یوگوسلاویہ ٹوٹنے کا بنیادی سبب مذہبی تنازعے تھے




لاہور(صابر شاہ) اگرچہ مورخین کا کہنا ہے کہ مذہبی عدم برداشت لسانی تنازعات بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے اور بے روزگاری پیداواریت کی شدید کمی مسلسل بڑھتا ہوا افراط زر سیاسی عدم استحکام اور نااہل رہنما یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے کا باعث بنے تاہم لسانی و مذہبی کشیدگی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث اس خوشحال قوم کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا، آج پاکستان میں مذکورہ بالا وجوہات کی نشاندہی کرنے کیلئے ہاورڈ کا گریجویٹ ہونا ضروری نہیں ہے تجزیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی ملک کے ٹوٹنے میں معاشی مسائل کی نسبت مذہبی تنازعات زیادہ خطرناک کردار ادا کرتے ہیں جبکہ پاکستان کو تو مذہبی کشیدگی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی لسانی تقسیم اور فرقہ وارانہ تشدد جیسے اضافی خطرات کا بھی سامنا ہے، پاکستان کے موجودہ حالات کی یوگوسلاویہ کے ساتھ حیران کن مماثلت پائی جاتی اور تفصیلی مطالعہ کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ یوگو سلاویہ کی صورتحال راتوں رات خراب نہیں ہوئی تھی بلکہ آتش فشاں کے پھٹنے اور لاولے کے اگلنے میں چند دہائیاں صرف ہوئیں اور ماضی کی عظیم الشان صنعتی مملکت راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی۔دی نیوز کی ریسرچ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسند سرب عیسائیوں کیتھولک کروشی باشندوں اور بوسنیا کے مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلافات یوگو سلاویہ کے زوال کا سبب بنے بصورت دیگر روئے زمین پر بہت سے ممالک ایسے ہیں جو کئی دہائیوں سے بدترین معاشی حالات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، یوگو سلاویہ 6علاقائی ریاستوں اور دو خودمختار صوبوں کا اجتماع تھا جو بری طرح لسانی بنیادوں پر منقسم تھا اور 1990ء میں یہ ملک متعدد آزاد ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ان آٹھ وفاقی اکائیوں میں سلووانیا، کروشیا، بوسنیا اور ہرزگووینیا، مقدونیا، مونٹی نیگرو، سربیا اور سربیا میں شامل دو خودمختار صوبے شامل تھے۔ مذہبی عدم برداشت جو کہ بنیادی طور پر لسانی اختلافات کے باعث شروع ہوئی کے ساتھ ساتھ خراب معاشی حالات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس ملک کی معاشی ترقی کے 30سالہ سفر کو روک دیا ۔1973ء میں تیل کے بحران مغربی جارتی پابندیوں اور تمام وسطی و مشرقی یورپ میں کمیونزم کی ناکامی نے درحقیقت اس قوم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک ڈالا۔ اگرچہ 1991ء میں سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد یوگو سلاویہ کے اندرونی اختلافات معاشی عدم استحکام منظر عام پر آئے تاہم زیادہ تر مورخین کا کہنا ہے کہ اگر اس ملک کے لیڈر اپنے پیرو کاروں کو باقاعدگی سے باہمی رواداری اور مصالحت کا سبق دیتے تو بدترین حیثیت کے باوجود یہ ملک اب بھی اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو تا 1973ء کے تیل کے بحران سے نمٹنے کیلئے یوگو سلاویہ نے آئی ایم ایف سے متعدد قرضے لئے اسوقت مغربی معیشتیں بھی زوال پذیر تھیں اور یوگو سلاویہ کی برآمدات کو بلاک کر دیا گیا جس سے بلغراد کی شدید بدقسمتی شروع ہوئی، یوگو سلاویہ کے لیڈر لسانی اختلافات کو اپنی خواہشات کے مطابق کیش کرانے میں مصروف تھے لہٰذا وہ بروقت ردعمل نہ رکھ سکے اور ملک قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دفن ہو گیا ۔ 1980ء میں صدر جوزپ بروز ٹیٹو کے مرنے کے بعد یوگو سلاویہ میں لسانی کشیدگی تیزی سے پھیلی، 1974ء کے آئین کو فیصلہ سازی کے نظام کو مفلوج کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور ناگزیر آئینی بحران کی وجہ سے تمام ریاستوں میں قوم پرستی نے جنم لے لیا، سلووانیا اور کروشیا نے وفاق کے ساتھ ایک کمزور تعلق کا مطالبہ کیا جبکہ کوسوو میں البانوی اکثریت نے ریاست کا درجہ دیئے جانے کا مطالبہ کر دیا۔اس طرح سربیا نے مکمل ڈومینین کے درجے کا مطالبہ کیا مزید برآں کروشیا کی جانب سے آزادی کی کوشش پر سرب کمیونٹی نے بغاوت کر دی اور کروشیا سے علیحدہ ہونے کی کوشش شروع کر دی قرضے لینے پر آئی ایم ایف نے یوگو سلاویہ سے مارکیٹ لبر لائزیشن کا مطالبہ کیا ، 1981ء تک غیر ملکی قرضے 19.9ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے 1980ء تک بیروزگار افراد کی تعداد 10لاکھ تک پہنچ چکی تھی ایک دہائی تک اس صورتحال کے جاری رہنے سے حکمران سربوں اور ان سے مستفید ہونے والی اقلیتوں کے خلاف غم و غصہ میں اضافہ ہو گیا۔1979ء سے 1985ء کے عرصہ میں یوگو سلاویہ کی حقیقی آمدن 25فیصد کم ہو گئی 1986ء میں سربین اکیڈمی آف سائنس اینڈ آرٹس کی ڈرافٹ کردہ ایک متنازع یادداشت نے نیشنلزم کو مزید فروغ دیا کوسوو میں سربوں اور البانوی کمیونٹی کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے۔ 31دسمبر 1988ء کو 21ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں 15فیصد شرح بے روزگاری اور 250فیصد شرح افراط زر کے ساتھ یوگو سلاویہ کی معیشت تباہی کے قریب پہنچ چکی تھی 1989ء میں 248ملکی فرمیں دیوالیہ ہو گئیں اور 89.400ملازمین ملازمتوں سے محروم ہو گئے۔1990ء کی پہلی ششماہی میں آئی ایم ایف کے پروگرام پر براہ راست عمل سے 5لاکھ 30ہزار ملازمین کو روزگار دینے والی مزید 889فرموں کا بھی یہی حشر ہوا دوسرے الفاظ میں 2سال سے کم عرصے میں 27لاکھ کی صنعتی ورک فورس میں سے 6لاکھ سے زائد کارکن بیروزگار ہو گئے۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے تقریباً 5لاکھ ملازمین کو ان کی کمپنیوں نے تنخواہیں ادا نہیں کیں۔ 1989ء میں ملکی کانفرنس کے دوران رہنما کسی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے کروشیا اور سلووانیا نے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1991ء میں سلووانیا میں مشہور 10روزہ جنگ شروع ہو گئی، ایک ہفتے میں سلووانی جنگ جیت گئے اور یوگو سلاویہ کا زوال شروع ہو گیا،بوسنیا کے مسلمانوں سربوں اور کروشوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی سربوں نے بوسنیا کے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا فروری 1994ء میں مسلم کروشیا کے قیام کیلئے ایک معاہدہ طے پا گیا 30اگست 1995ء کو بوسنیا کے سربوں کے اہداف پر بڑے پیمانوں پر فضائی حملوں کے بعد امن مذاکرات کا نیا دور شروع ہو گیا، 15ستمبر 1995ء کو سراجیوو کا محاصرہ ختم کر دیا گیا نئے مذاکرات کے نتیجے میں بوسنیا کے اندر مزید نئے خودمختار علاقے قائم کرنے کا معاہدہ ہوا سربوں کے جارحانہ حملوں سے بچنے کیلئے لاکھوں کروشی اور بوسنی اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے عام طور پر بوسنیا اور کروشیا کی فوجی کارروائی دفاعی نوعیت کی طرح تھی اور سربوں کے برعکس وہ نسلی قتل عام میں ملوث نہیں تھے نیٹو اور اقوام متحدہ کی حمایت سے بین الاقوامی برادری نے بوسنیا کو جمہوری انداز اور پرامن طریقے سے آزادی حاصل کرنے میں مدد کی اقوام متحدہ نے سربیا کو جارح ملک قرار دیکر اس پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں ہر سال لڑائی اور خونریز واقعات کا سلسلہ جاری رہا اور چونکہ یہ نوشتہ دیوار ہو چکا تھا لہٰذا ”ہونی“ہو کر رہی اور آج یوگو سلاویہ کے نام سے پکارا جانے والا ملک نقشہ عالم پر موجود 


Post a Comment

0 Comments