سانحہ سقوط ِ ڈھاکہ سے وابستہ تلخ یادیں اور قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ....


سانحہ سقوط ِ ڈھاکہ سے وابستہ تلخ یادیں اور قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت .... ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور دشمن کی سازشیں ناکام بنائیں
ـ 22 گھنٹے 24 منٹ پہلے شائع کی گئی 
آج سے 40 سال قبل وطن ِ عزیز کو دولخت کرنے پر منتج ہونیوالے سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 16 دسمبر کا ہر سورج ہماری قومی ہزیمتوں‘ پژمردگی‘ مایوسی‘ نامرادی کی اتھاہ گہرائیوں اور ازلی مکار دشمن بھارت کے آگے سپاہِ پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کی ذلت آمیز تلخ یادوں کو تازہ کرتا ہوا نمودار ہوتا ہے اور قوم کو غم و یاس کی کیفیت میں ڈبو جاتا ہے۔ آج 16دسمبر کو بھی قوم وطن عزیز کے دولخت ہونے کے صدمے کی ٹیسیں برداشت کرتے اور متحدہ پاکستان سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے 40واں یوم سقوطِ ڈھاکہ منا رہی ہے۔ یہ دن ہم سے سانحہ مشرقی پاکستان پر منتج ہونیوالی سنگین حکومتی‘ انتظامی‘ عسکری غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دینے کا متقاضی رہتا ہے اور ہمیں شاطر و مکار دشمن بھارت کی ایسی گھناﺅنی سازشوں سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے اور ان سازشوں کا بروقت توڑ کرتے رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے جو 16 دسمبر 1971ءکو ملک خداداد کے بڑے حصے کو وجودِ پاکستان سے کاٹ کر الگ کرنے کا باعث بنی تھیں جبکہ ان گھناﺅنی سازشوں کے کامیاب ہونے کی خوشی میں سرشار ہو کر اس وقت کی زنانی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو یہ بڑ مارنے کا موقع ملا تھا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ پاکستان دشمنی کے جنون میں مبتلا اندراگاندھی کے پوتے اور بھارتی حکمران کانگریس (آئی) کے سیکرٹری جنرل راہول گاندھی تو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو گاندھی فیملی کا پاکستان توڑنے کا اعزاز سمجھتے ہیں اور اسی کے تناظر میں انہوں نے خود بھی گزشتہ سال ایک جلسہ عام میں ہرزہ سرائی کی تھی کہ وہ باقیماندہ پاکستان کو توڑ کر گاندھی فیملی کے اس اعزاز کو آگے بڑھائیں گے۔ 
بزدل اور شاطر ہندو بنیاءقیادت نے تو قیام پاکستان کے وقت ہی اسے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور نہرو نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا اور اگلے چند سالوں میں ہی دوبارہ بھارت کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور ہو جائیگا۔ ان کا اشارہ امور مملکت کی انجام دہی کے معاملہ میں ممکنہ انتظامی کمزوریوں کی جانب تھا‘ جس کی بنیاد پر وہ یہ نتیجہ اخذ کئے بیٹھے تھے کہ پاکستان کی قیادت اس ملک خداداد کو سنبھال نہیں پائے گی۔ اکھنڈ بھارت کے زعم میں مبتلا ہندو بنیاءکیلئے تو پاکستان کا قیام ایک بہت بڑا صدمہ تھا‘ کیونکہ تشکیل پاکستان سے ہندوستان کی سرحدوں کے وسعت پانے کے بجائے اسکی ٹکڑوں میں تقسیم کی بنیاد پڑ گئی تھی‘ اس لئے ہندو بنیاءکی جانب سے شروع دن سے ہی پاکستان کی سالمیت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہونا فطری عمل تھا۔ انہوں نے برصغیر میں مسلمان بادشاہوں کے ہزار سالہ اقتدار کے خاتمہ کے بعد اسی نیت اور خبث باطن کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کو عملاً غلام بنا کر ان کا عرصہ حیات تنگ کیا کہ کہیں پھر ان میں ہندوﺅں پر غالب آکر حکمرانی کرنے کی خو پیدا نہ ہو جائے‘ اسی متعصبانہ انتقامی سوچ کے تحت ہندوﺅں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں ہی سلب نہ کیں‘ ان پر ملازمتوں اور روزگار کے دروازے بھی بند کر دیئے اور اچھی تعلیم سے بھی انہیں محروم رکھا تاکہ کوئی مسلمان اپنی تعلیم کے بل بوتے پر کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہو سکے۔ 
یقیناً جبر کے اس ماحول کے ردعمل میں ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے ذہنوں میں دو قومی نظریہ اجاگر ہوا اور یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا متعصب اور مکار ہندو بنیاءکے ساتھ کسی صورت گزارا نہیں ہو سکتا‘ چنانچہ جب انگریز سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں نے اسی وقت طے کرلیا کہ انہوں نے انگریز سے ہی نہیں‘ متعصب ہندو سے بھی آزادی حاصل کرنی ہے۔ خوش
 قسمتی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے
 پلیٹ فارم پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ
 اور قائداعظم محمد علی جناحؒ
 کی شکل میں ایسی بے لوث قیادت میسر آگئی جو ہندوستان میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءو اجراءکے جذبے سے معمور تھی اور مسلمانوں کے اچھے مستقبل کیلئے فکرمند بھی۔ چنانچہ ہندو کے تعصب کی بنیاد پر اجاگر ہونیوالے دو قومی نظریے سے تحریک پاکستان کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ قطعہ اراضی کے حصول کا جذبہ مستحکم ہوا اور مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے 1930ءمیں اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کے خدوخال اجاگر کئے‘ حالات سے مایوس ہو کر مستقل طور پ
ر انگلستان میں مقیم ہونیوالے
 محمدعلی جناحؒ
 کو واپس آنے اور تحریک آزادی
 کیلئے مسلم لیگ کی
 قیادت کرنے پر مجبور کیا
۔ اقبالؒ کی بے لوث کوششوں کے نتیجہ
 میں ہی قائداعظم محمدعلی جناحؒ
 ہندوستان واپس آئے اور علامہ اقبالؒ
 کی متعین کردہ گائیڈ لائن کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنی فہم و بصیرت کے بل بوتے پر ہندو بنیاءکی شاطرانہ چالوں کا مقابلہ اور توڑ کرتے ہوئے 23 مارچ 1940کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد سات سال کے مختصر عرصہ میں تشکیل پاکستان کا خواب حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا‘ جو ہندو بنیاءکی بہت بڑی شکست تھی۔ 
اگر قائداعظمؒ مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے
 تو ملک خداداد کی بنیادیں اتنی مضبوط ہو جاتیں کہ ہندو بنیاءکو اسکی سالمیت کیخلاف کوئی سازش کرنا تو کجا‘ اسکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات
 بھی نہ ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے قائداعظمؒ
 کے انتقال کے بعد ملک پر انگریز اور ہندو کے ٹوڈی جاگیرداروں‘ انکے وظیفہ خواروں‘ ملاﺅں اور دوسرے مفاد پرست سیاستدانوں کا غلبہ ہو گیا‘ جنہوں نے اپنے مفادات اور اقتدار کی خاطر سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کرکے ملک میں ماورائے آئین فوجی حکمرانیوں کا راستہ کھول دیا اور بالآخر انہی گھناﺅنی سازشوں کے نتیجہ میں 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران ہندو کی پروردہ مکتی باہنی کے پیدا کردہ حالات کے باعث قوم کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان کے دولخت ہونے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں‘ پاک فوج کے کمانڈر جنرل نیازی کے گیدڑ ہندو جرنیل کے آگے سرنڈر کرنے اور مشرقی پاکستان میں تعینات پاک فوج کے تمام افسران اور جوانوں کے جنگی قیدی بننے کی ہزیمت بھی اٹھانا پڑی۔ 
یہ عظیم سانحہ تو ہم سے مکار دشمن کی سازشوں سے ہمہ وقت ہوشیار اور مستعد رہنے اور اپنی حربی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک کی سالمیت کو ناقابل تسخیر بنانے کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی متعصب اور جنونی ہندو کی کوئی سازش اور خواہش پوری نہ ہو سکے۔ مکار دشمن کی ایسی سازشوں کو بھانپتے ہوئے ہی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پاکستان کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور نعرہ لگایا تھا کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی قوت ضرور بنائیں گے۔ یقیناً اس جذبے نے ہی جنونی ہندو کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھا اور بھٹو‘ ضیاءالحق‘ غلام اسحاق خان‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی کاوشوں کے تسلسل کے نتیجہ میں وطن عزیز بالآخر میاں نواز شریف کے ہاتھوں ایٹمی طاقت سے ہمکنار ہوا چنانچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بے شک باقیماندہ پاکستان کو ہضم کرنے کیلئے بھی ہندو بنیاءکی رال ٹپکتی رہی اور اس نے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا مگر ہماری ایٹمی صلاحیتیں اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں۔ 
آج 40ویں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ ایٹمی قوت ہو کر بھی ہم اپنے شاطر دشمن بھارت اور اس خطے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے اسکے سرپرست امریکہ کے آگے کیوں ”نکّو“ بنے ہوئے ہیں اور اپنی عسکری‘ انتظامی کمزوریوں کا تاثر دیکر دشمنانِ پاکستان کو اسکی سالمیت پر شب خون مارنے کا کیوں موقع دے رہے ہیں؟ دشمنانِ اسلام و پاکستان کو تو ہماری ایٹمی صلاحیتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں چنانچہ وہ ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے کی سازشوں میں کھلم کھلا اور ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ 
اس تناظر میں 2 مئی کے امریکی ایبٹ آباد اپریشن اور مہمند ایجنسی میں پاکستان سیکورٹی فورسز کی سلالہ چیک پوسٹوں پر گزشتہ ماہ 26 نومبر کے نیٹو ہیلی کاپٹروں کے حملے ہمارے لئے سقوط ڈھاکہ جیسے صدمے سے کم نہیں کیونکہ دشمنانِ پاکستان کی یہ کارروائیاں بھی پاکستان کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی گھناﺅنی سازشوں کی ہی کڑیاں ہیں جبکہ قدرت نے ہمیں ان جارحانہ کارروائیوں کی بنیاد پر امریکی غلامی کے شکنجے سے خود کو آزاد کرانے کا بھی نادر موقع دے دیا ہے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ملک کی سالمیت کیخلاف شیطانی اتحاد ثلاثہ کی سازشوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں نے بھی ملکی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ سخت‘ جاندار اور دوٹوک موقف اختیار کرکے اپنے فوری فیصلوں اور اقدامات کے ذریعے ملک کے آزاد اور خودمختار ہونے کا پیغام دیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ سقوط ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ پر منتج ہونیوالی سنگین غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دیا جائے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کی قراردادوں‘ پاکستان کے سفیروں کی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ اور قومی سیاسی قائدین کی گول میز کانفرنس میں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں ملک کی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے قومی وقار اور ملک کی سالمیت کے تحفظ کی ضمانت بنایا جائے اور امریکہ سے مستقل خلاصی حاصل کرلی جائے کیونکہ ہمارے مکار دشمن بھارت کے سرپرست کی حیثیت سے وہ بھی ہمارے دشمنوں کی صف میں شامل ہے۔ اس تناظر میں سقوط ڈھاکہ ہمارے لئے ایسا سبق ہونا چاہیے کہ اسکی روشنی میں ہم ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالی دشمن کی سازشوں کا فوری اور موثر توڑ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اب ملک سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ اس لئے حکمرانوں کو قومی اتحاد و یکجہتی میں کوئی دراڑ پیدا نہیں ہونے دینی چاہئے۔ اسکے ساتھ ساتھ جو کام خالدہ ضیاءکے دور میں ہونا چاہیے تھا‘ اب حسینہ واجد دخترمجیب الرحمان کے دور میں ناممکن ہے۔ یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش کی اپنے مشترکہ دشمن بھارت کےخلاف دفاعی معاہدہ‘ تجارتی تعلقات اور کنفیڈریشن کی طرف پیش رفت۔ 
وزیراعظم اتنے مایوس کیوں ہیں؟
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے: میں گیا تو اپوزیشن بھی جائےگی اور ہماری زندگی میں الیکشن نہیں ہونگے۔ امریکہ سے روٹھے ہوئے ہیں۔ وہ دوبارہ حملہ نہ ہونے کی ضمانت دے۔ میمو کیس سپریم کورٹ میں لے جانا پارلیمنٹ کےخلاف سازش ہے، وزیراعظم نے کابینہ میٹنگ میں حکومتی کامیابیوں کے کافی دعوئے کئے لیکن اُنہوں نے جن منصوبوں کی تکمیل کا دعویٰ کیا وہ آخر نظر کیوں نہیں آتے اور اُنکے نتیجے میں عوام کی منفی رائے کیوں ہے کیا مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب ایک انچ بھی پیش رفت کی گئی کیا توانائی کے بحران کو حل کرنے کے وسائل کے باوجود غفلت نہیں برتی گئی کیا کالا باغ ڈیم جیسے اہم قومی منصوبے کو دفن نہیں کیا گیا۔ لگتا ہے وزیراعظم کسی غیر معمولی کیفیت میں یہ بھی کہہ گئے کہ میں گیا تو اپوزیشن بھی جائےگی اور ہماری زندگی میں الیکشن نہیں ہونگے، انہوں نے یہ بھی سوچا کہ اپنے جانے کی بات کیوں کر رہے ہیں آخر موصوف نے قومی مفاد کے کون سے عظیم منصوبے مکمل کئے جن سے عوام کو فائدہ پہنچا ہو ،توانائی کا مسئلہ اہم ترین ہے مگر اُسے چھیڑا تک نہیں گیا، کوئی بھی حکمران یہ احسان جتانے کے انداز میں کیوں کہے کہ میں گیا تو کچھ نہیں بچے گا۔ کچھ کیا ہوتا تو آج اُنکی زبان پر اپنے جانے کی بات نہ ہوتی اور اپوزیشن کے جانے کی بات تو ویسے بھی مہمل ہے کیونکہ وہ موجود رہتی ہے بلکہ ممکن ہے وزیراعظم اگر گئے تو وہ بھی اپوزیشن میں ہونگے ۔ امریکہ سے روٹھنے کی بات کرکے انہوں نے پھر امریکہ سے گویا رومانس کی بات کی ہے آج تک کوئی ایک ڈرون گرانے کی اجازت نہ دی گئی، کیا نیٹو سے بدلہ لے لیا گیا۔ سپلائی بند کرنا جراتمندانہ اقدام ہے بشرطیکہ یہ امریکہ کے روٹھوں کو منانے پر پھر سے جاری نہ کردی جائے ،میمو گیٹ سکینڈل اگر عدالت میں لے جایا گیا ہے تو یہ کوئی کفر نہیں سرزد ہوگیا اگر حکومت اس کیس میں پاک دامن ہے تو دوڑ کر عدالت میں جائے اپنی صفائی پیش کرے پارلیمنٹ میں باقی معاملات کا جو انجام ہوا وہی میمو کا بھی ہونا تھا اب تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا اس میں واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے، حکومت کو کوئی بھی دھکا دیکر اقتدار سے باہر نہیں کر رہا لیکن حکومت خود ہی جانے کی بات کرے تو پھر ظاہر ہے اپنے ” مثالی گڈ گورننس“ کے باعث جائےگی۔ وزیراعظم اپنے کارناموں کی تفصیل بیان کررہے ہیں اگر وہ ایک ٹیلی فون پر نہیں رُکے تو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کس کے فون پر بند پڑی ہے اور بھارت جو ہمارے خلاف ہر ناپسندیدہ حرکت کر رہا ہے‘ کیا اُسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینا بھی کسی آقا کے حکم کی تعمیل نہیں۔

Post a Comment

0 Comments