنصیبات پر قابض ہونے کیلئے اس خطہ میں باہم گٹھ جوڑ کرچکا ہے اور اسی کی بنیاد پر افغانستان سے نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد بھارت کو افغانستان میں اپنے پاﺅں جمانے کیلئے نیٹو فورسز والا کردار بھارتی فوجوں کوسونپنا طے ہوا ہے کیونکہ امریکہ اور بھارت کو پاکستان کی سالمیت کیخلاف دہشت گردی اور چیک پوسٹوں پر حملوں کی صورت میں کارروائیوں کیلئے پاک افغان سرحد سے آسان رسائی مل جاتی ہے۔ اس تناظر میں افغان سرزمین ہماری سالمیت کیخلاف امریکی، بھارتی، اسرائیلی سازشوں کا محور و مرکز بن چکی ہے جس کیلئے کٹھ پتلی افغان صدر کرزئی اپنے اقتدار کی بیساکھیوں کے ساتھ چمٹے رہنے کی خاطر امریکہ اور بھارت کو اپنی دھرتی پر کُھلکھیلنے کی کھلی چھوٹ دے چکے ہیں جو پاکستان پر مبینہ دہشت گردوں کی سرپرستی کے امریکی بھارتی الزامات میں بھی انکے ہم آواز ہوتے ہیں اور پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کے انکے منصوبوں میں بھی عملاً شریک ہو کر اپنی لاجسٹک سپورٹ اور طالبان کے بھیس میں اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد فراہم کرتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں 2 مئی کے امریکی آپریشن کے بعد اسی منصوبہ بندی کے تحت طالبان کے بھیس میں سینکڑوں کی تعداد میں تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوکر ہماری چیک پوسٹوں پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں جن میں ہماری سکیورٹی فورسز کے بیسیوں جوانوں کے علاوہ عام شہری بھی شہید ہوئے اور جب ان واقعات پر پاکستان کی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے کرزئی سے باضابطہ احتجاج کیا تو انہوں نے پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا جو دہشت گردوں کی معاونت و سرپرستی کا الزام عائد کرکے پاکستان کو دباﺅ میں لانے اور اس سے ”ڈومور“ کے تقاضوں کی تعمیل کرانے کے امریکی بھارتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اس تناظر میں یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اتحادی کا روپ دھار کر امریکہ ہمارے ساتھ بدترین دشمنی کررہا ہے جو ہمیں چاروں جانب سے گھیر کر مارنا چاہتا ہے۔ پہلے اس نے ہمارے جرنیلی اور سول حکمرانوں کو ڈالروں کی بھیک کے چکاچوند ٹکڑے دکھا کر انہیں اپنی انگلی کے اشارے پر ناچنے پر مجبور کیا جنہوں نے امریکی احکام کی تعمیل میں ملک کی سکیورٹی فورسز کو اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی شہریوں کیخلاف آپریشن کی راہ پر لگا دیا۔ اس طرح آپریشن میں بھی دونوں جانب سے کلمہ گو بھائیوں کا جانی نقصان ہوا جبکہ آپریشن اور پھر امریکی ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے قبائلی خاندانوں نے ردعمل میں خودکش حملہ آور پیدا کرنے شروع کردئیے جس میں سکیورٹی فورسز کے ارکان اور شہریوں کا مزید جانی نقصان ہوا جبکہ دہشت گردی کے ماحول اور امن و امان کی ابتر صورتحال نے ملک کی معیشت کو تباہی کی جانب دھکیل کر شیطانی اتحادِ ثلاثہ کو پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کا مزید موقع فراہم کیا۔ پاکستان کی سالمیت کیخلاف ان وارداتوں کیلئے زیادہ تر افغان سرزمین ہی استعمال ہوئی ہے۔ اس طرح کٹھ پتلی کرزئی حکومت ،پاکستان کی سالمیت کو کمزور بنانے کے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے شیطانی اتحادِ ثلاثہ کی بہترین معاون ثابت ہوئی ہے۔
یقینا اسی منصوبہ بندی کے تحت اوبامہ کے دورہ ¿ بھارت کے موقع پر امریکہ نے بھارت کے ساتھ جنگی دفاعی تعاون اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدوں پر دستخط کئے جنہیں عملی جامہ پہنانے کیلئے بعدازاں بھارتی وزیراعظم نے افغان صدر کرزئی کے دورہ ¿ بھارت کے موقع پر افغانستان کے ساتھ دفاعی تعاون کے چار مختلف معاہدوں پر دستخط کئے جن میں سے ایک معاہدے کے تحت کرزئی نے بھارتی فوج کا افغانستان جاکر افغان فورسز کو تربیت دینے کا فیصلہ بھی قبول کیا ہے۔ اوبامہ نے بھارت کے ساتھ معاہدے کے وقت بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیا جبکہ کرزئی نے بھارت کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرتے وقت پاکستان کو اپنا بھائی قرار دیکر بھارت کو اپنا بہترین دوست قرار دیا۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ کرزئی نے عملاً برادرِ یوسف والا کردار ادا کیا جس کا اب وہ بھارتی فورسز کو افغان سرزمین پر کُھل کھیلنے کی اجازت دیکر عملی ثبوت بھی فراہم کررہے ہیں جبکہ امریکہ انہی بھارتی فورسز کو افغانستان پر اپنا قبضہ مستقل بنانے کی خاطر نیٹو فورسز کا کردار سونپنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔
ملک کی سالمیت کے حوالے سے یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ امریکہ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحادِ ثلاثہ تو ہمیں چاروں جانب سے گھیر کر ہمیں بے دست و پا بنانے اور ہماری سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے کی تیاریوں میں مصروف ہے مگر ہماری حکومتی اور عسکری قیادتیں میمو سکینڈل میں الجھ کر ایک دوسرے کیخلاف اپنی توانائیاں صرف کررہی ہیں جبکہ میمو سکینڈل بھی ہماری سالمیت کیخلاف بچھایا گیا امریکی ٹریپ ہے جس میں پاکستان دشمن قادیانی امریکی باشندے منصور اعجاز کو بطور مہرہ استعمال کیا گیا۔ اس لئے ملک کی سالمیت کو لاحق سنگین خطرات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ہماری بالخصوص عسکری قیادتوں کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور دفاعِ وطن کے تقاضوں میں یکسو ہونا چاہئے اور اپنی توجہ صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکہ ہمارا دوست نہیں بلکہ بھارت جیسا ہی ہمارا شاطر دشمن ہے تو ہمارے لئے اس خطہ میں اسکے مفادات کی جنگ میں شریک رہنے کی اب کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی اس لئے ہمارے حکمرانوں کو جتنی جلد ممکن ہوسکے، امریکہ کو مستقل طور پر خیرباد کہہ دینا اور نیٹو اور امریکہ کیخلاف کئے گئے سخت اقدامات پر ڈٹے رہنا چاہئے تاکہ رسد نہ ملنے سے نیٹو فورسز کی کمر ٹوٹے اور وہ افغان دھرتی پر اپنے قدم جمانے کا سوچنے کے بجائے وہاں سے دُم دبا کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوں۔ شیطانی اتحادِ ثلاثہ کا علاج اسے دودھ پلانا نہیں، اسکا سر کچلنے کی عسکری دفاعی حکمت عملی کو بروئے کار لانا ہے ورنہ دشمن تو ہمیں تنہا کرکے مارنے کی منصوبہ بندی پہلے ہی کئے بیٹھا ہے۔
حکومت کو میمو کیس پر عدلیہ کے فیصلہ کا انتظار کرناچاہئے
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جیمز جونز کے بیان کے بعد میمو کیس ختم نہ ہوا تو امریکی ہم پر ہنسیں گے سب سے پہلے عدلیہ کے اختیار سماعت کا فیصلہ ہوگا جبکہ وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ میمو کیس میں انصاف نہیں ہوگا پھر بھی عدالتی فیصلے کو تسلیم کرینگے۔
میمو کا مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس وقت پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے وہ بغیر کسی دباﺅ کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وزیراعظم اکثر وبیشتر اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں، میمو کیس میں حکومت اپنی بے گناہی کا واویلا کررہی ہے تو عدالت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا جہاں تک جیمز جونز کے جمع کرائے بیان حلفی کا تعلق ہے صرف اسی بیان حلفی کی بنا پر عدالت میمو کیس کو ختم نہیں کرسکتی،منصور اعجاز نے جیمز جونز کے بیان حلفی کا جواب سپریم کورٹ کو بھجوادیا ہے عدالت کو تمام شواہدکو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے دیں جہاں تک عدلیہ کے اختیار سماعت کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی آئین میںمتعین ہے۔وزیراعظم کو اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے اداروں کے مابین ٹکراﺅ پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ہمیشہ قانون کے ساتھ کھڑے رہے ہیں وہ اب بھی قانون کے مطابق چلیں گے ۔ لہٰذا وزیراعظم کو ایسے بیانات سے گریز کرناچاہئے۔
وزیر قانون مولابخش چانڈیو کو کیسے الہام ہوگیا کہ میمو کیس کا فیصلہ حکومت کے خلاف آئیگا اس سے تو اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے،ایسے بیانات سے حکومتی ارکان عدلیہ کو دباﺅ میں رکھناچاہتے ہیں جبکہ ایسے ہتھکنڈوں سے میمو سلجھنے کی بجائے کیس خراب ہوگا۔ الجھاﺅ پیدا ہونے سے اداروں کے مابین بد اعتمادی کی فضا قائم ہوگی جہاں تک میاں نواز شریف کے پارلیمنٹ کو چھوڑ کر میمو کیس پر عدلیہ میں جانے کا تعلق ہے تواس کا موقع پارلیمنٹ کو بے وقعت بنا کر خود حکومت نے فراہم کیا ہے۔اگر پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو روبہ عمل لایا گیا ہوتاتو میاں نواز شریف سپریم کورٹ نہ جاتے اس وقت حکمران اتحاد کو بیان بازی کی بجائے عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرناچاہئے جس سے یہ واضح ہوجائیگا کہ میمو کیس کا بیج کس نے بویا ہے اور ملک و قوم کیخلاف سازش کون کر رہا ہے؟
محصورین پاکستان کی 40سالہ کسمپرسی
مجلس محصورین پاکستان کے مطابق: محبِ وطن پاکستانی 40سال سے بنگلہ دیش میں محصور ہیں وطن واپس لایاجائے۔ مجلس نے گرانقدر خدمات پر مجیدنظامی کو خراج تحسین پیش کیا اور کئی قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔
پاکستان کی حکومت، قوم اور جملہ محبان وطن افراد کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو 40 برس سے بنگلہ دیش میں محصور ہیں وہاں کی حکومت اُن سے قطعاً لاتعلق ہے اور انسانی بنیادوں پر بھی اُن کا خیال نہیں رکھ رہی تو یہ ہمارے حکمرانوںکا فرض منصبی بنتا ہے کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کرے یہ کوئی اتنی مشکل اور ناممکن بات نہیں کہ وہ محصورین جو پاکستانی ہیں ہر طرح کی شناخت اور حکومتی رعائت سے محروم ہیں ۔ ادارہ نوائے ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سے نہ صرف محصورین پاکستانیوں کے حقوق کیلئے آوازبلند کی جاتی ہے بلکہ ان کیلئے ریلیف فنڈ قائم کرکے ان کے نان و نفقہ کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ آخر ہم نے جہاں بلا وجہ لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے اُنہیں راشن پانی دیتے ہیں اور وہ پاکستان کے جس شہر میں چاہیں آزادانہ رہ سکتے ہیں تو محصورین پاکستان کو کیوں اُس پنجرے سے باہر نہیں نکالا جاسکتا جس میں وہ 40 برس سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، حکومت جتنا جلد ہوسکے محصورین پاکستان کو اپنے وطن میں واپس لائے اور امریکہ کی جانب سے مستقل بوجھ بنائے گئے افغان مہاجرین کو افغانستان کے حوالے کرکے محصورین پاکستان کی مربوط منصوبہ بندی کے تحت واپسی کو فوری بنیادوںپر ممکن بنائے۔
سینٹ الیکشن سے جمہوریت مستحکم ہوگی
سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کسی غیر جمہوری طاقت کا آلہ کار بنے گی نہ ہی کسی غیر جمہوری اقدام کو اپنائے گی، 12 مارچ کو سینٹ الیکشن سے قبل پنجاب اسمبلی توڑنے کا آپشن موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر سسٹم کو نقصان نہیں پہنچاناچاہئے، بڑی مشکل سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر آئی ہے، جمہوریت کو چلنے دیناچاہئے اداروں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے، کسی سیاسی جماعت کو یقینا غیر جمہوری طاقتوں اور طالع آزماﺅں کا آلہ ¿ کار نہیں بنناچاہئے اور اس حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھناچاہئے۔ا س تناظر میں سپیکر پنجاب اسمبلی کو اسمبلی توڑنے کے آپشن کا تذکرہ کرتے ہوئے جائزہ بھی لے لیناچاہئے کہ یہ اقدام سیاسی افراتفری کی صورت میں غیر جمہوری عناصر ہی کو تو موقع فراہم نہیں کرے گا؟ اس لئے انہیںپنجاب اسمبلی کی شکل میں لگے جمہوریت کے پودے کو وقت سے پہلے کاٹنے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے اگر تو پنجاب اسمبلی کو صرف اسی مقصد کیلئے توڑنے کے مشورے ہیں کہ سینٹ کا الیکشن رک جائے تو یہ کسی طور بھی جمہوریت کی خدمت نہیں ہوگی اور نہ ہی ملک و قوم کا اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔ اس سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی لہٰذا ن لیگ کی قیادت کو کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے سے قبل ملک و قوم کے مفاد کو مد نظر رکھناچاہئے اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھایاجائے جس سے جمہوریت کی گاڑی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ان حالات میں اگر جمہوریت ڈی ریل ہوگی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔لہٰذا سیاسی قائدین جماعتی اور ذاتی فائدے کو چھوڑ کر ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں۔


Post a Comment

0 Comments