.بلوچستان کا خون آشام قومی مسئلہ



.بلوچستان کا خون آشام قومی مسئلہ
تحریر: دانیال رضا
م،13.04.2009۔ 
امریکہ بھی اب براہ راست اس ملائیت اور قومی شاونزم کی لڑائی سے فائدہ اٹھانے کاسوچ چکا ہے ۔ اور اسکا یہ بیان کہ پاکستان کی ٹوٹ پر اس کو نامناسب جو امریکی سامراجی مفادات کے لیے بہت ہی مناسب ہیں اقدام اٹھانے ہوں گے اور اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا بیان بھی امریکی سامراج کے بھیانک عزائم کی اعکاسی کر رہا ہے۔ سب دنیا کے عوام کو معلوم ہے کہ امریکہ کس سے کتنا وفادار اور ہمدرد ہے۔ اسے صرف اپنے سامراجی استحصال کے مفادات عزیز ہیں یہ امریکہ کی داشتہ اقوام متحدہ یا امریکہ کی عیاری جو اخباری بیان بازی میں لپٹی ہوئی ہے جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں ۔ قومی محرومی جو اصل میں طبقاتی محرومی کی ہی ایک شکل ہے کی تحریک کو قومی تعصب کی آگ میں دھکیلنے کی کوشیش کرر ہے ہیں۔ تاکہ پاکستان کی کوئی اجتماعی طبقاتی تحریک نہ ابھر سکے جس سے امریکی سامراجی مفادات کو کوئی ٹھنس پہنچے۔ امریکہ نے پاکستان کو تقسیم کرنے کا پلان تیار کرلیا ہے۔ یعنی پاکستانی عوام کی طاقت کو ٹوٹنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جس کا فیصلہ امریکی یا مقامی حکمران نہیں بلکہ عوامی تحریک کرئے گئی۔ بلوچستان جو قدرتی معدنیات سے مالا مار امیر ترین علاقہ ہے جس کی اہمیت اب گوادر کی بندر گاہ کے حوالے سے مزید بڑھ گئی اور عالمی نوعیت کی ہوگئی ہے ۔ مستقبل میں امریکہ اور یورپ مال برداری کے لیے سمندری راستے کے لیے دو بئی سے زیادہ گوادر کی بندر گاہ کو فائدے مند سمجھتے ہیں کیونکہ یہ نہایت سستی اور فاصلے کو کم کردے گئی۔ اس کے علاوہ یورپ کو آج صرف روس گیس سپلائی کر رہا ہے اور اسکی قدرتی گیس پر اجارہ داری ہے اسی حوالے سے یہ یورپ کو بلیک میک کرتا اور منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ جس کا یورپ کو بڑا دکھ اور اس سے یورپی حکمران بہت بے چین ہیں وہ روس کی اس اجارہ داری سے ہر صورت نجات پانا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں روس نے اپنی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خاطر یورپ کی گیس بھی بند کردی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ افغانستان کی جنگ میں بھی یورپ بڑھ چڑھ کر امریکہ کے ساتھ اسی لیے حصہ لے رہا کہ وہ وسطی مشرقی ایشیائی ریاستیں جو روس سے الگ ہوئی ہیں یہ بھی قدرتی وسائل سے مالا مار ہیں ان ممالک کی قدرتی گیس کو اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے تاکہ روس کی محتاجی ختم کی جاسکے ۔ ان سابقہ روس کی مشرقی ریاستوں سے گیس کی پائپ لائن افغانستان کے راستے لانے کا سامراجی پلان ہے جو ابھی تک کامیاب نہیں ہو رہا۔ افغانستان کی اس جنگ پر لیبل بنیاد پرستی کے خاتمے کا ہے جبکہ اس کے پیچھے عالمی اجاراداریوں کے لوٹ گھسوٹ کے پلان ہیں۔ اور اب بلو چستان کو بھی پاکستان سے اسی حوالے سے الگ کر کے خود کنٹرول کر کے لوٹنے کا مارشل پلان بنایا جا رہا ہے اور آج کل جب امریکہ شدید ترین عالمی مالیاتی بحران کی زد میں ہے بلوچستان پر قبضہ بڑا فائدہ مند ہوگا لیکن ہم جہاں پاکستانی ریاست کا بلوچستان پر سامراجی کردار کی مذمت اور مذاحمت کرتے وہاں ہم امریکہ، اقوم متحدہ اور یورپ کی بلوچستان پر سامراجی عزائم کی بھی زبردست مذمت اور مذاحمت کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر بلوچستان پاکستان کی بجائے کسی سامراجی ملک کے پاس جاتا ہے تو اس کا مطلب چھوٹے لیٹرے کے پا س سے بڑے لیٹرے کی زد میں جانا ہے جس سے عوام کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگئی بلکہ پہلے سے زیادہ بدحال ہوجائے گئی۔اور ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج کی عالمی سرمایے کی منڈی میں چھوٹی اور کمزور منڈیاں زیادہ استحصال اور ظلم وجبر کا شکار ہیں اور سامراجی آقاوں کی سخت اور ہولناک جکڑ ان پر مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اگر بلوچستان پاکستان سے الگ ہوتا ہے تو اس کی حالت آج سے بھی زیادہ بدتر ہو جائے گئی۔ بنگلا دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یا پھر یورپ میں کوسواہ ۔موجودہ نظام کے تحت علیحدگی کوئی حل نہیں بلکہ مزید زلت اور رسوائی ہے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں ان سب جاگیردار ، سرمایہ دار، فوجی، سردار، اور سامراجی حکمران لیٹروں کے خلاف بلوچستان ، سندھ ، پختون خواہ اور پنجاب کے محنت کش عوام کے طبقاتی اتحاد کو مزید مضبوط کر کے موجودہ استحصالی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو تیز کرنا چاہیے ایک سوشلسٹ انقلاب کے لیے جس میں کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر استحصال کا کوئی حق اور اختیار حاصل نہ ہو تمام قوموں ایک رضا کارانہ فیڈریشن میں منظم ہوں اور اگر کوئی قوم الگ ہونا چاہے تو اسکو اسکا مکمل اختیار ہو ۔ سماج کا مقصد صرف اور صرف عوام کا معیار زندگی بلند کرنا ، سماج کی اجتماعی ترقی جس قدر ممکن ہو کرنا ، انسانی مانگ کا خاتمہ ، اور انسان کا عظیم مقصد تسخیر کا ئنات ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ہمیں پاکستانی ریاست کی ٹوٹ کا کوئی دکھ نہیں ، جو ہے ہی حکمران کی لوٹ مار کا ایک منظم ادارہ ۔ لیکن پاکستانی محنت کش طبقے کی ٹوٹ کے خلاف ہم مذاحمت ضرور کریں گئے اوربھر پور کریں گئے ہم پاکستانی محنت کش طبقے کی اجتماعی طاقت کو کمزور ہوتے تماشائیوں کی طرح نہیں دیکھیں گئے ۔ نہ صرف پاکستانی محنت کش طبقے کی رجعتی ٹوٹ کے خلاف بلکہ تما م ایشیا اور پھر تمام دنیامیں مزدور طبقے کی ٹوٹ کے خلاف انکے عالمی مضبوط اتحاد کے لیے جدوجہد کریں گئے۔ جو مارکس ازم ، سوشلزم ، کا بنیادی نعرہ ہے،، دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاو،،۔ آج ہمیں بلوچستان سمیت پاکستان کی تمام محروم قومیتوں جن میں سندھ، پختون خواہ، کشمیر شامل ہیں کے حق خود ارادیت کی مکمل حمائت کرنی چاہیے ہم ہر قسم کے استحصال کے خلاف مذمت اور مذاحمت کرتے ہیں وہ علاقائی ہو قومی ، مذہبی، لسانی یا پھر کوئی بھی ہو ہم اس کے خلاف ناقابل مصالحت لڑائی کرتے ہیںطبقاتی بنیادوں پر سوشلسٹ اور مارکسی بنیادوں پر۔۔ ۔ ۔ ۔ اس کے علاوہ بلوچستان کا قومی مسئلہ آج اتنا آسان اور سادہ بھی نہیں ہے بلکہ مشکل ترین اور نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ آج بلوچستان کے تمام شہروں میں غیر بلوچوں آباد کار بھی بڑی اقلتوں میں بسے ہوئے ہیں اور اگر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوتی ہے تو یہاں ایک بڑی خون ریزی کا خطرہ ہے بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک شہروں سے دور تو چلائی جا سکتی ہے لیکن شہروں میں جو کسی بھی تحریک میں فیصلہ کن کرادر دار کرتے ہیں اور یہاں غیر بلوچ بھی ایک بڑی مقدار میں موجود ہیں اگر یہ علیحدگی کی تحریک یہاں آئی تو بلوچوں اور غیر بلوچوں میں ایک بڑی خون ریز لڑائی ہوگئی جس کو پاکستانی ریاست اور اسکے حکمران پھر پور طریقے سے اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے استعمال کریں گئے۔ اور اس طرح بلوچستان میں مقامی اور غیر مقامی محنت کش طبقہ آپس میں الجھ جائے گا جس کا تمام فائدہ استحصالی حکمران طبقات اٹھائیں گئے اور محنت کش طبقے میں ٹکراو حکمرانوں کو مضبوط اور عوام کو کمزور کرئے گا۔ ایسا ہرگزیز نہیں ہونا چاہیے۔ جو بلوچستان کے مستقبل اور یہاں کے عوام کی زندگیوں کو مزید عذاب میں دھکیل دے گا۔ لینن نے ایک بار کہا تھا کہ قومی مسئلہ اصل میں روٹی کا ہی مسئلہ ہے۔ جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کو دینے سے مکمل قاصر ہے۔ اس لیے معاشی اور سماجی آزادی کے بغیر ہر آزادی چھوٹی اور جعلی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بھی موجودہ نظام کے تحت ملک میں قومی مسئلہ کے حل میں مکمل بے بس ہے اس کا حل براہ راست سماجی ترقی اور عوام کے بلند معیار زندگی میں ہے جبکہ پاکستانی عوام کا معیار زندگی روزبا روز گرتا ہی جا رہا ہے ۔ بلوچستان میں تو آٹا تک میسر نہیں ہے اگر ہے تو اس کو کوئی عام آدمی فورڈ نہیں کر سکتا یہی سرمایہ داری کے تحت سماجی اور معاشی مسائل کا اژدھا ہے جو عوام کو نگلتا جا رہا ہے اور تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے ۔ سیاست معیشت کا ہی عکس ہے جس کی تبدیلی کے بغیر مسائل بڑھتے اور سنگین ہوتے جائیں گئے وہ قومی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ آو طبقاتی اتحاد کی طرف طبقاتی جنگ کے لیے سرمایہ داری ،جاگیرداری، حاکم سرداری، سامراجیت کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جو نجات کا واحد راستہ ہے۔ 


Post a Comment

0 Comments